آہ!دنیا ایک عظیم محدث سے محروم ہوگئی!

 مفتی محمد صادق حسین قاسمی

 گزشتہ چند مہینوں سے اکابر علماء کی رحلت ملت ِ اسلامیہ کو اداس وغمگین کررکھی ہے۔یکے بعد دیگر علم وعمل کے آفتاب غروب ہورہے ہیں، اور اپنی جدائی کے داغ سے دل وجان کو بے قرار کئے جارہے ہیں، وہ لوگ رخصت ہورہے ہیں کہ جن کے وجود کے تصور ہی سے دل کواطمینان وسکون کی دولت نصیب ہوتی ہے،جن کی موجودگی برکتوں اور رحمتوں کے ظہور کا سبب ہوتی ہے،جن کی دعاؤں اور شبانہ روز کی فکروں سے ملت ِ اسلامیہ کے بہت سے مسائل غیر محسوس طور پر حل ہوتے ہیں، جو انسانیت کی بھلائی اور فلاح کے لئے دن رات تڑپتے ہیں اور اپناخون ِ جگر لگاکر گلشن ِ اسلام کی آبیاری کرتے ہیں، جن کی باتوں میں، قیمتی نصیحتوں میں پیچیدہ گتھیاں سلجھتی ہیں اور الجھنیں دور ہوتی ہیں، جن سے فیض پانے والوں میں طلباء بھی ہوتے ہیں اور علماء بھی، اساتذہ بھی ہوتے ہیں اور مصنفین بھی، مریدین بھی ہوتے ہیں اور عوام وخاص بھی۔ چناں چہ اس وقت ملت ِ اسلامیہ جن کی وفات کے غم سے مغموم اور جن کی جدائی و رحلت سے شدیدتکلیف میں ہے وہ ہے عالم ِ اسلام کے عظیم محدث،یگانہ ٔ روزگار شخصیت،بے مثال محقق، مصلح ومربی حضرت مولانا یونس صاحب جونپوری ؒ، شیخ الحدیث جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کی وفات حسرتِ آیات۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں ہر انسان ایک دن مرنے کے لئے ہی آتا ہے، یہاں کسی کو ثبات نہیں ہے، یہ دنیا فانی ہے اور انسانوں کو بھی فنا کے گھاٹ اترنا ہے، لیکن ان جیسے اکابر کے چلے جانے سے عالم سوگوار ہوجاتا ہے، اور علمی دنیا بالخصوص ایک عظیم نعمت کے لٹ جانے کے ناقابل ِ تلافی نقصان کے صدمے سے دوچار ہوجاتی ہے۔حضرت شیخ یونس صاحب ؒ کی شخصیت نہایت ہی عظیم تھی، بلاشبہ آپ کا شمارعالم ِ اسلام کے عظیم محدثین میں ہوتا تھا۔علم ِ حدیث میں آپ کی شخصیت بہت بلند مقام ومرتبہ رکھتی تھی۔آپ حدیث ِ رسول کی عظیم الشان خدمت انجام دیتے ہوئے مالک ِ حقیقی سے جاملے۔حدیث ِ رسول ﷺ جن کی صبح وشام کی مصروفیت رہی، اور علم ِ حدیث کے گراں قدر موتی لٹاتے ہوئے اور پیارے آقاﷺ کے ارشادات کی تشریح وتفہیم کرتے ہوئے اپنی زندگی کو مکمل کیا۔آپ اپنے عظیم المرتبت استاذ،محدث جلیل،شیخ ِ وقت،مصنف ومربی شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب کاندھلوی ؒ کے مایہ ناز شاگرد،علوم کے امین اور مسندِ حدیث کے جانشین تھے۔بے شمار طالبانِ علوم ِ نبوت نے آپ سے اکتساب ِ فیض کیا،اور اس وقت پوری دنیا میں آپ کے خوشہ چینوں کا دائرہ پھیلا ہوا بلکہ آپ کے شاگردوں کا شمار بھی اس وقت کے عظیم اساتذہ میں ہوتا ہے۔آپ نے اپنی پوری زندگی جامعہ مظاہر علوم سہارنپور میں گزاردی، اور علم ِ حدیث کے مشتاق دور دور سے آپ سے استفادہ کے لئے چلے آتے اور آپ کے حلقہ ٔ درس میں بیٹھ کر شرفِ تلمیذیت حاصل کرتے۔آپ کی شخصیت سے علمی دنیا میں رونق اور بہارتھی، آپ کا وجود اہلِ علم کے لئے نعمت ِ غیر مترقبہ تھا۔

