آؤ اس سُنت پر بھی عمل کریں!

مدثراحمد

حالیہ کچھ سالوں میں مسلمانوں میں کافی بڑی تبدیلیاں آئی ہوئی ہیں، پہلے کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس تعلیمی میعار میں بھی کچھ حد تک اضافہ ہواہے تو کچھ حد تک مسلمانوں کی مالی حالات بھی مستحکم ہوئی ہیں۔ پہلے کے مقابلے میں اب ہمارے درمیان مسجدوں، اسکولوں اور مدرسوں کی تعدادبھی بڑھنے لگی ہے، سماج کا ایک بڑا طبقہ خوشحال اور اچھی زندگی گذار رہا ہے تو وہیں دوسری جانب اسی مسلم سماج کا ایک حصہ مجبور اور لاچار زندگیاں گزار رہا ہے۔ اس کے کئی وجوہات ہیں اور ان وجوہات پر تبصرہ کرنا یہاں ممکن نہیں ہے۔

 آئے دن ہمارے درمیان ایسے کئی معاملات پیش آتے رہے ہیں جن میں لوگ مالی طور پر پریشان گھوم رہے ہیں تو کچھ لوگ اپنے علاج وادویات کو لیکر پریشان ہیں تو کچھ لوگ اپنے بچوں کی تعلیم کے اخراجات اٹھانے سے محروم ہیں، حکومتی سطح پر ان دونوں چیزوں کیلئے تعاون دیا جاتا ہے لیکن اس امداد کو حاصل کرنے کے باوجود ان لوگوں کامسئلہ حل نہیں ہوتا کیونکہ حکومتی امداد نہایت محدود ہوتی ہے جبکہ صحت اور تعلیم کے معاملے میں اخراجات بہت بڑے پیمانے پر ہوتے ہیں۔ مثال کے طو رپر اگر کوئی شخص اپنے دل کاآپریشن کروانا چاہ رہا ہے  تو ا س کیلئے کم ازکم1.50 لاکھ روپئے کاخرچ آئیگا، جبکہ حکومت سے ملنے والی امداد30 سے40 ہزار روپئے ہوتی ہے، اسی طرح سے اگر کوئی طالب العلم انجینئرنگ کی سرکاری کوٹے میں داخلہ لیتا ہے تو ا س کیلئے40 ہزار روپئے ہوگی اور یہ فیس کرناٹک میں حکومت ادا کردیتی ہے، لیکن کالجوں میں اس چالیس ہزار رکی فیس کے علاوہ دوسرے اخراجات کے نام پر پچاس ہزار روپئے وصول کئے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے غریب و لاچار طلباء اپنی تعلیم کو جاری نہیں رکھ پاتے اور وہ اپنی حسرتوں کو وہیں پر ختم کردیتے ہیں۔

دراصل ہمارے سماج میں ایسے کئی معاملات پیش آتے رہتے ہیں جس کیلئے  امداد کرنا ہمارا فرض بن جاتا ہے، لیکن ہمارے پاس ان حالات سے نمٹنے کیلئے کوئی مضبوط منصوبہ نہیں ہے اور نہ ہی ہم نے اس پر توجہ دی ہے۔ تعلیم وصحت کے علاوہ ہم ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں وقتاًفوقتاً فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ گروہی تصادم کا شکاربھی ہوتے ہیں، ایسے میں ان لوگوں کی بازآبادکاری کیلئے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں ہم نے اکثر دوسر ے علاقوں یا دوسری ریاستوں میں چندہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہم لوگ ان حالات سے نمٹنے کیلئے پہلے سے ہی تیاری کیوں نہیں کرتے؟۔ اگر باضابطہ طور پر ہم لوگ تیاریاں کرنے لگیں اور اپنے آپ کو کسی بھی ناگریز حالات میں کسی کا محتاج نہ بنانا چاہیں تو اس کیلئے سب سے بہتر طریقہ کار یہ ہے کہ ہر علاقے میں ہر مسجد کے ماتحت ایک بیت المال کا قیام کیا جائے۔

