آگ اور پانی کا رشتہ تین برس چلا، بہت چلا

حفیظ نعمانی

آخرکار جموں کشمیر میں صدر راج یعنی مودی راج قائم ہوگیا اب محبوبہ مفتی عمرعبداللہ اور غلام نبی آزاد چاہے ایک دوسرے سے لپٹ کر ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوکر روئیں یا گائیں اب 2019 ء کے الیکشن تک تو مودی جی کا ہی راج رہے گا۔ جس وقت مرحوم مفتی صاحب اور وزیراعظم تین سال پہلے ایک فارمولہ پر متفق ہوکر حلف برداری کی رسم پوری کررہے تھے اس وقت آر ایس ایس کے لیڈروں اور بی جے پی کے ورکر انگاروں پر لوٹ رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس سے بھی 9 سال پہلے یا اور پہلے مفتی صاحب اور کانگریس نے مل کر حکومت بنائی تھی تو یہ فیصلہ ہوا تھا کہ تین سال مفتی صاحب وزیراعلیٰ رہیں گے اور باقی تین سال کانگریس اپنا وزیراعلیٰ دے گی۔

مفتی صاحب نے بہت خوبصورتی سے حکومت چلائی اور جب تین سال پورے ہورہے تھے تو ایسا زبردست زلزلہ آیا جس نے پاکستان کے قبضہ والے کشمیر کو تو بالکل ہی برباد کردیا اور اپنا کشمیر بھی بری طرح ٹوٹ پھوٹ گیا۔ تیسرے دن ہی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ گئے اور کروڑوں روپئے کی مدد کا اعلان کر آئے اس وقت تک کانگریس کی طرف سے ایک بار بھی نہیں کہا گیا تھا کہ اب کشمیر نام کے گھوڑے پر سوار ہونے کی ہماری باری ہے۔ لیکن جب کروڑوں روپئے کا اعلان ہوگیا تو غلام نبی آزاد نے سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کا نام میں دم کردیا۔ وہ جانتے تھے کہ کانگریس کشمیر میں وزیراعلیٰ ان کو ہی بنائے گی اور وہ جلد سے جلد اس خزانہ پر قبضہ کرنا چاہ رہے تھے جس کا بعد میں کوئی حساب نہیں لینا ہے چاہے پورا خرچ کرو چاہے آدھا اپنی تجوری میں رکھو۔

مفتی صاحب نے بہت مہارت کے ساتھ امداد بحالی کا نقشہ بنایا تھا اور تیزی کے ساتھ کام شروع کردیا تھا کہ پروانۂ حکومت لے کر غلام نبی آزاد پہونچے اور مفتی صاحب نے خاموشی سے چارج دے دیا۔ مفتی صاحب کے دل میں پہ زخم تھا اسی لئے انہوں نے وزیراعظم مودی سے یہ معاہدہ کیا کہ آخر تک وزیراعلیٰ وہی رہیں گے۔ مفتی صاحب کی زندگی میں بھی بی جے پی کی طرف سے تن پھن ہوتی رہی لیکن ان کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی محبوبہ مفتی جو سب کے چہرے اور ماتھے کی لکیریں دیکھ چکی تھیں وہ وزیراعلیٰ بننے پر آمادہ نہیں ہوئیں اور وزیراعظم اور وزیر داخلہ یہ چاہتے تھے کہ کسی طرح بٹیا کو راضی کیا جائے اور آخرکار ان کو ہزاروں یقین دہانیوں کے بعد آمادہ کرلیا گیا۔ سیاست اور کشمیر سے دلچسپی رکھنے والوں نے دیکھا ہوگا کہ ہر ایک ہفتہ کے بعد یا وزیر داخلہ کشمیر میں نظر آتے تھے یا ہر ہفتہ محبوبہ بی بی کبھی مودی جی کے دربار میں کبھی راج ناتھ سنگھ کے دربار میں اور کبھی امت شاہ کے دربار میں نظر آتی تھیں ۔

کشمیر اور جموں آج سے یا آزادی کے بعد سے نہیں راجہ کے زمانہ سے پڑوسی نہیں ایک دوسرے کیلئے بوجھ ہیں جموں کے ہندوئوں کو یہ غرور تھا کہ راجہ ہندو ہے اور کشمیر کے مسلمانوں کو یہ زعم تھا کہ اکثریت ان کی ہے اور کشمیر جسے جنت نظیر کہا جاتا ہے وہ ان کے قبضہ میں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ہوائی جہاز سے آنے والوں کے علاوہ جتنے سیاح بھی آتے ہیں وہ جموں ہوکر آتے ہیں لیکن جموں میں رُکنا کوئی نہیں چاہتا۔ ہرچند کہ ریاست ایک ہے لیکن دونوں میں اتنی ہی دوری ہے جتنی جنوبی کوریا اور شمالی کوریا میں ۔ جہاں تک ہماری معلومات ہیں تو نہ کشمیر جموں کے ساتھ رہنا چاہتا ہے اور نہ جموں کشمیر کے ساتھ۔

