Musically کا بڑھتا رحجان: مغرب زدہ نسل نو کی تباہی

شہاب مرزا

امت مسلمہ عصر حاضر میں جن بڑے پیچیدہ مسائل سے دوچار ہے۔ ان میں ایک اہم مسئلہ ہمارے سماج کی غیر اخلاقی صورتحال ہے۔ دن بہ دن ہمارے معاشرے میں نت نئے فتنے جنم لے رہے ہیں۔ روز بہ روز ترقی کے ساتھ معاشرے میں عریانیت عام ہورہی ہے۔ جس کی وجہ سے پرسکون زندگی گزارنا دشوار ہوچکا ہے۔ میرا مقصد ترقی اور ٹیکنالوجی کو نشانہ بنانا نہیں ہے۔ اصل میں ہم شہرت  پانے کے شوق میں کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ ہم اس دور میں جی رہے ہیں جو گلوبل نیٹ ورک کا دور کہلاتا ہے جہاں دولت کی ریل پیل ہے جہاں روز نئے طرز کی ایجادات ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک نئی ایجاد ہےMusicallyنامی سوشل اپلیکشن کی جو کم وقت میں کافی مقبول ہوئی ہے۔

 اس کمپنی نے کمو قت میں ۹۰۰ ملین کے قریب اپنے صارفین بنالئے ہیں روزآنہ ۱۲ملین سے زیادہ ویڈیو اس اپلیکیشن میں اپلوڈ ہوتے ہیں۔ اس ایپ میں ۱۵؍ سیکنڈ سے ایک منٹ تک ویڈیو اپلوڈ کرسکتے ہیں۔ اور اپنی پسند کی آواز یا گانہ استعمال کرسکتے ہیں۔ اور اپنی پسند کی آواز یا گانہ استعمال کرسکتے ہیں۔ اس کی شروعات دو چینی دوستوں نے کی ہے ایلیکس زو ہو اور لوینگ دونوں کا تعلق شنگھائی سے ہے۔ ان دوستوں نے اس ایپ کی شروعات ترقی یافتہ دور میں تبدیلی کے لئے کی تھی اور ایک نئی تکنیک ایجاد کی تھی لیکن اس میں عریانیت فحش کلامی اور بے رواداری کو بڑھا وہ مل رہا ہے۔

اس اپلیکیشن میں جس طرح کے ڈائیلوگ استعمال کئے جارہے ہیں وہ نازیبا ہے جنھیں ہم روز مرہ او رگھروں میں نہیں سن سکتے ہیں اور اس ایپ کا استعمال کرنے والوں میں زیادہ تعداد کم عمر لڑکے اور لڑکیاں ہے۔ جو اس سے متاثرہو کر روز مرہ میں بھی اس طرح نازیبا کلمات استعمال کررہے ہیں میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ musically اپلیکشن کا استعمال لڑکوں سے زیادہ مسلم لڑکیاں کررہی ہے۔ اور نازیبا اور واہیات قسم کے کلمات کے ساتھ ویڈیو بنارہے ہیں اسے دوسری سوشل سائٹ فیس بک اور واٹس ایپ پر شئیر کرکے بہت اچھا سمجھا جارہا ہے۔

اس ایپ کا استعمال اورنگ آباد کے سینکڑوں نوجوان لڑکے لڑکیاں کررہے ہیں آخر کیا وجہ ہے کہ جو نوجوان نسل اس طرف راغب ہورہی ہے اس کے ذمہ دار اساتذہ ہیں یا والدین جو انھیں صحیح تربیت نہیں دے پارہے ہیں۔ آپ غور کیجئے جب نوجوان نسل ہر صبح کا آغاز اور ہر شام کا اختتام بے ہوا واوحیات اور فحش کلامی کے ویڈیو سے کرینگے تو اسے کیا مغرب زدہ نسل نہیں کہیں گے؟ جہاں رقص او رموسیقی پر بچوں کو واہ واہی دی جائے اور فلک شگاف قہقہے لگائے جائیں تو نوجوان نسل اسے اپنی کامیابی سمجھے گی اور اگلی مرتبہ مزید واہیات حرکتیں کرنے کی کوشش کرینگے۔ جہاں نوجوان لڑکیاں فیشن پرستی بے حیائی اور بے پردگی کو عام کردے مذہب سے بیگانگی شریعت سے بغاوت اسلامی تہذیب سے لاتعلقی یہودی تہذیب سے اپنائیت عام ہو دینی تعلیم سے زیادہ عزیز مشغلہ فحش حرکتیں ہوں تو پھر سمجھ لینا چاہئے کہ اب مشرقی تہذیب کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اور مغربی تہذیب نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئے ہیں یہ musicallyکا جراثیم اتنی تیزی کے ساتھ ہمارے بیچ پھیل رہا ہے کہ اب تو شیطان بھی پناہ مانگ رہا ہے.

