حلالہ  اور ماب لنچنگ: اونٹ  نگلنا اور مچھر چھاننا

ڈاکٹر سلیم خان

حضرت عیسیٰؑ نے بنی اسرائیل  کو دیکھا کہ وہ  مذہبی  امور  کی پیروی  پر بڑی باریک بینی سے کام لیتے  ہیں  لیکن بڑے بڑے اخلاقی احکامات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس صورتحال کو بائبل میں مچھر کے چھاننے اور اونٹ  کو نگلنے پر تعبیر کیا گیا۔  مودی سرکار کا بھی یہی حال ہے کہ وہ    تنکوں پر خوب توجہ دیتی ہے مگر  شہتیر  کو نظر انداز کر د یتی ہے۔ مثلاً سپریم کورٹ میں نکاح حلالہ اورکثرت ازدواج کی مخالفت کرنے والی مرکزی حکومت کے وزارت قانون اورانصاف کے اعلیٰ سطحی ذرائع نے بتایا طلاق  ثلاثہ معاملے کی سماعت کےوقت سے ان موضوعات  پر حکومت کا جواب تیارہے اور اسے تبدیل کیے بغیر شدو مد کے ساتھ پیش کیا  جائے گا۔  اس کے برعکس اسی عدالت میں ہجومی تشدد کے متعلق  ایک مقدمہ کی شنوائی کے دوران  مرکزی حکومت کا موقف تھا ’’ اسے (ماب لنچنگ)  روکنے کے لئے علیحدہ قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ نظم و نسق کا معاملہ ہے جو ریاستوں کی ذمہ داری ہے‘‘۔ ایسے میں ترجیحات سے عاری  یہ سرکار اسی نصیحت کی مستحق ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ نے یہودی  رہبانوں کو کی تھی ’’ اے اندھے بھکتو! تم مچھر تو چھانتے ہو اور اونٹ نگل جاتے ہو‘‘۔ یعنی معمولی باتوں  کی میں میخ نکالتے ہو لیکن بڑی ذمہ داریوں کو  فراموش کردیتے ہو۔

سابق چیف جسٹس جے ایس کھیہر نے مئی ۲۰۱۶ ؁ میں  طلاق ثلاثہ کے مقدمہ کی  سماعت کے دوران نکاح حلالہ اورتعدد ازدواج پرفیصلہ سنانے سے انکار کردیا تھا ۔ لیکن یہ جن پھر بوتل کے اندر سے  مارچ  ۲۰۱۸ ؁میں باہر آگیا۔  چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھانولکراور جسٹس چندرچوڑ کی بنچ نے کثرت ازدواج اور حلالہ کے معاملوں پرکچھ عرضیوں کا آغازسماعت کردیا۔ عدالت عظمیٰ میں فی الحال تعدد ازدواج، نکاح حلالہ، متعہ اور مسیار کو آئین کی دفعات ۱۴، ۱۵ اور ۲۱ کی خلاف ورزی قراردینے والی  ۴ عرضیاں زیر سماعت ہیں ۔ ان سارے مقدمات کو ایک پانچ رکنی آئینی  بنچ کے حوالے کردیا گیا ہے۔  اس بابت سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت اور لاء کمیشن کو نوٹس جاری کرکے جواب  طلب کیا ہے۔ ان  چار عرضیوں  میں سے ایک میں کثرت ازدواج  اور نکاح حلالہ کو غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

 شکایت کنندگان میں سے ایک ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے تو خیر بی جے پی معروف رہنما ہیں۔ اپنے پیشے میں ناکامی  کے سبب وہ فرصت کے اوقات اسلام دشمنی پر صرف کرتے ہیں۔ اس خدمت کاانہیں  معاوضہ بھی  ملتا ہی ہوگا۔  ان کے علاوہ ایک پراسرا رنام معلم محسن بن حسین بن عبداد الخطری ہے  ۔ کوئی نہیں جانتا یہ خطرہ کہاں سے نمودار ہوگیا؟ اور اس کو اسلام سے کیا خطرہ ہے؟  ان دو مردوں کے علاوہ  دہلی کی رہنے والی دو خواتین ثمینہ بیگم اور نفیسہ  خان بھی مدعی   ہیں ۔ نفیسہ خان  کے خیال میں نکاح حلالہ دفعہ ۳۷۵ کے تحت عصمت دری  کے زمرے میں آتاہے اور تعدد ازدواج  تعزیرات ہند کی دفعہ ۴۴کے تحت جرم ہے۔ لہٰذا عدالت کو ان پر پابندی لگا دینی چاہیے۔

