آواز دو! اپوزیشن کہاں ہے؟

ارشاد احمد ولیؔ

قدرت کا اصول ہے کہ طاقت کا توازن قائم رہے تو انسان میں فرعونیت نہیں آتی ،یہ توازن انسان کو جنگوں، زیادتیوں اور من مانیوں سے باز رکھتا ہے ،عالمی سطح پر امریکہ اور روس کے درمیان کئی دہائیوں تک توازن قائم رہنے سے دنیا میںکافی حد تک امن رہا ،جب روس کمزور ہوا تو ہم نے نیو ولڈآرڈر کی اصطلاح کے ساتھ بڑے پیمانہ پر انسانی خون بہتے دیکھا۔ پارلیمانی ریاست میں توازن کا یہ اصول مضبوط اپوزیشن کے وجود سے مشروط ہے ہندوستان میں یہ توازن اس لئے بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ قانون و اخلاقیات کے معاملہ میں ہمارے لیڈرکوئی مثالی ریکارڈ نہیں رکھتے  ملک کے موجودہ منظر نامہ میں مضبوط اپوزیشن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ حکومت اپوزیشن کے دبائو کی وجہ سے کچھ کام کرنے پر مجبور ہے لیکن جس ملک کی اپوزیشن خواب غفلت میں مبتلا ہو اور حزب اقتدار کے پالیسیوں سے عوام کے اکتا کر دوبارہ اس کے جانب رخ کرنے کا منتظر ہو تو ایسے ملک اور عوام کا کیا ہوگا خدا کی پناہ !

حزب اقتدار کی من مانی کا عالم کیا ہوگا اس کا صرف تصور کیا جا سکتا ہے ،جس ملک کی اپوزیشن جماعت کی پکڑ جتنی کمزور رہی ہے حکمراں جماعت نے ملک کو لوٹنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی ہے لہذا بیدار مغز عوام اور فہم و ذکا کے مالک افراد ہمیشہ اپوزیشن جماعت کو بھی اپنی نظر میں رکھتے ہیں اور حکمراں جماعت کی من مانی پر اس جماعت سے اس کی پالیسیوں پر تنقید کرنے اور حکومت کی اس غلطی کو عوام کے سامنے آشکارا کرنے کی ذمہ داری سمجھتے ہیں تاکہ آنے والے دنوں میں عوام حکمراں جماعت کے کالے کرتوتوں سے اچھی طرح واقف رہیں اور اپنے حق رائے دہی کے وقت صحیح فیصلہ کر سکیں لیکن جب حکمراں جماعت کی پالیسیاں عوام مخالف ہوں اور اپوزیشن سو رہا ہو تو پھر ملک تباہی کے دہانے پر چلا جاتا ہے۔

اب ملک عزیز ہی کی مثال لے لیجئے ملک میں پٹرول کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں مہنگائی کے شباب کے دن میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، ملک کی شرح نمو تیزی سے زوال پذیر ہو رہی ہے، گورکھپور، فرخآباد، ناسک کے سرکاری اسپتالوں میں بچے دم توڑ رہے ہیں نوٹ بندی نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے تو رہی سہی کسر جی،ایس،ٹی نے  پوری کر دی ہے ،اس ٹیکس نے تو درمیانی درجے کے کاروباریوں کی رنگت چھین لی ہے گراہک بھی سکون محسوس نہیں کر رہے ہیں ملکمیں معاشی مندی سی صورتحال ہے کسانوں کی زمینوں کے حوالے سے حکومت کا جو رویہ رہا اور کارپوریٹس کے لئے یہ حکومت جس طرح سے ممد گار ثابت ہوئی ہے ، ریل کا موجودہ نظام سنبھالا نہیں جا رہا ہے اور بلیٹ ٹرین کے نام پر ملک کے غریب عوام کی دولت کو پانی کی طرح بہانے کا حکومت نے تہیہ کر لیا ہے۔ ملک کے لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری نہیں ہو رہی ہیں اور اسے صرف وعدوں کا سبز باغ دکھایا جا رہا ہے ، کسان خود کشی کرنے پر مضبور ہے تو اقلیتی طبقہ سہما ہوا ہے ،گائو رکشک جہاں آزاد گھوم رہے ہیں تو دم ٹوڑتے بچوں کی حمایت میں لب طرازی کر نے والے کفیل سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