والداین کو چاہئے کہ وہ اس جان لیوا بیماری کا پہلے ہی حفاظتی ٹیکہ لگادے۔ دنیا کی ترقی جس طرح ہورہی ہے۔ یہ وقت بچانے اور پریشانیوں سے چھٹکارا پانے کے لئے ہیں لیکن ہم یہ نہیں سوچ رہے ہیں کہ اس سے ہم عریانیت او رفحاشی کے دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔ ویڈیو بنانے کا بڑھتا رحجان معاشرے میں بے راہ روی کا بڑھاوا دے رہا ہے ویڈیو بنانے کا بڑھتا رحجان معاشرے میں بے راہ روی کا بڑھاوادے رہا ہے ویڈیو بنانے والوں میں لڑکوں بہ نسبت لڑکیاں زیادہ پائی جارہی ہے یہ نمائش اخلاقی پستی کے خلاف ہے کسی کی آبرو کو وسیلہ شہرت بنانے کا شوق ہمارے لئے و بال جان بن سکتا ہے۔ صورتحال ایسی ہوچکی ہے کہ دور دور تک تاریکی ہی تاریکی نظر آرہی ہے۔ شرم وحیا اور خاندانی نظام کا جنازہ نکل رہا ہے خاموشی سے نسل نو کی تہذیب تمدن اسلامی فکر نکلتی جارہی ہے اور عریانیت فحاشیت کو فروغ دیا جارہا ہے ہمارے نوجوان یہ نہیں سوچ رہے ہیں کہ ان کا ایک ویڈیو انہیں کسی دلدل میں ڈھکیل رہا ہے اور کس طرح بے ہودگی کو بڑھاوا دینے والوں میں شامل کررہا ہے۔

چلنا تھا جس کو دین کی پاکیزہ راہ پر

وہ قوم بے حیائی کے رستے پر چل پڑی

نئی نسل ہمارے روشن مستقبل کی ضامن ہے۔ دیگر نوجوان جو قوم کے لئے مشعل راہ بننا چاہتے ہیں وہ قوم کے تئیں اپنی خدمت انجام دے۔ اگر اس طرح ہماری نوجوان نسل مغربی سیلاب میں بہنے لگے تو پھر صبح نو کی آرزو دم توڑدے گی۔ اولاد کو پڑھانے لکھانے کا شوق سبھی والدین کا ہوتا ہے ہونا بھی چاہئے لیکن مسلمان ہونے کی بناء پر کچھ تقاضے بھی ہیں۔ والدین اگر اپنے بچوں کے تئیں بے حسی اور بے فکری کا مظاہرہ کرینگے تو انہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ عنقریب ان کی لاڈلی اولاد بے حیائی کی ایسی دلدل کا حصہ بن جائے گی جہاں سے واپسی کا تصور محال ہے یہ مکڑ جال ہی کچھ ایسا ہے۔

آخر میں صرف اتنی گذارش ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ خدارا! نوجان نسل کو عریانیت کی طرف بڑھتے قوم کو روکئے۔ کیا نسل نو اس کی طرف قدم بڑھانا چاہتی ہے ؟ یا ہم خود انہیں وہ مواقع اور سامان میسر کررہے ہیں جس کے نتیجے میں بے راہ روی بد اخلاقی اور بے ہودگی عروج کو پہنچ رہی ہے۔

جدید ٹیکنالوجی کا تعمیری یا تخریبی استعمال ہمارے اوپر منحصر کرتا ہے اب ایسے ایپ کا استعمال اگر تعمیری اور تہذیبی اقدار کے فروغ کے لئے کیا جاتا تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اس ایپ کی بدولت محض عریانیت اور فحاشی کا فروغ برپا ہے۔ ایسے میں مسلمانو ں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے نو نہالوں کو بربادی کے دلدل میں پھنسنے سے بچائے ورنہ ہماری بے حسی ہماری نسلوں کو تباہی کا سبب بنے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