اپریل فول:حقیقت اور شریعت کی روشنی میں

 مفتی محمد صادق حسین قاسمی

مغربی تہذیب کی بے ہودہ رسومات او ر لایعنی روایات کا جال پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اوراس میں پوری دنیا جکڑی ہوئی ہے خاص کر مسلمان چاہے وہ کہیں کا بھی رہنے والا ہو وہ تو اپنی کامیابی کے خواب مغربی تہذیب ہی میں دیکھنے لگا ہے ،اور اسے ہر ترقی مغربی تہذیب ہی میں نظر آنے لگی ہے ،چاہے اس تہذیب کی نقالی میں تہذیب و شرافت ماتم کریں ،دین و شریعت منع کرے،اورعقل و انصاف ناروا تصور کرے لیکن اس کو اپنا کر ہی موجودہ مسلمان فخر و اعزاز سمجھتا ہے ،مغرب کی پھیلا ہوئی ایک بد تہذیبی’’ اپریل فول‘‘ بھی ہے جو پورے اہتمام کے ساتھ ’’یکم اپریل‘‘ کو منائی جاتی ،تفریح اور لطف اندوزی کے عنوان پر لوگوں کو بے وقو ف بنا یا جاتا ہے ، تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں ،دھوکہ دیا جاتاہے ،تضحیک و تمسخر کیاجاتا ہے اور بر سر عام کسی کی بے عزتی کی جاتی ہے ۔یکم اپریل کی آمد سے پہلے ہی لوگوں کو ستانے اور بے وقوف بنانے کی مختلف ترکیبیں بنالی جاتی ہیں اور یکم اپریل کو ’’اپریل فول‘‘ کے نام سے انتہائی بھونڈے مذاق کئے جاتے ہیں اور مذاق مذاق میں غم و الم سے بھی دوچا ر کیا جاتا ہے ۔اس بے ہودہ رسم کی ابتداکیسے ہوئی ؟اور دین وشریعت نیز عقل و شرافت کے آئینہ مین اس کی کیا حقیقت ہے ایک نظر ڈالتے ہیں ۔

اپریل فول کا آغاز:

 مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں :اس رسم کی ابتداء کیسے ہوئی ؟اس بارے میں مؤرخین کے بیا نات مختلف ہیں ،بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا ،اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی وینس(venus)کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھاکرتے تھے ،وینس کا ترجمہ یونانی زبان میں Aphro-diteکیا جاتا ہے اور شاید اسی یونانی نام سے مشتق کرکے مہینے کا نام اپریل رکھ دیا گیا…..لہذا بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ چو ں کہ یکم اپریل سال کی پہلی تاریخ ہوتی تھی ،اور اس کے ساتھ ایک بت پرستانہ تقدس بھی اوبستہ تھا اس لئے اس دن کو لوگ جشن ِ مسرت منا یا کرتے تھے اور اس جشن مسرت کا ایک حصہ ہنسی مذاق بھی تھا جو رفتہ رفتہ ترقی کرکے اپریل فول کی شکل اختیا ر کر گیا ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس جشن مسرت کے دن لوگ ایک دوسرے کو تحفے دیا کرتے تھے ،ایک مرتبہ کسی نے تحفے کے نام پر کوئی مذاق کیا جو بالآخر دوسرے لوگوں میں بھی رواج پکڑ گیا۔( ذکر وفکر :66)اس کے علاوہ بھی مفتی تقی عثمانی صاحب نے انسائیکلو پیڈیا آف بر ٹانیکا کے حوالے سے اور بھی واقعات لکھیں ہیں جس میں ایک  رومیوں اور یہو دیوں کا حضرت عیسی ٰ ؑ کے ساتھ مذاق کرنا بھی شامل ہے کہ وہی روایا ت باقی رہ گئیں اور لوگ نا سمجھی میں اس رسم بد کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں ۔

اپریل فول چند گناہوں مجموعہ:

  اپریل فول کی یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جو پیش کی گئی ،جس میں مخفی انداز میں یہود و نصاری نے اپنی روایات کو دنیا میں تفریح و مذاق کا نام دے کر رائج کر دیا اور لوگ اپنے آپ کو قابل بتا نے اور نئے زمانے و ماحول سے آشنا ثا بت کرانے ان کی تاریخی روایات کے پاسدار بن گئے ۔لیکن اس کے ساتھ ہی اس رسم نے ایک مسلمان کو خاص طور پر کئی ایک گنا ہوں میں مبتلا کردیا ۔اپریل فول کی بنیاد مذاق پر ہوتی ہے وہ مذاق چاہے خلاف واقعہ ہی کیوں نہ ہو؟بلکہ خلاف واقعہ اور غیر وقوع پذیر چیزوں کو ہی بنیا د بنا کر مذاق کیا جاتا ہے اس میں بنیادی طور پر چار قسم کے گنا ہو ں کا ارتکاب ہوتا ہے ۔

جھوٹ،دھوکہ، تمسخر ( مذاق اڑانا)اور ایذا رسانی ۔یہ وہ گناہ ہیں جس سے شریعت نے بڑے اہتمام سے روکااور مسلمان اپریل فول کے نا م پر اس کو خو ش دلی کے ساتھ انجام دیتے ہیں ۔جھوٹ جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں بچنے کی تا کید آئی ہے ،اور زبان کو جھوٹ سے محفوظ رکھنے کا حکم دیا گیا۔قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ:فنجعل لعنۃ علی الکاذبین۔(ال عمرن:61)بنی کریم ﷺ نے فرمایا کہ: جب آدمی جھوٹ بولتا ہے تو اس کلمہ کی بدبو کی وجہ سے رحمت کا فرشتہ اس سے ایک میل دور چلا جاتا ہے ۔( ترمذی:۱۸۹۱)جھوٹ بولنے کوآپ ؐ نے منافق کی علامت بتایا ہے ۔(بخاری:32)آپ ؐ نے مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع کیا ،فرمایا کہ : جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولے اس کے لئے بربادی ہو،بربادی ہو،بربادی ہو۔(ترمذی:2248)جھوٹ بولنے کو خیانت سے تعبیر کرتے ہوئے آپ ؐ نے فرمایا کہ :یہ بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی سے ایسی گفتگو کرے جس میں وہ تجھے سچا سمجھتا ہوحالاں کہ تو اس میں جھوٹ بول رہاہے۔(ابوداؤد:4322)ان احادیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا اپریل فول میں لوگوں کوہنسانے کے لئے ہی جھوٹ بولا جاتا ہے جس پر سخت ترین وعیدیں آپ ؐ نے بیان فرمائیں ہیں ۔

اپریل فول میں جھوٹ بول کر دھوکہ دیا جاتا ہے جب کہ اسلام کی پیا ری تعلیمات یہ ہیں کہ کسی کو دھوکہ نہ دیا جائے ۔آپ ؐ کا ارشاد ہے کہ :جودھوکہ دے وہ ہم سے نہیں ۔(ترمذی:1232)نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ : نہ خو د نقصان اٹھاؤ اور نہ ہی کسی کو نقصان مین ڈالو۔(ابن ماجہ:2334)اسی طرح اپریل فول کے اندر کسی کی توہین بھی ہوتی ہے ،مذاق بھی اڑا یا جاتا ہے ،نامناسب کلمات بھی کہے جاتے ہیں ،اور ایک دوسرے پر ہنسا جاتا ہے ۔قرآن کریم میں کسی کا مذاق اڑانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا گیاکہ:ائے ایمان والو!نہ تو مرد دوسرے مرد وں کا مذاق اڑائیں ،ہوسکتا ہے کہ وہ ( جن کا  مذاق اڑارہے ہیں )خود اس سے بہتر ہوں ،اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ،ہوسکتا ہے کہ وہ( جن کامذاق اڑارہی ہیں ) خود ان سے بہتر ہوں ،اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو،اور ایک دوسرے کو برے القا ب سے پکارو۔ایما ن لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا بری بات ہے۔اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں ،تو وہ ظالم لوگ ہیں ۔( الحجرات:11)