نفیسہ خان  کی دلیل یہ ہے کہ  دستور  کے مطابق اگر دو قوانین میں ٹکراؤ ہوجا ئے تو پرسنل لاء پر عمومی قوانین کو فوقیت ہوتی ہے۔ وہ  کس دستور کی بات کررہی ہیں ہمیں نہیں معلوم ؟ اس لیے کہ دستور ہند میں  پرسنل لاء کو بنیادی حقوق کے  تحت درج کیا گیا ہے۔ ایسے میں بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ قدرت کی جانب سے ودیعت کردہ ان حقوق کو کوئی ظالم غصب تو کرسکتا ہے لیکن وہ اس کا جبر وستم قرار پائے گا۔ طلاق ثلاثہ کے فیصلے میں  چیف جسٹس  کیہر،جسٹس عبدالعزیز اورجسٹس  جوزف کورین  کی اکثریت نے پرسنل لاء میں مداخلت کے خلاف رائے دی ہے جسٹس جوزف کورین چونکہ  طلاق ثلاثہ کو  خلاف شریعت ہونے کے سبب  پرسنل لاء کے خلاف سمجھتے ہیں اس لیے  ان کی جزوی حمایت سے جسٹس فلی نریمن اور جسٹس  اودے للت کا پلہ بھاری ہوگیا  اورطلاق بدعت کے خلاف فیصلہ    ہو گیا ورنہ پرسنل لاء پر عمومی قوانین کی برتری  نہ  صرف دستور کی روُ  سے بلکہ  سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں بھی  غلط ہے۔

 ثمینہ بیگم کا معاملہ  بہت منفرد اور  دلچسپ ہے ۔ فی الحال تووہ تعدد ازدواج کے خلاف  کمربستہ  ہیں لیکن خود انہوں نے دو مرتبہ نکاح کر نے کے بعد  دو نوں بار طلاق لے چکی ہیں۔ ۱۹۹۹؁  میں پہلی بار  جاوید انور کے ساتھ  ان کی شادی ہوئی جس سے دو بیٹے ہوئے اور بعد میں جاوید نے طلاق دے دی۔  ان کا دوسرا نکاح ۲۰۱۳ ؁ میں ریاض الدین سے ہوا۔ یہ تو اسلامی شریعت  کی خوبی ہے کہ  جو دوسرے نکاح کو ترغیب دیتی ہے اور اسی  کی برکت سے  پہلی شادی کے ۱۴ سال بعد وہ  نکاح ثانی  کرپائیں  ورنہ ہندو معاشرے میں اس کا تصور بھی  محال ہے۔  بدقسمتی سے ایاض الدین نے  دوران حمل ثمینہ کو طلاق دے دی۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ تعدد ازدواج کے خلاف برسرِ جنگ ثمینہ  نے خود ایک شادی شدہ کے ساتھ نکاح کرکے اس کی دوسری بیوی بن گئی تھی  یعنی وہ خود تعدد زادواج کی شریک کار تھی۔ اتفاق سے اگر یہ دوسری شادی کامیاب ہوجاتی تو وہ نہ اشونی کمار کے ورغلانے میں آتی اور نہ  یہ مقدمہ دائر ہوتا۔ ثمینہ کو چونکہ ایک مفت کا وکیل مل گیا ہے اس لیے اس نےاشونی کمار کو اپنا بہی خواہ سمجھ لیا ۔ ان دونوں کی عرضیوں میں کمال یکسانیت  ہے۔

اس انتخاب کے سال میں عوام کی توجہ  اپنی ناکامیوں کی جانب سے ہٹانے کے لیے بی جے پی کو  ایسے غیر اہم اور جذباتی مسائل درکار ہیں ۔ اس لیے  ایک طرف تو رام مندر کے مسئلہ پر سبرامنیم سوامی  عدالت  عظمیٰ کے دروازے پر دستک  دے کرناکام و نامراد لوٹتے ہیں۔ دوسری طرف اشونی کمار کی مؤ کلہ ثمینہ بیگم    کی فوری سماعت کی عرضی کو ٹھکرا کر عدالت عظمیٰ نے پختگی کا ثبوت دیتی ہے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کا کہناہے کہ  مرکزی حکومت کے جوابی حلف نامہ داخل کئے جانے کے بعد ہی   یہ معاملہ زیرسماعت آئے گا۔ اس بنچ میں جسٹس اے ایم کھانویلکر اور جسٹس ڈی وائی چندرچڈ بھی شامل تھے۔ اس  موقع پر بڑے طمطراق سے تیاری کا اعلان کر نے والی  اور ان  روایات  کوجنسی انصاف (جینڈر جسٹس) کے  خلاف قرار دینے والی مرکزی حکومت کی بھی قلعی کھل گئی کیونکہ سرکاری  وکیل ایڈیشنل سالسٹر جنرل تشارمہتا نے   جوابی حلف نامہ داخل کرنے کے لئے مزید مہلت  طلب کرلی۔  بنچ اس درخواست کو قبول کرلیا اور معاملہ التواء میں چلا گیا۔ ان مقدمات میں  حکومت کی نیت درست نہیں ہے۔ وہ شریعت میں مداخلت کے لیے مختلف ممالک کا حوالہ تو دیتی ہے لیکن طلاق ثلاثہ پر ایک ایسی سزا  بھی تجویز کردیتی ہے جس کی نذیر دنیا میں کہیں نہیں ملتی  ۔

