تو دلی بھی چھوڑ دو!

ڈاکٹر عابد الرحمن

بی جی پی نے کشمیر سرکار چھوڑ دی، پی ڈی پی سے کیا گیا اتحاد توڑ دیااور وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر سر کار گرادی۔ ابھی تک بی جے پی کشمیر کی اتحادی سرکار میں نصف کی حصہ دار تھی لیکن اب سرکار سے حمایت واپس لے کر صدر راج کے ذریعہ گویا پوری حکومت پر قبضہ جمالیا اور صدر راج لگتے ہی مختلف افسران کے تبادلے کر کے اور نئے افسران کا تقرر کر کے اس کا ثبوت بھی دے دیا کہ کشمیر اب پوری طرح اسکی گرفت میں ہے، کشمیر میں صدر راج چھ مہینے سے زیادہ عرصہ نہیں رکھا جاسکتا شاید اسی لئے منتخب اسمبلی برخاست نہیں کی گئی بلکہ اسے سسپینڈیڈ اینیمیشن (suspended animation ) میں رکھا گیا ہے یعنی بی جے پی کوکسی تڑجوڑ کی امید ابھی بھی ہے، کسی سیاسی اتحاد کی گنجائش تو نظر نہیں آتی ہاں ممبران کی خرید وفروخت (Horse trading) ہو سکتی ہے اب دیکھنا ہے کیا کیا جاتا ہے۔

بی جے پی جنرل سیکریٹری رام مادھو نے پی ڈی پی سے علٰحیدگی کا سبب بتاتے ہوئے کہا کہ ہم نے دواہم مقاصد کے لئے اتحاد کیا تھا، قیام امن اور ترقی ( لیکن دوران اقتدار) دہشت گردی، تشدد اور بنیاد پرستی (Radicalisation )  میں اضافہ ہوا جس سے وادی میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو خطرہ لاحق ہو گیا( اسلئے ہم نے حکومت چھوڑدی)۔ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ امن و امان کی خراب صورت حال ہی بی جے پی کے اس اقدام کا سبب بنی، بی جے پی جو کچھ بول رہی ہے وہ اس میں قطعی مخلص نہیں ہے۔ اگر مادھو جی اور بی جے پی امن کی خراب صورت حال کے متعلق واقعی اتنے مخلص ہیں کہ اس کی بنیاد پر اقتدار چھوڑ سکتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ کشمیر کے ساتھ ساتھ دلی کا اقتدار بھی چھوڑ دیں کیونکہ امن وامان کی جو صورت حال جموں و کشمیر میں ہے تقریباً یہی صورت حال پورے ملک میں ہے۔

 پچھلے چار سالوں میں عام پبلک کی بنیاد پرستی (Radicalisation) کتنی بڑھی ہے اس کا ثبوت پورے ملک میں جا بجا ہونے والے ماب لنچنگ (Mob lynchnig) کے واقعات ہیں جن میں کبھی گائے کے نام پر، کبھی ٹرین میں سیٹ کے معمولی جھگڑے کی وجہ سے تو کبھی چوری کے شک کی وجہ سے تو کبھی لو جہاد کی فرضی کہانیاں گڑھ کرخود اسی ملک کے شہریوں کو سر عام قتل کردیا جارہا ہے، توکبھی بچہ چوری کے شبہ میں عورتوں مردوں اور دماغی طور پر معذوروں کو جان سے ماردیا جا رہا ہے اور اکثر معاملات میں مجرمین سے پہلے مظلومین پر قانونی کارروائی کی جارہی ہے۔ ان واقعات کا رکنا تو دور رہا دن بدن ان میں اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے کئی کئی مقامات پر ایک ساتھ یاکچھ ہی دنوں کے فرق سے یہ واقعات ایسے رو نما ہو رہے جیسے منظم ہوں، ان کے کرنے والے ایک جیسے ایک ہی نظریہ کے حامل یا کسی ایک ہی تنظیم یا ادارے سے جڑے اورباہم مربوط ہوں۔ اور خاص بات یہ بھی کہ ان میں کے زیادہ تر واقعات ان ریاستوں میں ہو رہے ہیں جہاں خود بی جے پی کی حکومت ہے۔ اور ان میں سے زیادہ تر ریاستوں اور مرکز میں بی جے پی کی خود مختارمضبوط و مستحکم سرکار ہے جسے کسی اتحادی مجبوری بھی لاحق نہیں سو اس امن وامان کی اس خراب صورت حال اور اس بنیاد پرستی کی ذمہ داری کشمیر کی طرح کسی اتحادی پر بھی نہیں ڈالی جا سکتی۔