علم ِ حدیث میں آپ کی محدثانہ شان پر آپ کے عظیم شاگرد، محقق ومصنف حضرت مفتی محمد زید مظاہری ندوی صاحب (جنہوں نے آپ کے قیمتی علمی،حدیثی،فقہی اورتحقیقی شہ پاروں کو دومختلف کتابوں ’’نوادرالحدیث‘‘اور ’’نوادرالفقہ‘‘کے نام سے ترتیب دے کر شائع کیا ہے۔) میں لکھتے ہیں کہ:استاذی ومخدومی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوری (شیخ الحدیث مظاہر علوم سہارنپور)اللہ تعالی کے ان خوش نصیب بندوں میں ہیں جن کی پوری زندگی اشتغال بالحدیث اورفن ِ حدیث شریف کی خدمت میں گزری،آپ کے علمی تبحراور فن حدیث سے حقیقی مناسبت اور گہری واقفیت پر کبار علماء ومشائخ اور اساتذہ ٔحدیث کو پورا اعتماد تھا،چناں چہ کسی حدیث کے متن یاسنداور روای کے متعلق کوئی اشکال پیش آتا، یاکسی حدیث کی تحقیق پیش ِ نظر ہوتی یا اصول حدیث کے کسی مسئلہ میں کوئی پیچیدگی سامنے آتی تو کبارعلماء مفکر اسلام حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندوی ؒ،مولانا عبید اللہ صاحب ؒ مرکز نظام الدین،مولانا عمر صاحب پالن پوری،مولانا عبد الجبار صاحب اعظمی جیسی اہم شخصیات بھی آپ کی طرف رجوع فرماتیں۔ آپ کے استاذوشیخ حضرت مولانا محمد زکریاصاحبؒ کو تو آپ کی فن ِ حدیث شریف سے گہری مناسبت اور واقفیت کا اس درجہ اعتماد تھا کہ بکثرت روایات اور سند کی بابت تحقیق وجستجو کا امر فرماتے تھے اور خود آپ کے پاس فن حدیث کے سلسلہ میں جوخطوط آتے انھیں حضرت شیخ کے حوالہ فرمادیتے تھے۔‘‘( نوادر الحدیث:29)ملک کے عظیم فقیہ وعالم ِ دین حضرت مولانا عتیق احمد بستوی مدظلہ حضرت شیخ یونس صاحب ؒ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں :’’برصغیر کے دینی مدارس کے حلقہ میں ایک نمایاں ترین شخصیت حضرت مولانا محمد یونس صاحب( شیخ الحدیث جامعہ مظاہر علوم سہارنپور انڈیا) کی ہے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلامی علوم ( خصوصا ًعلم ِحدیث)کے لئے وقف کردی، علمی انہماک اور فنائیت نے انہیں امام نووی ؒ اور حافظ ابن تیمیہ ؒ کی طرح ازدواجی زندگی گزارنے کی بھی اجازت نہیں دی،ان کے استاذ وشیخ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلویؒ نے بھی ان کے علمی وعملی کمالات کو دیکھ کر نوجوانی ہی میں انہیں اپنی جگہ شیخ الحدیث کے منصب پر فائز کیاتھا،موصوف نے عمرعزیز کا تمام تر حصہ اسلامی علوم خصوصاً کی تدریس اورمطالعہ میں گزارا۔( نوارد الفقہ :23)

 حضرت شیخ یونس صاحب ؒ کا مقام ومرتبہ تو بہت بلند ہے، یہ چند سطریں آپ کے تعارف اور خدمات کے تذکرہ کے لئے نہیں لکھی جارہی ہیں، بلکہ یہ سطریں ملت ِ اسلامیہ کے اس عظیم محسن کی جدائی کے احساس میں لکھی جارہی جس نے اپنی زندگی کا مقصد علم ِ دین کی نشرواشاعت کو بنایاتھا،اور حدیث ِ رسول ﷺ کی تبلیغ وتدریس کو بنایاتھا،تاکہ ہم بھی ان کی زندگی سے کچھ سیکھیں اور جذبہ ٔ علم وعمل کو تازہ کریں، جن کی نمازِ جنازہ میں ایک محتاط اندازہ کے مطابق دس لاکھ کا ٹھاٹے مارتا مجمع شریک رہا ہو،اللہ کے یہاں ان کی مقبولیت کا کیاعالم  ہوگا؟جب لوگ دیوانہ وار ان کی عقیدت ومحبت میں دوڑے چلے آئے ہوں تو ان کی خدمات کا کیاصلہ پروردگارِ عالم دے گا؟آخر یہ کیسے عظیم انسان تھے کہ ریا ونمود سے کوسوں دور، اخلاص وللہیت کے ساتھ علم کی امانت کو نسلوں تک منتقل کرنے کے لئے اپنی پوری عمر کھپادیا، اپنی جوانی وبڑھاکو لگادیا، بیماری وکمزوی کے باوجود ہر وقت مہمانان ِ رسول، طالبان علوم ِ نبوت کو سیراب کرنے اور ان کے دامن کو علم سے بھرنے کے لئے فکرمند رہتے؟