شریعت کو توڑ مروڈ کر پیش کرنا دین اسلام کے مخالفین کا پرانا حربہ ہے۔ پہلے تو وہ طلاق کو ہی ظالمانہ قرار دیتے تھے لیکن پھر معاملہ طلاق بدعت یعنی ایک نشست میں تین طلاق پر آکر رک گیا جس کو  پوری ملت نے ناپسندیدہ قرار دے کر مخالفت کی ہوا نکال دی۔ اس کے نافذ ہونے یا نہ ہونے پر ایک ثانوی درجہ کا اختلاف  تھا ۔ ویسے  اگر امت  اس طریقہ سے باز آجائے تو آگے کا مرحلہ ہی نہیں آتا۔  اب حلالہ کو اچھالا جارہا ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کے مطابق  تین طلاقیں (وقفہ بعد وقفہ) واقع ہوجانے کے بعد عورت جب تک  کسی دوسرے مرد سے نکاح نہ کر لے، پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوتی۔  اس عورت کا یہ دوسری شادی  بھی  کسی سازش کے تحت نہیں بلکہ مقصد نکاح کے پیش نظر مستقل  گھر بسانے کی نیت سے  ہونی چاہیے۔ کسی  دوسرے مرد کے ساتھ عارضی نکاح  اس نیت سے کیا جائے کہ ایک مختصر مدت کے بعد وہ خاوند طلاق دے دیگاتاکہ پہلے سے نکاح ہوسکے تو وہ حلالہ کہلاتا ہے۔ اس  طرح کا چور دروازہ شریعت اسلامی کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے ۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’حلالہ کرنے والا اور جس کے لئے حلالہ کیا جائے، دونوں پر اللہ کی لعنت ہو‘‘۔ یہ حدیث مسند احمد۲/۳۲۳، بیہقی۷/۲۰۸، نسائی۶/۱۴۹، ترمذی۱۱۲۰،دارمی۲/۱۹۸، اور ابودائود۲۰۷۶٠٧٦ میں موجود ہے۔ ایک اور حدیث میں آپ ؐ نے فرمایا ’’حلالہ کرنے والا اُدھار مانگے ہوئے سانڈ کی طرح ہے۔ (ابنِ ماجہ۱۹۳۶، مستدرک حاکم۲/۱۹۸، بیہقی۷/۲۰۸)۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ کا فرمان ہے’’ اللہ کی قسم میرے پاس حلالہ کرنے والا اور کروانے والا لایا گیا تو میں دونوں کو سنگسار کر دوں گا‘‘۔ ( بیہقی۷/۲۰۸)۔ حضرت عمر ؓ کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے حلالے کی غرض سے نکاح کیا تھا تو انہوں نے ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی اور فرمایا ’’یہ عورت حلالہ کے ذریعے پہلے خاوند کی طرف نہیں لوٹ سکتی بلکہ ایسے نکاح کے ذریعے لوٹ سکتی ہے جو رغبت کے ساتھ اور دھوکہ دہی کے پاک ہو۔ ‘‘(بیہقی۷/۲۰۸،۲۰۹)۔