ان واقعات میں اضافے کی نہیں تو کم از کم انہیں نہ روک پانے کی پوری ذمہ داری ریاستی حکومتوں پر ہے اور اتنی ہی ذمہ داری مرکزی حکومت پر بھی۔ اگر واقعی بی جے پی نے کشمیر کی حکومت وہاں امن و امان کی خراب صورت حال اور شہریوں کے بنیادی حقوق کو لاحق خطرے کی وجہ سے ہی چھوڑی ہے تو اسے چاہئے کہ  ماب لنچنگ کے واقعات والی ریاستی حکومتیں اور مرکزی حکومت بھی چھوڑ دے کہ ان واقعات سے ملک بھر کے شہریوں کے بنیادی حقوق کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی اور پی ڈی پی سرکار کے دور میں کشمیر میں امن و امان کی خراب صورت حال مزید خراب ہوئی، پاکستان کے حمایت یافتہ دہشت گردوں اور علٰحیدگی پسندوں کو چھوڑئے خود کشمیری نوجوان بھی پتھر پھینکتے ہوئے اور پر تشدد احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں آئے، حالانکہ سرکار نے بھی ان پر آنکھیں بند نہیں رکھی، بلکہ جس شدت سے انہوں نے مظاہرے کئے اسی شدت سے ان کو روکا بھی گیا ان پر پیلیٹ گنس سے فائرنگ کی گئی جس سے کئی نوجوان لڑکے لڑکیوں کو خاص طور سے آنکھوں میں شدید چوٹیں آئیں۔ پھر بھی امن کی بحالی تو دور اسکی حالت میں کوئی سدھار نہیں آیا اور یہ ناکامی صرف پی ڈی پی کی یا وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی نہیں بلکہ حکومت میں حصہ دار بی جے پی کی بھی ہے اور اپنے روایتی ووٹ بنک کو دیش بھکتی کی گھٹی پلا کراور خود کو دیش کا سب سے بڑامحافظ بتاکر دہشت گردی، دہشت گردوں اور علٰحیدگی پسندوں کو ختم کر نے کا دعویٰ اور وعدہ کر نے والی بی جے پی کے لئے یہ کوئی معمولی ناکامی نہیں ہے اور دراصل اسی ناکامی کو چھپانے اور اس کا ٹھیکرہ پی ڈی پی کے سر پھوڑ نے کے لئے ہی بی جے پی نے اس سے علٰحیدگی اختیار کرتے ہوئے کشمیر کی سرکار گرائی ہے، اب در پردہ یہ پیغام بھی دیا جارہا ہے کہ امن و امان کی بہتری کی راہ میں پی ڈی پی ہی رکاوٹ تھی، اب دیکھنا ہے کہ صدر راج کے نام ضمام اقتدار پوری طرح اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد بی جے پی امن امان کی بہتری کے لئے کیا کرپاتی ہے، اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دہشت گردوں کے تئیں کسی قسم کی کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی، ان کے خلاف فوجی اور پولس کارروائیوں کے اشارے بھی دئے جا رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کشمیر میں فوجی اور پولس کارروائیاں کب نرم رہیں کہ اب ان کے سخت ہونے سے کوئی فرق پڑے گا ویسے سیاسی مبصرین کہہ رہے ہیں کہ کشمیر میں جب بھی صدر راج لگا حالات مزید خراب ہوئے۔

 بی جے پی کے حکومت چھوڑنے کی دوسری اور اہم وجہ کشمیر اور پورے ملک میں موجود اس کے روایتی مسلم مخالف ووٹ بنک کو منانے کی کوشش ہے جو کشمیری مظاہرین، علٰحیدگی پسندوں اور پاکستان کو فریق تسلیم کر نے والی پی ڈی پی سے اتحاد سے ناراض اور اس کی وجہ سے ہونے والی تنقیدسے ہراساں تھااسی طرح کٹھوعہ معاملہ میں بھی بی جے پی وہ کچھ نہیں کر سکی تھی جو اس وووٹ بنک کا منشاء تھا حالانکہ اس معاملہ میں اسکے کچھ مقامی و غیر مقامی لیڈروں نے مجرمین کی کھلی حمایت کی تھی لیکن سرکاری طور اپنی یہ بات نہیں منوا سکے تھے ریاستی سرکار نے اس معاملہ میں ان کی بیان بازیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کام کیا تھا اور مرکز کی مودی سرکار نے بھی وہی اسٹینڈ لیا تھا جو ریاستی سرکار کا تھا اور یہ بھی دراصل بی جے پی کی ناکامی ہی تھی، اسی طرح رمضان کے دوران یک طرفہ جنگ بندی کی وجہ سے بھی یہ ووٹ بنک کچھ ناراض ہو گیا تھا۔ خیر کچھ بھی ہو ایک بات تو طئے ہے کہ بی جے پی نے اپنی اس انتہائی شاطرانہ چال سے تین شکار کئے ہیں ایک تو یہ کہ پچھلے کچھ مہینوں سے ایسی خبریں آرہی تھیں کہ پی ڈی پی بی جے پی سے ناطہ توڑ لے گی لیکن بی جے پی نے اچانک اور ڈرامائی انداز میں اس میں پہل کر کے اپنے اس نئے مخالف کی سیاسی پوزیشن خراب کردی۔

دوسرے حکومت میں اپنی آدھی حصہ داری ختم کر کے پوری حکومت گویااپنی گرفت میں لے لی تیسرے سرکار کی ساری ناکامیوں کا ٹھیکرہ پی ڈی پی کے سر پھوڑ کر اپنی ناکامیاں چھپانے کی کامیاب کوشش کی، اس نے عین امرناتھ یاترا کے وقت یہ فیصلہ کر کے اپنے ووٹ بنک کومزید مضبوط اور متحرک کر نے کے لئے انتہائی کامیابی سے گویا یہ پیغام دیا ہے کہ اس نے امرناتھ یاترا کے یاتریوں ( ہندوؤں) کی حفاظت کے لئے ہی اقتدار ٹھکرادیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ وہ اپنی اس غیر جمہوری طرز سیاست میں کتنی کامیاب ہوپاتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