حضرت شیخ یونس صاحب ؒ نے کن قربانیوں کے ساتھ علم ِ دین کو حاصل کیا اس کا ایک مختصر تذکرہ خودآپ  کے بیان کئے ہوئے واقعہ سے ملاحظہ فرمائیے، تاکہ آج کے اس دور میں جہاں تحصیل ِ علم کی تمام تر سہولتیں فراہم ہونے کے باوجود مزاجوں کا بگاڑ اور ذوق و شوق کافقدان محرومی کا باعث بن رہا ہے۔حضرت شیخ  ؒ فرماتے ہیں :میں مسلسل بیمار رہا،مظاہر علوم آنے کے چند دن بعد نزلہ وبخار ہوگیااور منہ سے خون آگیا،حضرت اقدس ناظم(مولانا اسعد اللہ ) صاحب نوراللہ مرقدہ کا مشورہ ہوا کہ میں گھر واپس ہوجاؤں، لیکن میں نے انکارکردیا،حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ واعلی اللہ مراتبہ نے بلاکر ارشاد فرمایاکہ:جب تو بیمار ہے اور لوگوں کا مشورہ بھی ہے تو مکان چلاجا۔میں نے عرض کیاجواَب تک یاد ہے کہ:حضرت !اگر مرنا ہے تو یہیں مرجاؤں گا۔حضرت نے فرمایاکہ : بیماری میں کیا پڑھاجائے گا؟میں نے عرض کیااور اب تک الفاظ یاد ہیں کہ:حضرت !جو کان میں پڑے گا وہ دماغ میں اتر ہی جائے گا۔اس پر حضرت قدس سرہ نے ارشاد فرمایاکہ’’پھر پڑارہ‘‘یہ ہے حضرت قدس سرہ سے پہلی بات چیت، اس کے بعد ہم تو بہت بیما رہے، اور گاہ بگاہ جب طبیعت ٹھیک ہوجاتی تو اسباق میں بھی جاتے رہتے،انھیں ایام میں حضرت اقدس مولانا عبد الحلیم صاحب ؒ کو اپنی بیماری کا خط لکھا، مولانا نے جوابا ًلکھا کہ یہ کیا یقین ہے کہ ’’خون پھیپڑے سے آیا ہے؟‘‘اس سے طبیعت کو کچھ سکون ہوگیا،لیکن سینے میں درد رہا کرتا تھا۔یہ بات اور بھی لکھ دوں کہ جن ایام میں طبیعت خراب تھی،کبھی کبھی دارالحدیث کے شرقی جانب بیٹھ کر حضرت اقدس نور اللہ مرقدہ کا درس سنتااور سوچا کرتا تھا کہ نامعلوم ہم کو بھی بخاری شریف پڑھنی نصیب ہوگی یا نہیں ؟اور رویا کرتا تھا، اس مالک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے توفیق عطا فرمائی اور پڑھنے کی منزل گزرگئی، اور اللہ تعالی نے محض اپنے فضل وکرم سے پڑھا نے کی توفیق بخشی، حالات کی ناسازگاری سے جس کی توقع بھی نہیں تھی، لیکن سب فضل وکرم ہے۔‘‘

آپ کا مختصر سوانحی خاکہ اس طرح ہے :ولادت:25/رجب 1355ھ مطابق /اکٹوبر1937ء کو کیتھا سرائے، ضلع جونپور،اترپردیش میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ ضیا ء العلوم قصبہ مانی کلاں میں حاصل کی۔1377ھ میں مظاہر علوم میں داخل ہوئے، 1380ھ میں دورہ ٔ حدیث شریف کی تکمیل فرمائی۔1381ھ میں مظاہر علوم میں بحیثیت معین مدرس تقرر ہوا۔1388ھ میں بخاری شریف کی تدریس کا آغاز فرمایا۔اس دوران آپ نے شرح وقایہ،قطبی،مقامات،ہدایہ،اصول الشاشی،مختصر المعانی،نورالانوار، ابوداؤد، نسائی، مسلم، ابن ماجہ کی تدریس کا فریضہ انجام دیا، اور تادم ِ آخر بخاری شریف کا درس دیتے رہے۔

11/جولائی2017ء ، 16/شوال1438ھ بروز منگل صبح نوبجے کے قریب آپ کا انتقال ہوا۔ایک اندازہ کے مطابق دس لاکھ کے مجمع نے آپ کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی اور حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب صاحبزادہ حضر ت شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔حاجی کمال شاہ قرستان، سہارنپور میں سپر دِ لحد کئے گئے۔اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے، آپ کے فیض کو جاری رکھے، اور آپ کی خدمات کو صدقہ ٔ جاریہ بنائے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