حدیث سید المرسلین کے سات مکثرین ’’کثرت سےروایت کرنےوالوں میں سےدوسرے نمبر کے جلیل القدر نابغہ روز مفسر و فقیہ  عبداللہ بن عمر ؓ سے  مروی ہے کہ’’ حلالہ کرنے والا مرد و عورت اگرچہ بیس سال اکھٹے رہیں، وہ زناہی کرتے رہیں گے‘‘۔ (مغنی ابنِ قدامہ۱۰/۵۱)۔ اس بابت ایک واقعہ  بخاری مستدرک حاکم اور بیہقی میں درج ہے۔ ’’ایک آدمی عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس آیا اور ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ۔ پھر اس (طلاق دینے والے آدمی) کے بھائی نے اس کے مشورے کے بغیر اس سے اس لئے نکاح کر لیا تا کہ وہ اس عورت کو اپنے بھائی کے لئے حلال کر دے۔ کیا یہ پہلے کے لئے حلال ہو سکتی ہے۔ عبداللہ بن عمر ؓ  نے  جواب دیا  کہ صحیح نکاح کے بغیر یہ حلال نہیں ہو سکتی ہم اس طریقے کو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بدکاری (زنا ) شمار کرتے تھے۔ ”(مستدرک حاکم ۲۸۰۶،۲/۲۱۷ط، قدیم،۲/۱۹۹، بیہقی۷/۲۰۸)۔ ان حوالوں کی روشنی  میں طلاق ثلاثہ کی طرح حلالہ کی بھی اسلام میں گنجائش نہیں ہے لیکن نکاح کے بغیر لوِ ان ریلیشن تک کو حلال سمجھنے والےاسلام دشمنوں  کا اس پر اعتراض حب علی میں نہیں بلکہ بغض معاویہ میں  ہے۔

وطن عزیز کے بے شمار سنگین مسائل سے صرفِ نظر کرکے  اسلامی شریعت کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑجانا اونٹ نگل کر مچھر چھاننےجیسا ہے۔ وطن عزیز میں شریعت کو بدنام کرنے لیے مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور عدلیہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔ یہ سب مل کر اسلامی شریعت کو خواتین مخالف ثابت  کرنے میں  ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔  اس کے باوجود لوجہاد کا شور بھی ہورہا ہے یعنی ہندو خواتین کے مسلم نوجوانوں کے ساتھ نکاح کے واقعات رونما ہورہے ہیں  جو اس پرپگنڈے  کے کھوکھلے پن  کی قلعی کھول دیتے ہیں۔  ہندوستان و عرب ممالک  کے علاوہ یوروپ و امریکہ میں  بھی دیگر  مذاہب کی پیروکار  خواتین کا  مشرف بہ اسلام ہوجانا کس بات کی علامت ہے؟ کیا یہ ساری خواتین نہیں جانتیں کہ ان کو وقار و احترام  اور تحفظ و نجات کون سا مذہب عطا کرتا ہے؟سچ تو یہ ہے قبر کا حال مردے سے زیادہ کوئی اور نہیں جانتا  ۔ اسلام اگر واقعی خواتین مخالف دین ہوتا تو لاکھوں کی تعداد میں اس کی  باحجاب خواتین کا  شریعت کی حمایت میں سڑکوں پر نہیں اترتیں ۔ وہ اسلام سے بغاوت کرکےعدالت کے چکر لگانے والی ان مٹھی بھر خواتین کے ساتھ ہوجاتیں  جو سنگھ پریوار کا پرچم اٹھائے ہوئے ان کے ہاتھوں کا کھلونا بنی ہوئی  ہیں ۔

مچھر اور اونٹ کی  مثال  کے میں ویسے توکمال کا مبالغہ ہے اس لیے  کہ ایک اونٹ کا وزن تقریباً ۷ کروڈ مچھر کے برابر بتایا جاتا ہے لیکن کیا ہجومی تشدد کا شکار ہونے والے لوگوں  کا ناحق قتل  سارے انسانیت  کے قتل کے برابر نہیں ہے؟ قرآن حکیم میں بنی اسرائیل کو دی گئی تعلیم کاتذکرہ  کچھ اس طرح سے کیا گیا  ہے کہ ’’ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی ‘‘۔ اس قانون پر عملدرآمد کرنا عوام کی ذمہ داری ہے اور اسے نافذ کرنا حکومت کا فرض منصبی ہے لیکن   اسے نظر انداز کرکے طلاق اور حلالہ جیسے غیر اہم مسائل پر اپنی توانائی صرف کرکے سیاسی فائدہ اٹھانے والی  حکومت پر قرآن مجید کی وہ وعید صادق آتی ہے جس کا بیان مذکورہ  آیت کے آخری حصے  میں ہے فرمایا ’’   مگر اُن کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے در پے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں‘‘۔  یہ آیت  امت مسلمہ کو اس کا فرض منصبی یاد دلاتی ہے۔ خاتم الانبیاء کے بعد ان اس ملت اسلامیہ کو انبیائی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے پے درپے قرآن حکیم کی کھلی ہدایات عام انسانیت تک پہنچانی ہوگی۔   امت کے اس مقام کو یاد دلانے کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا ؎

بے خبر تو جوہر ِ آئینۂ ایام ہے

تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