آہ ! استاذ محترم حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

اس دنیاجہاں میں جو کوئی بھی آتا ہے ، اس کا یہاں سے جانا بالکل طئے ہے ؛ لیکن بعض ایسے لوگ اس جہانی فانی سے کوچ کر جاتے ہیں ، جو اپنے پیچھے اپنی یادیں اور اپنے انمٹ نقوش وکردار چھوڑ جاتے ہیں ، جن کے چلے جانے سے اس جہانی ہستی میں ایک خلا نظر آتا ہے ، جو اپنے کارناموں ، اپنی اخلاق وکردار سے صدیوں یاد کئے جاتے ہیں ، جو تاریخ کے صفحات پر اپنے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں ، وہ تو اس دنیا فانی سے کوچ کرجاتے ہیں ، لیکن ان کام نام ان کے کارناموں اور ان کی عظیم ملی ودینی خدمات کی وجہ سے باقی وبرقرار رہ جاتا ہے ، انہیں ہمہ جہت اور ہمہ سمت شخصیات میں حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ کی شخصیت گرامی ہے ، حضرت الاستاذ نہ صرف عالم ، محدث، بلکہ جمعیہ علماء ہند کے اسٹیج سے ملت کے قائد بھی تھے، عربی زبان وادب کے شناور، اردو کے بہترین کہنہ مشق ادیب وصاحب دیوان شاعر ، کئی ایک کتابوں کے مصنف ،ماہنامہ دار العلوم کے مدیر ، دار العلوم دیوبند کے ہر دلعزیز اور مشق ومہربان استاذ، آپ کے درس وتدریس کا دل آویز اور پر مغز اور پر اثر انداز طلباء کے دلوں کو چھو جاتا .

 دوران درس طلباء کو ترغیبی انداز میں ’’بیٹے ‘‘ سے خطاب کر کے درس اور سبق کے مزے کو دوبالا کردیتے ، طلباء کے ساتھ نہایت مشفقانہ لب ولہجہ استعمال فرماتے ، احقر کو بھی ہفتم میں مقدمہ شیخ عبد الحق اور مشکاۃ کا ابتدائی حصہ اور دورہ حدیث میں ابن ماجہ اور تکمیل ادب عرب میں ’’البلاغۃ الواضحہ ‘‘ پڑھنے کا حضرت سے شرف حاصل  ہوا، طلباء کو اس قدر نرم وگداز لب ولہجہ میں خطاب فرماتے اور اس قدر ہر طالب کی طرف توجہ کامل ہوتی اور اس طرح مسکرا کر مخاطب ہوتے گویا آپ کے لبوں سے موتے ومونگے جھڑ رہے ہوں ، طلباء ہمہ تن گوش اور پورے انہماک سے آپ کے درس کو سنتے ، دار العلوم دیوبند کے چالیس سالہ دوانیہ درس وتدریس میں نہ جانے کتنے شاگرد چھوڑے ہوں ، جو آپ کے روحانی شاگردوں کی شکل میں ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ، آپ کی رحلت پر اشکبار اور غمناک ہیں ۔

بارِ دنیا میں رہو غم زدہ یا شاد رہو

ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

دوران طالب علمی میں جب تکمیل ادب میں تھا تو انجمن النادی الادبی کے ایک عربی پرچے کی ذمہ داری مجھ سے متعلق تھی، اس وقت یہ واقعہ پیش آیا کہ مسجد چھتہ میں موجود انار کے درخت کو کسی نے کاٹ کر مسجد کے حمام میں اس کو گھسا دیا، تحقیق حال اور اس درخت کی تاریخ اور حقیقت سے واقفیت کے لئے میں اور میرے رفیق درس محفوظ کٹکی حضرت والا کے یہاں پہنچے کہ اگر اس کی کوئی حقیقت ہوگی تو اس کو موضوع بنا کر اس پر کوئی مضمون لکھا جائے ، تو حضرت نے بتایا : ’’بیٹے! یہ درخت وہی درخت ہے جہاں سے دار العلوم کیشروعات ہوئی تھی، حقیقت سے نہیں کہاجاسکتا ، جس طرح اب اس کی یہ درگت بنائے گی شاید ایسے پہلے بھی ایسا ہوچکا ہو ‘‘ یعنی یہ درخت وہی درخت ہے اس کو بالیقین نہیں کہا جاتا ، ہوسکتا ہے یہ درخت بعد میں لگایا گیا ہو ۔حضرت کا یہ فرمانا تھا کہ بڑے پرجوش ہو کر درخت کی حقیقت اور اس کی تایخ سے متعلق مضمون لکھنے کے ارادہ سے جو چلے سارا جوش کافور ہوگیا ۔

