جاں بحق ہوتے رہے ہیں لوگ طوفانوں کے بیچ

مقصود اعظم فاضلی

جاں بحق ہوتے رہے ہیں لوگ طوفانوں کے بیچ
ہاں مگر ثابت قدم ہے شمع پروانوں کے بیچ

کتنے انساں ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اپنی جان سے
نفرتوں کا زہر پھیلا جب سے انسانوں کے بیچ

رہ گزر میں عشق کی آتے ہیں اکثر ایسے موڑ
سرخرو ہوتا ہے جب دیوانہ فرزانوں کے بیچ

خود غرض ملتے ہیں لاکھوں ، بے غرض ملتے نہیں
گھِر گئی ہے کشتیء تہذیب طوفانوں کے بیچ

کس قدر ہے گرم بازارِ گرانی آج کل
زندگی کیسے بسر اعظم ہو ارمانوں کے بیچ

تبصرے بند ہیں۔