 یہ ایسے معاملات ہیں جن پر اپوزیش کو عوام کی توجہ مرکوز کرانی چاہئے تھی ،لیکن  ملک کا اپوزیشن کہیں پر مورچہ سنبھالتا نظر نہیں آرہا ،رام رحیم کے غنڈوں نے ہریانہ میں دہشت پھیلا کر 38لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا بنگلورو میں گوری لنکیش کی کو گولی مار دی گئی ،تعلیم کے اداروں کو حکومت کی پالیسیوں نے اکھاڑے میں تبدیل کر دیا باوجود اس کے اپوزیشن کہیں دکھائی نہیں دیتا اپوزیش کے بالمقابل خود حکمراں جماعت کا ہی ایک لیڈر اپنے ضمیر کی آواز سن کر کھڑا ہوتا ہے اور حکومت کی غلط پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا تا ہے تو حکومت اپنی بغلیں جھانکنے لگتی ہے آخر کتنا معصومانہ انداز ہے اس حکومت کا تین سال سے زائد مدت گزر چکے ہیں اور ابھی تک جو بھی حکومت کی پالیسوں پر عوام سوال کرتے ہیں تو ان کا سیدھا سا جواب ہوتا ہے کہ یہ سابقہ حکومت کی غلطیوں کا نتیجہ لیکن کوئی یہ پلٹ کر سوال نہیں کرتا کہ جب سب سابقہ حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے اسی لئے تو عوام نے آپ کو اقتدا دیا ہے کہ آپ ان غلطیوں کو سدھاریں یا پھر عوام نے آپ کو گھیاں چھلنے کے لئے اقتدار دیا ہے۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ موجودہ حکمراں جماعت نے ایک بعد دیگرے لاتعدادغلطیاں کیں اور اپوزیشن کو اس بات کا موقع دیا کی وہ ان غلطیوں کو عوام کی عدالت میں لے جائیں اور اپنے گناہوں کی تلافی کریں لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ،اچھی طرح سے جمی بی۔ جے، پی کو سیاسی طور سے کئی کمزور کڑیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے وہ تو بھلا ہو  سوشل میڈیا کا جو ہر معاملے کو لپک لیتا ہے جس کے ذریعہ عوام کچھ حقیقت سے آشکارا ہو جاتے ہیں لیکن دل میں دھڑکا لگا رہتا ہے کہ سوشل میڈیا کہ کس بات پر عمل کریں اور کس بات کو ناکار دیں پھر یہ بھی تو ہے حکمراں جماعت کی سوشل میڈیا پر بٹھائی گئی فوج چپکے سے اس معاملے کا رخ موڑنے اور اسے کچھ کا کچھ کرنے میں ید طولیٰ جو رکھتی ہے۔ اپوزیشن نے جس تساہلی کا مظاہرہ کیا ہے اس پر بحث ناگزیر ہے

آخر یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے گڑھ گورکھپور میں اسپتال کی خوف ناک صورتحال سے کون واقف نہیں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سیکڑوں بچے موت کی آغوش میں سو گئے نتیجتاََ یہ معاملہ پوری طرح سے خراب انتظامیہ کا تھا لیکن اپوزیشن نے اس پورے معاملہ میں جو رویہ اپنایا وہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا۔ نوٹ  بندی کو لیکر بھی پورا اپوزیشن خیمہ سویا رہا اور ملک کا وزیر اعظم نے اپنی اس غلط پالیسی کو بھی عوام کے جذبات سے کھیل کر اچھا فیصلہ ثابت کر نے کی ناکام کوشش کی ،اپوزیشن کی وجہ سے ہی پہلے عوام لچھے دار باتوں سے نوٹ بندی میں الجھ گئے اور اسے حکومت کا صحیح فیصلہ سمجھنے کی بھول کر بیٹھے یہاں پر بھی اپوزیشن نے عوام کے ساتھ حکمراں جماعت کی طرح دھوکہ دھڑی سے کام لیا ،نوٹ بندی پر آر ،بی ،آئی سے آنکڑے آنے میں دیر ہوئی تو اس کی ذمہ دار بھی اپوزیشن ہے کیونکہ کبھی اس نے حکومت پر اس کے لئے دبائو ہی نہیں ڈالا اور جب آنکڑے آئے تو کافی چونکانے والے تھے 99%نقدی بینک میں واپس آگئی۔ نوٹ بندی سے دوسرے فوائد جو بھی ہوئے ہوں لیکن یہ ایک آنکڑا حکومت کوشرمسار کرنے کے لئے کافی ہے باوجود اس کے کہ نوٹ بندی سے کس کا فائدہ ہوا اور کس کا نقصان ہوا یہ ایک طویل بحث کا موضوع ہے یہاں پر اپوزیشن کو پوچھنا چاہئے تھا کہ کالے دھن سے امیر بنے لوگ سرکار کے ناک کے نیچے سے کیسے نکل گئے اس کے بجائے اپوزیشن نے صرف بزرگ منموہن سنگھ کے نرمی بھرے تحریر سے نوٹ بندی کی مخالفت کی۔

