اٹھ آٹھ کے دیکھتی رہی گرد سفر جنھیں

مفتی محمد فیاض قاسمی

وہ تھے تو مختار خاندان سے مگر گردش ایام نے ان کی قسمت میں مختاری آنے نہ دی۔ دولت، شہرت اور وجاہت کچھ بھی ان کے حصہ میں نہ تھا۔ کم سنی کے عالم میں جب والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تو صرف بیوہ ماں کی بیساکھی کے سہارے اپنے مستقبل کو جتنا بھی انھوں نے روشن کیا، وہ بہت تھا۔ رہوا، رامپور گاؤں میں وہ ایک ایماندار، محنتی اور جفاکش کسان کے نام سے پہچانے جاتے تھے اور بس۔ ۱۳؍ ۱۴؍ سال کی عمر میں ہی ان کے والد جناب عبدالاحد صاحب بن عبدالحمید مختار بن امانت علی مختار بن جوادعلی کے انتقال کے بعد ان کی والدہ بی بی کلثوم بنت محمد اسحاق نے اپنے تینوں یتیم بیٹوں اور ایک بیٹی کو بڑی جانفشانی سے پالا پوسا اور جہاں تک بس میں تھا تعلیم دلوائی۔

اس بے چارگی کے عالم میں محترم جناب محمد ریاض الدین صاحب نے خود کو اور اپنی بیوہ ماں اور بھائی بہن کو کس طرح سنبھالا اور اپنے مستقبل کی تابناکی کے لیے کیا کیا تگ و دَو کی، وہ سب آج رہوا، رامپور، وارث نگر، سمستی پورکے باشندوں کی زبان پر اس طرح ہے کہ راجہ بھائی نے کچھ نہ رہتے ہوئے بھی بہت کچھ حاصل کرلیا۔ غربت وافلاس کے باوجود اپنے چھ بیٹوں اور دو بیٹیوں کو عمدہ تعلیم اور اچھی تربیت سے آراستہ کر دنیا وآخرت کی بھلائی حاصل کرکے صحیح معنوں میں وہ راجہ کہلائے۔

جناب محمد ریاض الدین عرف راجہ صاحب ایک ہمت وَر اور شریف انسان تھے۔ پیشہ سے تو وہ کاشتکار تھے مگر حصول رزق کے لیے مزدوری کرنے سے بھی نہ ہچکچاتے۔ دن میں اگر مزدوری کرتے تو رات کے سہ پہر کو اپنی کھیتی کا کام نبٹاتے۔
ان کی شادی جناب عیسیٰ صاحب ولد حاجی اکلو مرحوم کی بڑی لڑکی لعل بی بی سے ہوئی۔ اس طرح ریاض الدین صاحب کا سسرال بھی گاؤں میں ہی ہوا۔ شادی کے بعد محترمہ لعل بی بی نے گھر سنبھالا جب کہ خارجی انتظام خود ان کے ذمہ تھا۔ بچوں کی پرورش و پرداخت میں اپنی جان کھپادینے کو ان حضرات نے اپنی سعادت سمجھ رکھا تھا۔ اپنا سکھ چین سب قربان کردیا مگر اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آج ان کی اولادوں کی زندگی میں خوشحالی ان دونوں بزرگوں کی کاوشوں کاہی ثمرہ ہے۔

جناب ریاض الدین صاحب سیدھے آدمی تھے۔ دوسروں کے کام آجانا ان کے اخلاص کی دلیل ہے۔ گو اس سیدھے پن نے کبھی کبھار انھیں نقصان بھی پہنچایا، مگر عفو و در گزر کرنے سے وہ کبھی منہ نہ موڑے۔ بے ایمانی، جھوٹ اور دھوکہ دھری سے وہ سخت نفرت کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کو فائدہ نہ پہنچا سکو تو اس کا نقصان بھی نہ کرو۔ وہ خوش اخلاق اور ملنسار تھے۔ رشتوں کو نبھانا انھیں خوب آتا تھا۔ ہندو، مسلم، امیر، غریب، بوڑھے اور بچے سب ان سے لگاؤ رکھتے تھے۔ اولادوں کی پرورش، تعلیم اور ان کے مستقبل کو بنا دینا ان کی زندگی کا خاص مقصد تھا جس میں وہ بہ خوبی کامیاب ہوئے۔

وہ بہت خوش قسمت تھے کہ محترمہ لعل بی بی جیسی دیندار، خدا ترس اور فرمانبردار خاتون ان کے نکاح میں آئیں۔ ان کی اہلیہ بھی صرف گھریلو تعلیم یافتہ تھیں۔ رہوا گاؤں کی استانی (جو ریاض الدین صاحب کی پھوپھی بھی تھیں ) سے پورے علاقہ کی لڑکیوں نے جہاں تعلیم حاصل کی، وہیں وہ بھی استانی جی کی خاص شاگردہ تھیں۔

