آگ بجھی ہوئی نہ جان، آگ دبی ہوئی سمجھ

حفیظ نعمانی

بھارت بند کے جواب میں بھارت بند گالی کے جواب میں گالی سے زیادہ نہیں تھی۔ 02 اپریل کو جو بھارت بند کرایا گیا تھا وہ دلتوں کی طرف سے تھا اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ سے ہونے والے اثرات کی وجہ سے تھا۔ لیکن 10  اپریل کا بند جسے ریزرویشن کی مخالفت کا بند کہا گیا اس کی ذمہ داری بھلے ہی سوشل میڈیا کے علاوہ کسی پر نہ ڈالی جائے لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ کھل کر ریزریشن کی مخالفت صرف آر ایس ایس کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے چیف موہن بھاگوت صاحب بار بار کہہ چکے ہیں کہ ریزرویشن کو ختم نہ کیا جائے لیکن جن کو اب ضرورت نہیں رہی ان سے لے کر ایسے لوگوں کو دیا جائے جو اب واقعی ضرورتمند ہیں۔ اور یہ بات اس لئے غلط نہیں ہے کہ ریزرویشن گاندھی جی نے ہریجنوں کے لئے دس سال کے لئے رکھوایا تھا یہ کانگریس حکومت کی غلطی ہے کہ اس نے اسے ان کی تاحیات پینشن بنا دیا۔

آج دلتوں میں سب ایسے نہیں ہیں کہ انہیں ریزرویشن کی ضرورت نہیں ہے لیکن لاکھوں ایسے ہیں کہ ان سے بہت زیادہ ضرورتمند دوسری ذاتوں میں ہیں۔ ریزرویشن اب مدد نہیں بلکہ عیاشی کا سامان ہے پورے ملک کے جاٹ راجستھان، ہریانہ اور مغربی یوپی میں جہاں جہاں بھی آباد ہیں وہ ریزرویشن کا مطالبہ کررہے ہیں حالانکہ ان سے زیادہ خوشحال کسان دوسری ذاتوں میں ملنا مشکل ہیں۔ ملک کے جاٹ ضرورت کے لئے نہیں طاقت کے بل پر ریزرویشن لینا چاہتے ہیں اور حکومت انہیں سختی سے جواب دینے کے بجائے ان سے جھوٹے وعدے کرلیتی ہے۔

ملک میں مسلمانوں سے زیادہ ریزرویشن کا اب کوئی حقدار نہیں ہے لیکن مسلمانوں نے مطالبہ تو کیا یوپی بند یا بھارت بند کبھی کرنے کی بات بھی نہیں کی یہ سوشل میڈیا کی شرارت ہے کہ اس نے 02  اپریل کے بھارت بند کے بارے میں یہ اشارے دیئے کہ دلتوں کی قیادت مسلمان کررہے ہیں۔ یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ مسلمان سنجیدگی سے یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ ان سب کو جو ہندو نہیں ہیں ایک پلیٹ فارم پر لے آئیں۔ کرناٹک میں لنگایت کے بارے میں جب سے صوبائی حکومت نے مرکزی حکومت کو ان کی یہ تجویز بھیجی ہے کہ وہ الگ اقلیتی فرقہ ہیں اور ہندو نہیں ہیں انہیں وہ مراعات دی جائیں جو عیسائیوں، بودھوں، سکھوں اور جینیوں کو دی جاتی ہیں اس وقت سے سوشل میڈیا نام کے گودی میڈیا کے ناجائز بچے نے آگ لگانا شروع کردی ہے۔ لیکن یہ تحریک اب رُکے گی نہیں کہ صرف مورتی پوجا کرنے والے ہندو ہوتے ہیں اور جو مورتی پوجا نہیں کرتے وہ ہندو نہیں ہوتے ۔