سرکار کے ذریعہ جی ایس ٹی کو بہت انوکھا قدم مانا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ یہ ایک دن ہندوستان کو اوپر اٹھائے گا پھر بھی موجودہ جی ایس ٹی ابھی حقیقی جی ایس ٹی نہیں ہے ،مختلف اقسام کے آدھا درجن سے زائد ٹیکس اب بھی ہیں جو جی ایس ٹی کے اہم مقاصد کے عین مخالف ہیں ،کئی صنعتیں اسی جی ایس ٹی کی وجہ سے مشکل میں آگئی ہیں ،کئی شعبوں میں آخری خریدار جی ایس ٹی کے بعد زیادہ ادائیگی کررہا ہے اپوزیشن کو اس مدعے پر عوام کے سامنے صحیح رخ کو پیش کرنا چاہئے تھا ،اسے موجودہ جی ایس ٹی کے خدوخال سے عوام کو واقف کرانا چاہئے تھا اور یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ اس سے قبل جب حکمراں جماعت  نے اس بل کو لانے کی کوشش کی تھی تو سب سے زیادہ شور و غوغا  اپوزیشن میں بیٹھی اسی جماعت نے پچایا تھا لیکن جب وہی جماعت اقتدار میں آئی تو اپوزیشن نے عوام کو دھوکے میں رکھا۔ راستے سے بھٹکے اپوزیشن کو دیکھ کر لگتا ہے وہ اپنے جی ایس ٹی ریٹرن بھرنے میں زیادہ مشغول ہیں اس لیئے یہ موقع بھی اس نے گنوا دیا شاید نوٹ بندی اور جی ایس ٹی اور متعدد حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ معاشیات پچھلے سال سے بھی دھیمی ہو گئی ہے ہو سکتا ہے کہ عام آدمی اسے سمجھتا ہو پر میڈیا میں اس پر بحث چھیڑی ہی جانی چاہئے تھی کہ بی ،جے،پی نے جس تیزی سے معاشی ترقی کا وعدہ کیا تھا اس میں وہ پوری طرح سے ناکام ہے ان کو بتایاجانا چاہئے تھا کہ کس طرح ان کی پالیسیاں کسان مخالف اور کارپوریٹ کی حمایتی ہیں۔

 بابا رام رحیم جو ایک سزا یافتہ مجرم ہے اس کو ہریانہ سرکار نے کیسی کیسی مدد بہم پہونچائی وہ کسی سی ڈھکی چھپی نہیں ہے گلیوں تک میں خون خرابہ ہوا اس مدعے پر بھی قومی پیمانے پر سرخیوں میں آنے کا موقع حزب اختلاف کے پاس تھا اور یہ واضح کرنے کی ضرورت تھی کی مذہبی امور کو حل کرنے میں بی ،جے،پی پوری طرح سے ناکام ہے لیکن اپوزیشن اس پر بھی خوموش تماشائی بنا رہا۔ صحافی غوری لنکیش کے قتل کا معاملہ قابل مذمت ہے اور بلا کسی ثبوت کے حکومت پر قتل کا الزم نہیں لگایا جاسکتا لیکن کوئی یہ ماحول تو بنا ہی سکتا تھا کہ چاروں طرف خوف کا ماحول ہے اور کوئی بھی محفوظ نہیں خاص طور سے وہ جو حکومت کے خلاف سچائی کا پاسبان ہے لیکن اپوزیشن یہاں بھی خاموش رہا ،اپوزیشن کی مجرمانہ خاموشی کسی اور بات کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ سوال کئے بنا رہا نہیں جاتا کہ کیا اب ہندوستانی سیاست اس رخ پر ہے کہہمارے اقتدار میں آپ خاموش رہو ،آپ کے اقتدار میں ہم خاموش رہیں گے ؟

اپوزیشن جماعت سے جمہوریت کی توقع صرف اتنی ہے کہ وہ حکومت کو آئینہ دکھاتی رہی اور عوام کو صحیح وغلط کی سیکھ دیتی رہی  ہمارا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ملک کو اکھاڑے میں تبدیل کر دے بلکہ ایک جمہوری طریقے سے منظم انداز میں اس کام کوآسانی سے کیا جاسکتا ہے کیونکہ حزف اختلاف کی طرف سے حکومت کی پالیسیوں سمیت علاقائی یا وفاقی حکومت کی خامیوں کو گنوانا اور اس حوالے سے ارکان حکومت کو نشانہ تضحیک بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نا جانے دینا جمہوریت پسند اپوزیشن کے ایسے ہی انداز سیاست کو اختلاف رائے کا نا م دیکر اسے جمہوریت کا حسن قرار دیتے ہی حکومت کو دبائو میں لانے یا تنقید کرنے سے جمہوریت کو کوئی نقصان نہیں پہونچتا بلکہ اس تنقید سے جمہوریت اور عوام کو فائدہ ہی پہنچتا ہے ،جمہوری نظام میں حزب اختلاف کا کام ارباب اقتدار کی خامیوں ،لغزشوں اور خرابیوں پر تنقید کرنا اور حکومت کا کام ان کے سد باب کے لئے سعی کرنا ہوتا ہے یہی جمہوری نظام کی خوبی اور اس کے تقاضے ہیں۔ لیکن ملک عزیز کا اپوزیشن کہاں اور حکمراں جماعت کی پالیسیاں کس طرح ملک کو دیمک کی طرح کھانا شروع کیا ہے اس کا اندازہ اب ہر فہم و ذکا کے مالک شخص کو ہو چلا ہے لیکن اس پورے معاملے میں اپوزیشن نادارد ہے۔ اپوزیشن کو آوا زدو ! اپوزیشن کہاں ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