آہ! ہاشم انصاری : ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

وطن عزیز میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعے میں بابری مسجد کے لیے آواز اْٹھانے والے ہاشم انصاری 96 سال کی عمر میں گزشتہ 20جولائی2016کو ایودھیا میں انتقال کر گئے۔ہاشم انصاری کی رحلت ملت کے اس طبقہ کیلئے کسی صدمے کم نہیں ہے جنہیں محراب ومنبر سے سچی محبت و عقیدت ہے۔ ورنہ تو عام طور پر اس مقدمہ میں سیاسی بازیگروں نے صرف اپنے مفادات کی روٹیاں سینکی تھی۔ جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔سولہویں صدی عیسویں کی اس عظیم الشان مسجد کی بازیا بی کی تحریک کے نام پر کئی سفید پوش بلندی کی ناقابل تسخیر معراج تک پہنچ گئے۔مگر بعد میں دنیا نے اپنی کھلی آ نکھوں سے یہ منظر بھی دیکھا کہ مسجد کی سیاست کرنے والوں کا اصلی چہرہ بہت دنوں تک پوشیدہ نہیں رہ سکا۔خانہ خداکی تسخیر کے عظیم مجاہد ایک عرصے سے علیل تھے اور کچھ دنوں پہلے جب ان کی طبیعت زیادہ ناساز ہوئی تھی تو انہیں اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ان کے بیٹے اقبال انصاری کے مطابق’بدھ کی صبح وہ نماز کے لیے نہیں اٹھے تو گھر والوں نے جا کر دیکھا اور پایا کہ ان کی موت ہو چکی ہے۔مرحوم مکروفریب بھری دنیا کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہہ کرابدی نیند سوچکے ہیں۔واضح رہے کہ بدھ کے روز ہی بعد نماز مغرب ان کی تدفین تاریخی قبرستان میں عمل میں آئی۔تاریخ عالم کے کچھ ماہرین کا خیال  ہے کہ اس قبرستان میں پیغمبرخدا شیث علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ کی قبریں ہیں۔اگر یہ واقعی صحیح ہے تو اس مقام پر اللہ کے ایک برگزیدہ نبی حضرت شیث علیہ السلام کے قدموں میں جگہ پانا ان کی قر بیانیوں کورب کریم کی جانب سے شرف قبولیت عطا ہونے کی دلیل ہے۔اللہ کرے ایسا ہی ہو اورخداکے گھرکیلئے زندگی کے آخری سانس تک لڑنے والے رجل عظیم کو خالق کائنات کروٹ کروٹ چین وسکون عطا فرمایے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بقائے باہم کے عظیم مبلغ کی زندگی کا اصل سبق کیا ہے۔ کیا مرحوم ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار تھے۔کیا ان کے ذہن و دل میں ملک کی مشترکہ تہذیب کیلئے مثبت جذبات بھرے ہوئے تھے۔کیامرحوم ہاشم انصاری نے بابری مسجد کی بازیابی کیلئے سچ مچ خود کو وقف کررکھا تھا۔کیا بابری مسجد کیلئے مقد مہ لڑنے کے دوران انہوں نے مذہبی جذبات کو بر انگیختہ کرکے ذاتی مفادحاصل کیا؟یہ سارے سوالات منہ پھاڑے ملت اسلامیہ ہند سے جواب طلب کررہے ہیں۔مرحوم انصاری کی زندگی کو قریب سے جاننے والے لوگ  قسم کھا کر یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ انہوں نے خانہ خداکی حفاظت اور بازیابی کیلئے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ وقف کررکھا تھا،انہوں نے ملت کے سواداگروں اور سیاست کے بازی گروں کی طرح اگر منافقت کی روش اختیار کی ہوتی اورمذہب کا چولا پہنے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کو ابھار کراپنی دکانیں چمکانے کی سعی کی ہوتی تو آج ان کا شمار عالمی سطح پر مسلمانوں کے بڑے رہنماؤ ں میں ہوتا۔