محترمہ لعل بی بی نے اپنے گھر کو جنت بنایا۔ شوہر کو مزاجی خدا مانا اور بچوں کی پرورش اور ان کی خیرخواہی میں اپنی زندگی صرف کردیں۔ گھر کے کام کاج میں ہی لگے رہنا ان کی خاص صفت تھی۔ عورتوں کے بیچ بیٹھ کر چغلی اور بے کار کی باتیں کرنے سے انھیں سخت نفرت تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ وقت ضائع کرنے سے کبھی بھلا نہیں ہوتا۔ گھر کے سارے کام وہ خوش دلی سے انجام دیتیں۔ علاقہ بھر میں ان کے کام کی پذیرائی ہوا کرتی تھی۔ شوہر اور بچوں سے اس قدر محبت کرتیں کہ ان پر جان بھی نچھاور کرنے کو تیار۔ اپنی عمر بھی شوہر یا بچوں کے لیے ان کی بیماری کے موقع پر وقف کردینا ان کے لیے معمولی بات تھی۔ ساری ذمہ داریوں کے ساتھ فجر کی نماز کے بعد تلاوت کے معمول میں شاید ہی کبھی فرق آتا، یہاں تک کہ رمضان میں پانچ سات ختم قرآن کرنا ان کے لیے کوئی بڑی بات نہ تھی۔ ہر نماز میں اپنے شوہر اور بچوں کی فلاح وبہبود کے لیے دعائیں مانگنا ان کی عبادت کا حصہ تھا۔

الغرض ایسی نیک اور خداترس اہلیہ کا جب ۷۵سال کی عمر میں ۱۶؍نومبر۲۰۱۶ ؁ء مطابق ۱۶؍صفر المظفر۱۴۳۸ ؁ھ بروز بدھ بہ شب ۴؍ بجے انتقال ہو گیا تو ریاض الدین صاحب سے ان کی جدائی کا غم برداشت نہ ہوسکا۔ وہ اکثر گھر کے لوگوں سے چھپ چھپ کر اہلیہ کی یاد میں رویا کرتے۔ ختم قرآن کرکے ان کے لیے دعائیں کرتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ وہ خوش قسمت اور جنتی عورت تھیں۔

وہ بہت زیادہ عبادت گزار تو نہ تھے؛ البتہ پانچوں وقت کی نماز اور رمضان کا روزہ کسی بھی حالت میں فوت نہ ہونے دیتے۔ ہاں کاشتکاری وغیرہ سے فراغت کے بعد اپنی عمر کے اخیر کے تقریباً پانچ سال صرف عبادت الہی میں گزارا۔ امراض قلب اور گھٹنوں کے درد کے مریض ہونے کے باوجود رمضان کا روزہ، دس دن پھر ستائیس دن کی تراویح، پورے سال تہجد کی پابندی، روزانہ کی تلاوت اور رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف یہ سب گویا ان کی نس نس میں بسا ہوا تھا۔

محترم جناب محمدریاض الدین صاحب کی زندگی کے اخیر کا ایک سوا مہینہ عجیب سبق آموز تھا کہ دل کے مرض کی شدت کی وجہ سے جب وہ پٹنہ ہارٹ ہاسپیٹل میں بغرض علاج داخل تھے تو اس پریشانی کے عالم میں بھی ان کی زبان پر ہر وقت اَللّٰہُ، اَستغفراللّٰہ اور لا اِلہَ الا اللّٰہ کا ورد جاری رہتا۔ بالآخر ایسے جفاکش دیندار انسان کے ساتھ زندگی نے وفانہ کی اور ۸۳؍سال کی عمر میں یہ مرد مجاہد اپنی دنیا وآخرت سنوار کر اپنے چھ بیٹوں ، دو بیٹیوں ، بارہ پوتوں ، گیارہ پوتیوں ، ایک نواسی اور دو نواسوں کی موجودگی میں ۲۰؍جولائی ۲۰۱۸ ؁ء مطابق ۷؍ذی قعدہ ۱۴۳۹ ؁ھ بروز جمعہ بہ شب سنیچر ایک بجے اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔

آسماں ان کی لحد پہ شبنم افشانی کرے

اخیر میں رب کریم کی اس عنایت کا میں بے حد شکرگزار ہوں کہ اس نے مجھے مذکورہ بالا دو بے مثال ہستیوں کی شکل میں باپ اور ماں جیسی عظیم نعمت عطا کیا جن کا بیٹا ہونے پر مجھے فخر ہے۔

تبصرے بند ہیں۔