مفتی محمد شفیع صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ:استہزاء وتمسخر جس میں مخاطب کی دل آزاری یقینی ہے وہ بالاجماع حرام ہے ،اس کامزاح جائزمیں سمجھنا گناہ بھی ہے اور جہالت بھی۔( گناہ ِ بے لذت:12)ان کاموں کی وجہ سے یقینا ایک انسان کو اذیت ہوگی ،جھوٹ بول کر،دھوکہ دے کر مذاق بھی اڑایا گیا اور اس کے دل کو تکلیف بھی پہنچائی گئی ۔اسلام میں کسی کو تکلیف دینے سے منع کیا گیا اور ایذا رسانی کو حرام قرا ر دیا ۔نبی کریم ﷺ نے کمالِ ایمان کی علامت یہ بتائی کہ جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا رسانی سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے ۔المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ۔(بخاری:حدیث۹)اور اس اپریل فول کے نتیجہ میں بے شمار لوگوں کو جانی نقصان اور مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔کسی اچھی بات دل خو ش ہوا لیکن وہ جھوٹ تھی تو انسان کو تکلیف ہوگی ۔یہ بھی ایک خلاف شریعت کام کو اپنے ذہن کے مطابق اچھا سمجھ کر نے کا وبال کہ آدمی اس کو خوش طبعی اور مذاق و دل بہلائی سمجھ رہا ہے اور اس کے لئے جھوٹ کا سہارا لے کر،دل آزاری کرکے اور مذاق اڑاکر مفت میں گنا ہ مول رہے ہیں ۔

مذاق اوراسلامی تعلیم :

 اسلام میں جھوٹ بول کر مذا ق کرنے سے منع کیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلام میں تفریح ودلچسپی کا سامان نہیں بلکہ اسلامی ہدایات اس باب میں بھی انسانوں کو رہبری کرتی ہیں اور خود نبی کریم ﷺ کا اسوہ بھی رہنمائی کرتا ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب سے مزاح فرمایا اور اپنے اصحاب کے مزاح کو سنا بھی لیکن جھوٹ بول کر نہیں بلکہ حقیقت ِ واقعہ کو کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ اس میں تھوڑی دلچسپی بھی پیدا ہوئی اور مزاح بھی ہوا، ایک مرتبہ صحابہ نے کہا ائے اللہ کے رسول ﷺ !آپ بعض اوقات ہم سے خوش طبعی کی باتیں فرماتے ہیں ؟آ پ نے فرمایا :بلاشبہ میں حق بات ہی کہتا ہوں ۔( ترمذی: 1909) چناں چہ ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ ؐ سے سواری طلب کی ۔آپ نے ؐفرمایا کہ سواری کے لئے میں تجھے اوٹنی کا بچہ دوں گا۔اس نے کہا میں اوٹنی کے بچہ کو لے کر کیا کروں ؟آپ ؐ نے فرمایا ہر اونٹ کسی اوٹنی کابچہ ہوتا ہے ۔(ابوداؤد:4348)ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت حاضر ِ خدمت ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ دعا فرمادیجئے کہ اللہ تعالی مجھے جنت میں داخل فرمادے ،نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنت میں بوڑھی عورت داخل نہیں ہوسکتی ،وہ عورت روتی ہوئی لوٹنے لگی ،آپ ؐ نے فرمایا کہ اس سے کہہ دو کہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالی سب اہل جنت عورتوں کو نو عمر کنواریاں بنادیں گے اور اللہ تعالی کے قول انا انشأ نا ھن انشاء فجعلنا ھن ابکارا میں اس کا بیان ہے۔(خصائل نبوی :307)اس طرح کے اور بھی واقعات ہیں جس میں آپ ؐ کے مزاح فرمانے کو ذکر کیا گیا ،نبی کریم ﷺ نے مذاق فرماکر انسانوں کو سبق دیا کہ خلاف ِ حقیقت اور جھوٹ سے مذاق نہ کیا جائے ،بلکہ مذاق میں بھی سچی بات ہی کہنی چاہیے۔اور مذاق میں جھوٹ کہنا خا ص کر لوگوں کو ہنسانے کے لئے اس سے آپ نے سختی سے منع کیا ہے لیکن آج یہ بھی ایک آرٹ بن گیا اور ہنسنا ہنسانا ایک ایک مستقل فن ہوگیا جس میں بے دریغ جھوٹ بولا جاتا ہے اور بے سروپا باتوں کو بیان کیا جاتا ہے ۔