 جس طرح سے محلے میں مسجد کی تعمیر یا مسجد کے اخراجات کیلئے ہم جمعہ یا ہر مہینے میں چندہ وصول کرتے ہیں، اسی طرح سے ہر مسجد میں ایک ایک جمعہ بھی بیت المال کیلئے عوام سے تعاون حاصل کیا جائے تو چندہی دنوں میں ہر محلے کابیت المال مضبوط ہوسکتا ہے اور وقت پڑنے پر تمام بیت المال مل کر ضرورت مندوں کی بڑے پیمانے پر مدد کرسکتے ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو آج کل ہر محلے میں کم ازکم دو تین مساجد تو ہیں ہی، اگر اس ایک مسجد میں ایک جمعہ میں بیت المال کیلئے 2 ہزار روپئے ہی وصول کئے جائیں تو مہینے کے 8 ہزار روپئے کابیت المال جڑ جائیگا اور سال کے96 ہزار روپئے ہونگے۔ یہ96 ہزار روپئے کتنے غریبوں و مستحق افراد کی مدد آسکتے ہیں۔ ویسے ہمارے درمیان پہلے سے ہی کچھ بیت المال کے نام پرادارے قائم کئے گئے ہیں، مگر ان پر بعض لوگ قبضہ جمائے بیٹھے ہیں جن کی وجہ سے نہ کسی کی مدد ہورہی ہے اور نہ ہی ان بیت المال کیلئے سخاوت کامظاہرہ کرتا ہے۔ دراصل بیت المال اللہ کی رضا کیلئے دیا جانے والا مال ہے، اس مال سے اللہ کے بندوں کی امداد ہوسکتی ہے۔

مسجدوں میں ہم نے نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج اور اس کے علاوہ اسلامی مہینوں کے فضائل اور برکات کے تعلق سے خطبے تو خوب سنتے ہیں اور کچھ لوگ اس پر عمل بھی کرتے ہیں، مگر بیت المال کی ضرورت اور اہمیت کے تعلق سے شائد ہی ہم نے کسی مسجدمیں خطبہ سنا ہوگا۔ مسجدوں کے سامنے کئی لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو فقیر بن کر آتے ہیں لیکن وہ فقیر نہیں ہوتے، آج کل نشہ باز، جوئے باز اور ڈھونگی لوگوں کی قطاریں مسجدوں کے سامنے فقیر بن کر کھڑے ہوتے ہیں، ایسے میں کوئی شخص اپنا صدقہ دینا چاہے تو ایسے بے ضرورت لوگوں کی نظر اس کا صدقہ چلا جاتا ہے۔

آپ ﷺ کے زمانے میں جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو زمین کا محصول، مالِ غنیمت، زکوٰۃ، جرمانہ اور صدقات جیسی آمدنی ایک جگہ جمع ہونے لگی تو حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنی خلافت میں بیت المال کا محکمہ قائم کیا تھا، اس بیت المال کے ذریعے سے بیوائوں اور یتیموں کا حصہ مقررکیا گیا۔ ضرورت مندوں کی امداد شروع کی گئی۔ آج ہم مسلمان ہماری زندگی کو اللہ، اللہ کے رسول اور صحابہ کے اصولوں پر چلنے کا دعویٰ کررہے ہیں اور انہیں پر ہماری دعوت بھی ہورہی ہے تو اللہ کے رسول ﷺ اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے بیت المال کانظام جورائج کیا تھا اس پر عمل کرنے میں ہم ہچکچاہٹ کیوں محسوس کررہے ہیں۔ جب ہم بڑی بڑی مسجدوں کے انتظامات کیلئے کمیٹیاں بنا رہے ہیں تو کیوں نہیں ان کمیٹیوں کے ذمہ داران بیت المال کے نظام کورائج کررہے ہیں ؟

کیوں مسلمان عورتوں، بیوائوں، یتیموں، مریضوں اور تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو دردر بھٹکنے پرمجبور کررہے ہیں ؟۔ اکثر مائکرو فائنانس سے قرضے لینے والی عورتوں پر لعنتیں بھیجتے ہوئے سنا ہے، کیونکر محلے کے مسجد کے ذریعے سے بیت المال قائم کرتے ہوئے ان کی مدد کرنے سے گریز کیا جارہا ہے؟اگر اللہ کوراضی کرنے کیلئے ہم لوگ نماز وروزہ رکھ رہے ہیں تو اسی طرح سے اللہ کی رضا کیلئے اس کی مخلوق کی مدد کرنے کے خاطر بھی بیت المال کا قائم کیا جائے اور ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے۔ یہ مضمون صرف پڑھنے کیلئے نہیں ہے بلکہ عمل کرنے کیلئے بھی ہے اور ہم امید بھی کرتے ہیں کہ اس سمت میں پیش رفت کی جائیگی۔

تبصرے بند ہیں۔