اس وقت جو علیحدگی کا فیصلہ بی جے پی کو کرنا پڑا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ایک غریب آٹھ سالہ مسلم بچی کے ساتھ ایک مندر میں جو کچھ ہوا اور تین دن تک ہوتا رہا اور اس کی جو چارج شیٹ تیار ہوئی اور بی جے پی کے وزیروں سے لے کر سرکاری اور سیاسی لیڈر سب ننگے ہوکر سامنے آگئے اور ہر شریف آدمی نفرت بھری نگاہ سے انہیں دیکھنے لگا کیونکہ جن لوگوں کو مجرم بنایا گیا تھا اس کے بعد ان کی حمایت کرنے والوں کو کوئی شریف اپنے پاس نہ بیٹھنے دیتا۔ اگر یہ واقعہ کسی مسلمان مرد کے ساتھ پیش آتا تو کچھ بھی نہ ہوتا لیکن ایک غریب چرواہے اور بنجارے کی آٹھ برس کی لڑکی کو مندر میں لاکر اور اسے رپورٹ کے مطابق بیہوشی کی دوا دے دے کر تین دن تین رات بڑوں لڑکوں نے جس طرح کتوں کی طرح نوچا اور بعد میں کچل کر مارا اور جھاڑیوں میں پھینک دیا اس کے مجرموں کو جو انسان کہے وہ خود انسان نہیں ہے۔ ہمیں تو محبوبہ مفتی سے شکایت ہے کہ جب جموں کا سفید پوش ہندو اور سیاسی لیڈر اور وکیل سب ایک نئی ہندو سینا بناکر ننگا ناچ ناچ رہے تھے اور عدالت کی بھی سننے پر تیار نہیں تھے تو ایک خاتون ہونے کی حیثیت سے انہوں نے حکومت سے استعفیٰ دینے کی پیشکش کیوں نہیں کی؟ وہ جانتی ہیں کہ کوئی ہندو کچھ بھی کرلے وزیراعظم اور وزیر داخلہ اس سے رشتہ نہیں توڑیں گے وہ خود دوسرے قسم کے ہندو ہیں ۔ رہی عدالت تو جیسے سپریم کورٹ نے اب تک کیا ہے اگر ان تک بات پہونچی تو توقع کرنا چاہئے کہ وہ رعایت نہیں کریں گے لیکن وزیراعظم یا وزیر داخلہ کو ووٹ چاہئیں اور ووٹ شریف کا بھی ایک ہی ہوتا ہے اور غنڈے کا بھی ایک اور ووٹ مودی کی جان ہے۔

کشمیر میں بھی اگر جموں کی طرح پارٹیاں چاہے جتنی ہوتیں مگر فکر ایک ہوتی کہ وادی کے مسلمان کو نقصان نہ پہونچے تو جموں سر نہ اٹھاتا۔ جموں میں افسروں کے اندر اتنا تعصب ہے کہ تین سال پہلے جب زبردست سیلاب آیا تھا اور ہندوستان کے ہر شہر سے اپنے کشمیری بھائیوں کے لئے مدد کا سامان بھیجا تو اسے جموں میں اتروا لیا۔ جب ان سے کہا کہ یہ سری نگر کے لئے ہے تو کہہ دیا کہ ہم اس کا ہی انتظام کررہے ہیں اور سیکڑوں ٹرک سامان جموں میں اترواکر ان کو بانٹ دیا جن کا معمولی سا نقصان ہوا تھا اور سری نگر نہیں جانے دیا اس ذہنیت کے ہوتے ہوئے عمر عبداللہ جو شیخ عبداللہ کے پوتے ہیں وہ آر ایس ایس کے رام مادھو سے رات بھر یہ نقشہ بناتے رہے کہ آپ اپنا وزیراعلیٰ بنا دیجئے اور ہم مل کر حکومت بنالیں ۔

کشمیر کا نیا خون بہت غلط راستہ پر چل پڑا ہے وہ اب تک پاکستان کا جھنڈا لہراکر ہندوستان کی حکومت کو چڑھاتا تھا جو خودکشی ہے اب اس نے کالا جھنڈا بھی پکڑلیا ہے۔ ہم کیسے کہیں کہ جو ہوگیا وہ اب بدل نہیں سکتا۔ جیسے لاکھوں وہ مسلمان جنہوں نے پاکستان بنایا تھا ہندوستان میں رہ گئے اب وہ کہیں نہیں جاسکتے اور پاکستان گئے تو جاسوس کہہ کر بند کردیئے جائیں گے۔ اس طرح شیخ عبداللہ نے جو کچھ بھی سوچ کر کیا ہو وہ کشمیر ہندوستان کو دے گئے۔ اب دنیا کی کوئی طاقت ہندوستان سے اسے نہیں لے سکتی۔ اب مسلمان لڑکر رہنا چاہیں تو لڑکر رہیں اور مجبوراً رہنا چاہیں تو مجبوراً رہیں رہنا اُن کو ہندوستان میں ہی ہے۔ اس کو نوشتۂ دیوار سمجھو اور کشتیاں جلادو اپنے نوجوانوں کے ہاتھ سے پتھر لے لے کر ان کو قلم دے دو اور ان کی قسمت بنائو۔ پورے کشمیر کی ایک سیاسی پارٹی بنائو اور سیاست اس کے سپرد کرو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