شرافت و عقل کا تقاضہ:

   یہ عجیب بات ہے کہ جو لو گ خود کو ساری دنیا میں مہذب قرار دینے اور اظہار الفت و محبت کے نت نئے طریقوں کو ایجاد کرنے کے دعوے دار ہیں وہی لوگ جب چاہے دوسرے لوگوں کا مذاق اڑانے کے روادار بھی بن بیٹھیں ۔حقیقی محبتوں سے محروم اہل مغرب مختلف ایام (Day)منا کر اپنے دلوں کو تسکین دیتے ہیں لیکن انہی کا بس چلے تو پھر یہ لوگوں کا مذاق اڑانے اور ان کی عزتوں کو پامال کرنے کے لئے خو ش طبعی کا عنوان دے کر جس سے چا ہے کھیل بھی سکتے ہیں اور یہ ظرافت و مزاح کا حصہ کہلائے گا چا ہے اس کی وجہ سے کسی کو تکلیف ہو، کسی کی امید پر ضرب پڑے،کسی کی خوش فہمی پر پانی پھر جائے بلکہ آج کل تو لوگ اپریل فول کی چکر میں موت و حیات کے من گھڑت افسانے پیش کئے جاتے ہیں ،اورحادثات کے دل دہلانے والے فرضی قصے بھی بیا ن ہوتے ہیں ۔عقل اور شرافت بھی اس کو غلط قرار دے گی کہ مذاق کے لئے جھوٹ کا سہارا لیا جائے اور کسی انسان کو پریشان کیا جائے۔اور مسلمان کو تو شرعی اعتبار سے بھی یہ اپریل فول منانا جائز نہیں ہوگا کیوں کہ یہ کئی ایک گناہوں کا مجموعہ بھی ہے اور اسلامی تعلیمات کے خلاف بھی ہے ۔حضرت مفتی عبدالرحیم لاجپوری ؒ نے ایک سوال کے جواب میں لکھا کہ :یہ نصاری کی سنت ہے ،اسلامی طریقہ نہیں ہے ،جھوٹ بولنا حرام ہے ۔….(فتا وی رحیمیہ : 10/230)

اسی طرح فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ  لکھتے ہیں کہ :یکم اپریل کو جو غلط قسم  کے ہنسی مذاق کئے جاتے ہیں اور اکثر اوقات دھوکہ دہی سے کام لیا جاتا ہے ،یہ قطعا نادرست ہیں اور اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں اس میں کئی برائیاں جمع ہوجا تی ہیں : جھوٹ ،دروغ گوئی،دھوکہ ،اس کی وجہ سے اذیت رسانی اور اس سب کے علاوہ فاسقوں اور بے دین لوگوں کی روش کی پیروی اور ان سے تشبہ ….(جدید فقہی مسائل :1/461)س لئے مسلمانوں کو بالخصوص اس بے ہودہ مذاق سے بچنا چاہیے ،نوجوانوں کو اس طریقہ سے احتیا ط کر نا چاہیے ۔چھوٹے بچوں کو بھی اس خلاف شریعت اور خلاف شرافت مذاق سے روکنا چاہیے ،اس کی قباحت ومذمت کو بیان کر کے اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ نسل ِ نو غیروں کی نقالی کے بجائے سرورکونین ﷺ کے مبارک اسوہ سے زندگیوں سے آراستہ کرنے والی بنیں اور اسلامی تہذیب و روایات کی پاسدار ہو ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