مگر ان کی نیت میں خلوص تھا،اپنی وطن کی مٹی اورسماج سے حددرجہ عقیدت ومحبت تھی۔انہوں نے ہمیشہ یہی تحریک دی کہ مذہب کی سیاست ہندوستانی مسلمانوں کیلئے لامتناہی مصائب کا سامان بن جائے گی۔وہ امن و آ شتی کے پیکر تھے ،ساتھ ہی مذہبی رواداری کے سراپا نقیب تھے ۔یہی وجہ ہے کہ بابری مسجد کی بازیابی کیلئے ساٹھ برس تک اپنی زندگی کے قیمتی ماہ وسال لگا دینے والے مرحوم انصاری مسجد کے قضیہ کو عدالتی طریقے سے ہی حل کرنے کے حامی اور طرفدار تھے۔یہی وجہ ہے کہ ایودھیا میں رہنے والے بڑے بڑے مٹھادھیشوں اورسادھو سنتوں سے ان کے گھریلومراسم تھے۔چناں چہ ان کی جمہوری فکر کا اس سے بڑاور مسکت ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ 60 سال سے زیادہ عرصے تک بابری مسجد کے لیے قانونی لڑائی لڑنے والے ہاشم انصاری کے مقامی ہندو سادھو سنتوں سے رشتے کبھی خراب نہیں رہے۔جبکہ سیاسی چکلوں پر مذہب کی دکانداری سجائے ہوئے درجنوں شاطر کھلاڑیوں نے  مرحوم کومہرا بناکر مفادات حاصل کئے ،ان میں سے کوئی وزیر بن گیاتو کوئی حکومت کے اہم ترین شعبوں کی رکنیت حاصل کرکے مالا مال ہوتا رہا توکوئی حکومت کی نفع بخش کمیٹیوں کا چیئر بن کر اپنی تجوریاں بھرتا رہا۔اس کی درجنوں مثالیں آج بھی موجود ہیں۔ مگران کانام لے کر ہم مرحوم ہاشم انصاری کے مشنکو نقصان پہنچانا نہیں چاہتے۔ یہ بھی مرحوم ہاشم انصاری کی زندگی کا سبق آموز پہلو ہے کہ مسجد کی بازیا بی کیلئے وہ ہمیشہ عدالتی چارہ جوئی ہی میںیقین رکھتے تھے۔انہوں نے سیاسی مفاد سادھنے کیلئے کہیں اور کبھی بھی مسلمانوں برکوانگیختہ کر کے ملک عزیز کے کمزورو ناتواں مسلمانوں کو سڑکوں پر اترنے پرمجبور نہیں کیا۔اس کے برخلاف دوسرے لوگ جو بابری مسجد ایکشن کمیٹی میں شامل تھے،وہ اپنے مفادات کو پانے کیلئے ملک گیر سطح پر احتجاج کررہے تھے،مسلمانوں کو جذباتی طور پر(Emotional Blackmail) یرغمال بنا رکھاتھا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1949سے چلنے والے تنازع میں اب تک ہزاروں بے گناہ خاندان تباہ و برباد ہوگئے۔نہ جانے کتنے بوڑھے بوڑھیوں کے بڑھاپے کاسہارا چھن گیا۔کتنی ہی ابھاگنوں کا سہاگ لٹ گیا۔ اگرچہ اس تباہی اور لہو ریزی کانشانہ بننے والوں میںملک کے سب سے زیادہ مظلو م مسلم اقلیتوں کی اکثریت ہے۔حالاں کے فسادات کیلئے جانچ کمیٹیوں کی رپورٹیں یہ بتا رہی ہیں کہ ان فسادات میں عام مسلمانوں کے ساتھ برادران وطن کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ہمارے لئے ان کی جانوں کا زیا ں بھی کم افسوس کا باعث نہیں ہیں ان میں سے بھی کئی ہمارے پڑوسی رہے ہوں گے،کچھ دوست بھی یقینا رہے ہوں گے ،جن کی جانوں کا اتلاف ہر انسانیت دوست سماج کیلئے شرمندگی کا سامان ہے۔