9؍مارچ 1940ء کو علی گڈھ میں پیدا ہوئے ، آپ کا آبائی وطن موضع حبیب والا ضلع بجنور ہے ، ابتدائی تعلیم مکمل کر کے اپنے پھوپھا مولانا سلطان الحق بجنوری( ناظم کتب خانہ دار العلوم دیوبند) کے ہم راہ 1951ء میں دار العلوم دیوبند آئے اور داخلہ لیا، 1958ء میں دورہ حدیث سے فراغت حاصل کی ۔

فراغت کے بعد حضرت مولانا فخر الدین مراد آباد ی صدر المدرسین دار العلوم دیوبند کے دامن علم سے وابستہ رہو کر برستوں استفادہ کرتے رہے اور اپنے استاذ محترم کے درس بخاری کی تقریروں کو مرتب کر کے ’’ایضاح البخاری‘‘ کے نام سے شائع کیا ۔

1391ھ 1972ء میں دار العلوم دیوبند میں مدرس مقرر ہوئے ، کچھ برسوں تک تدریس کے ساتھ ساتھ ماہنامہ دار العلوم کی ادارت کی ذمہ داری بھی انجام دی، 1405ء میں مجلس شوری نے آپ کو مجلس تعلیمی کا ناظم مقرر کیا، 1408ھ میں آپ کو شیخ الہند اکیڈمی کا نگراں مقرر کیا گیا ۔

آپ نے ہر ذمہ داری کو نہایت خوبی اور حسن انتظام اور ہر دل عزیزی کے ساتھ انجام دیا اور اپنے اخلاق کریمانہ اور اندازِ مشفقانہ سے ہر شعبہ کو گل وگل زار بنائے رہے ، ہر جگہ اپنی یادیں اور اپنے انمٹ نقوش چھوڑے، ماہنامہ دار العلوم کی ادارت ہو، یا تدریس کی ذمہ داری ، یا ناظم مجلس تعلیمی کی حیثیت سے آپ کا انتخاب ، یا شیخ الہند اکیڈمی کے انچارج اور نگران کا عہدہ ، خواہ جمیعۃ کی نائب صدارت کی عظیم ذمہ دای ، ہر ذمہ داری کو بحسن وخوبی اور پوری تندہی، فراست وذکاوت اور فریضہ حیات سمجھ کر انجام دیا ۔نام وری ، دکھلا، یا اپنی شخصیت کو اونچا کرنے کا احساس بھی آپ کے پاس سے نہیں گذرا، ہر جگہ اور ہر موقع سے للہیت اور اخلاص کا سرمایہ آپ کا وصف خاص رہا ۔

آپ کی تصانیف میں ایک اہم تصنیف ’’ ایضاح البخاری‘‘ ہے ، آپ کی ایک دوسری اہم تصنیف ’’ شوری کی شرعی حیثیت‘‘ ہے ، علم وعمل میں آپ بلند مقام پر فائز ہونے کے ساتھ شعر وادب میں بھی اعلی ذوق کے حامل تھے ، جس کا جیتا جاگتا نمونہ اور زندہ وجاوید ثبوت’’دار العلوم دیوبند کا شہرہ آفاق ترانہ

یہعلم وہنر کا گہوارہ تاریخ کا وہ شہہ پارہ ہے

ہر پھول یہاں اک شعلہ ہے ، ہر سرو یہاں مینارہ ہے

جو ایک لاززوال ادبی شہہ پارے کی حیثیت رکھتا ہے ، جو زبان زد عام وخاص ہے ، جس کو اسی قدر شہرت حاصل ہے جس قدر دار العلوم دیوبند کو شہرت اور عزت حاصل ہے ، اسی طرح جمعیہ علماء ہند کا مشہور زمانہ ترانہ ’’یہ اہل یقیں کی جمعیۃ ‘‘ بھی آپ کی ایجاد اور آپ ہی کے قلم درمند کا عظیم شاہکار ہے ۔

آپ کا مجموعۂ کلام’’ نغمہ سحر ‘‘ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ۔جو آپ کی شعری میدان میں آپ کی قلمی کاوشوں اور آپ کی زبان وادب پر مکمل وابستگی کا زندہ وجاوید ثبوت ہے ۔

آپ نے جمعیہ علماء ہند کی نائب صدر کی حیثیت سے بھی ذمہ داری نبھائی ، دار العلوم دیوبند کے عظیم سپوت اور مایہ ناز استاذ حدیث ، اور مشفق ومربی استاذ گرامی، جن کی شفقت بھری باتوں اور انداز تدریس وتخاطب سے نہ جانے کتنی ہزاروں لاکھوں طلباء نے اپنی علمی تشنگی بجھائی ،یہ  عظیم ہستی مورخہ 23؍ شعبان،1438ھ  بروز ہفتہ بوقت سحر اپنے پسماندگان اور علمی وارثوں کو سوگوار اور عم زدہ چھوڑ کر راہِ عالم بقا ہوگئی اور جوار رحمت رب میں اپنا مستقل اور دائمی ٹھکانابنایا ۔

خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را

 جانے والے کبھی نہیں آتے

جانے والوں کی یاد آتی ہے

تبصرے بند ہیں۔