ایسے طبقوں کو مسلمانوں نے ہی آواز نہیں دی ہے بلکہ ان طبقوں کے سمجھدار لیڈر خود مسلمانوں سے رابطہ کررہے ہیں ان میں جو تعلیم یافتہ اور سیاسی ذہن رکھتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تمام غیرہندو ایک پلیٹ فارم پر آجائیں اور حکومت اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کے بجائے وہ بنائیں۔ مہاراشٹر بند کے موقع پر گجرات کا دلت ایم ایل اے بھی اس بند میں شریک تھا اور کشمیر کے عمرخالد کو بھی اپنے ساتھ لایا تھا۔ اب جن دلت لڑکوں نے تعلیم حاصل کرلی ہے وہ اپنی برادری پر ہونے والے مظالم روکنے کے ساتھ ساتھ یہ کوشش کررہے ہیں کہ حکومت ان کی اپنی ہو تاکہ وہ طے کریں کہ گھوڑی پر کون بیٹھے گا اور مونچھوں کو بل کون دے گا؟

دلتوں کے اندر اس کی ابتدا پہلے سے ہے لیکن وہ جب دیکھتے تھے کہ ان کی برادری یا ان جیسی دوسری ذاتوں کے لوگ احساس کمتری کا شکار ہیں اور انہوں نے تسلیم کرلیا ہے کہ ان کی تقدیر (بھاگیہ) میں ہی غلامی لکھی ہے تو لیڈری کی بات سوچنے والے خود گردن ڈال دیتے تھے۔ 1977 ء میں جب جنتا پارٹی بن رہی تھی تو آخر وقت میں بابو جگ جیون رام، ہیم وتی نندن بہوگنا اور نندنی ستھ پتی کانگریس چھوڑکر آگئے اور یہ واقعہ ہے کہ ان کے آنے سے جنتا پارٹی میں نئی زندگی آگئی اور کانگریس کی کمر ٹوٹ گئی بابو جگ جیون رام پاسی تھے اور کانگریس کے بزرگ لیڈروں میں ان کا اہم مقام تھا وہ یہ بھی سمجھ رہے تھے کہ ان کے آنے سے جنتا پارٹی کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا ہے اور سب کا نشانہ کانگریس کو اتنا بڑا جھٹکا کسی نے نہیں دیا تو جنتا پارٹی کی حکومت بنی تو وزیراعظم ان کو بنایا جائے گا۔ لیکن جے پرکاش نارائن اور آچاریہ کرپلانی نے مرار جی ڈیسائی کے نام کا اعلان کردیا اور حالات ایسے تھے کہ سب نے مان لیا۔

یونس سلیم صاحب جو کانگریس حکومت میں پہلے قانون اس کے بعد ریلوے کی وزارت میں رہے بابوجی سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ وزارت کے اعلان کے بعد وہ بابو جگ جیون رام سے ملنے گئے تو انہوں نے جو دیکھا وہ خود ہم سے بتایا کہ وہ اکیلے فرنیچر کے ٹھوکریں مار رہے تھے اور کہتے جارہے تھے کہ کچھ بھی ہوجائے کوئی دیس کی کتنی ہی سیوا کرلے وزیر اعظم اونچی ذات والوں کو ہی بنایا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بابو جگ جیون رام آج ہوتے تو کیسا ہی دلت ہوتا وہ ان کے ساتھ آجاتا اور وہ ان سب کو اپنے ساتھ لے لیتے جو کہتے ہیں کہ ہم ہندو نہیں ہیں اور پوری طرح مسلمان ان کی حمایت کردیتے تو حکومت بنانے سے انہیں کوئی روک نہیں سکتا تھا۔

اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ 02 اپریل کو بھارت بند کا نعرہ بھی سوشل میڈیا کا شوشہ تھا اور اس کے جواب میں ریزرویشن مخالف لوگوں کا نعرہ بھی سوشل میڈیا کا تھا لیکن اس کا سارا زور بہار میں نظر آیا جہاں مودی جی اور امت شاہ سرجوڑے بیٹھے تھے کہ لالو کا اور کیا کیا جائے؟ وہیں  ٹرینیں روکیں وہیں آنسو گیس چلی اور دوسری جگہ بھی بس نام کے لئے بند ہوگیا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