بابری مسجد یا رام مندر کے نام پر ہند و مسلمانوں کو جذباتی طور پر یرغمال بنا کر فسادات کی راہیں جن لوگوں نے ہموار کیں ان میں دور دور تک بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے محرک کار مرحوم ہاشم انصاری یا رام مندر کی تعمیر سے متعلق رہنما آنجہانی پرم ہنس آپ کو دور دور تک نظر نہیں آ ئیں گے۔ہاشم انصاری زندگی کے آخری پل تک مقدمے کو سیاسی رنگ دیے جانے کے خلاف تھے اور ان کے مطابق اسی وجہ سے سخت گیر ہندوؤں نے چھ دسمبر سنہ 1992 میں اس 16ویں صدی کی تاریخی مسجد کو منہدم کردیاتھا۔قابل غور بات یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کابیڑا اگرچہ ہندو شدت پسندقوتوں نے اٹھا رکھا تھا۔مگر جذباتی طور پر عوام کو مشتعل کرنے والے صرف ہندو ہی نہیں تھے ،بلکہ کمیٹیایکشن کمیٹی میں پچھلے دروازے سے شامل ہونے والے مسلم سیاسی لیڈران کی کارکردگی کوبھی نظر انداز کرنا آسا ن نہیں ہے۔غالباً1914میں ایک میڈیا اہلکار سے بات چیت کرتے ہوئے مرحوم نے بہت تکلیف کے ساتھ کہا تھا کہ ’جمہوریت تو اسی دن ختم ہو گئی جس دن بابری مسجد میں مورتی رکھی گئی۔‘ان کے خیال میں تشداس کاکوئی حل نہیں تھا ۔ ایک بار تو انھوں فرط جذبات سے مرعوب ہوکر بیزاری ظاہر کرتے ہوئے مقدمے سے دست بردار ہونے کی بات بھی کہی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’آپ بابری مسجد لے جائیے مجھے جمہوریت اور امن و آشتی لوٹا دیجیے۔ مجھے بابری مسجد نہیں چاہیے۔ مجھے امن چاہئے،تحفظ کی ضمانت چاہئے۔جس سے ہمارے بچے محفوظ رہیں اورپنا مستقبل سنوارنے میں کامیاب ہوسکیں۔ جب ہاشم انصاری نے یہ بیان دیا کہ وہ بابری مسجد کے مقدمے کی اب پیروی نہیں کریں گے تو وہ ایک سیکولر، ایماندار اور شکستہ دل نمائندہ کا کرب تھا جو 65 برس سے اس مسجد کی بازیابی کی امید کرتا رہا ،جہاں کبھیوہ نماز پڑھتے ہوئے اپنے خالق کے سامنے سجدہ ریز ہوئے تھے۔ایک بار انہوں نے کسی صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’میں سنہ 1949 سے مقدمے کی پیروی کر رہا ہوں، لیکن آج تک کسی ہندو نے ہم کو ایک لفظ غلط نہیں کہا۔ ہمارا ان سے بھائی چارہ ہے۔ وہ ہم کو دعوت دیتے ہیں۔ ہم ان کے یہاں مع اہل و عیال دعوت پر جاتے ہیں‘۔مسئلہ کو عدالتی چارہ جوئی سے حل کرنیکے نظریہ کو دیکھ کر ہی غیر مسلم مذہبی سنتوں نے کبھی ان کے خلاف کوئی شکایت نہیں کی۔بلکہ متنازع مقام کے دوسرے اہم دعویداروں میں نرموہی اکھاڑے کے رام کیول داس اور دگمبر اکھاڑہ کے رام چندر پرمہنس سے ہاشم انصاری کی آخرعمر تک گہری دوستی رہی۔پرمہنس اور ہاشم تو اکثر ایک ہی رکشے یاتانگے میں بیٹھ کر مقدمے کی پیروی کے لیے عدالت جاتے تھے اور ساتھ ہی چائے ناشتہ کرتے تھے۔اب سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیا ملت اسلامیہ ہند اوربابری مسجد کوایسا نمائندہ مل سکے گا جو اپنے حقوق کیلئے بر سر پیکار بھی رہا ہو اورانسانیت کے ناجائز لہوارزانی کا شدید مخالف بھی ہو،ہمارے پاس دعا کے علاوہ کوئی سرمایہ نہیں ہے جسے ان کی جگہ پیش کیا جائے۔اللہ قوم اور بابری مسجد کو مرحوم کا نعم البدل عطا فرمائے۔آمین

(09891651477)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