ملی نجات کی شاہرہ

فرض کی پکار : ۔ اگر ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ہماری موجودہ حالت جوں کی توں بر قرار رہے اور ہم پر خود اپنے وجود سے دشمنی کرنے والا ایک فرض ناشناس گروہ  ہونے کا جوواقعی الزام لگ چکا ہے وہ نہ خلق کے سامنے سے دور ہونہ خدا کے سامنے سے تو اس کی واحد تدبیر صرف یہی ہوسکتی ہے کہ ہم خداوشناس بنیں ، اپنا فرض یاد کریں اور پھر اس نصب العین کے ہو رہیں ۔ جسکے سوا ہمارا کوئی دوسرا نصب العین نہیں ، اور نہ مسلمان ہوتے ہوئے کبھی ہو سکتا ہے۔ یہ بات نہ کسی خوش عقیدگی کی پیداوار ہے نہ ماضی پر ستی کا نتیجہ ۔ بلکہ کہ اس کتاب کا فیصلہ ہے جسے ہم انسانی کلام نہیں بلکہ الٰہی کلام مانتے ہیں جس کو سچی ہدایت اور یقینی علوم کا سر چشمۂ قرار دیتے ہیں اور جس کی ہر بات کو بلا چوں وچرا تسلیم کرنے کا ہم نے عہد کیا ہے جس وقت یہ کتاب نازل ہورہی تھی اس وقت پچھلی آسمانی کتابوں کے پیرو(یہودونصاریٰ ) کچھ اسی قسم کے حالات سے دو چار تھے۔

جب اس نے ان کی اعتقادی گمراہیوں اور عملی خرابیوں پر تنقید کی اور ان کے برے انجام سے انہیں ڈرایا اور اللہ کا سچا دین پیش کر کے اس کے اتباع کی انہیں دعوت دی تو ان کی رگوں میں الٹی جاہلی حمیت بھڑک اٹھی۔ کیونکہ انہیں غزہ تھا کہ ہم خود آسمانی مذہب رکھنے والے ہیں ۔ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے لاڈلے ہیں ۔ اس لئے انہیں گوارانہ ہو سکا کہ کوئی اور ان کے سامنے ہدایت اور امامت کا علمبرداربن کر آئے نتیجہ یہ ہوا کہ جواب میں وہ جار حانہ حملوں پراتر آئے اور ایک طرف اسلام کی تردید وتکذیب پر دوسری طرف اپنی عظمت وامامت پر زور بیان صر ف کرنے لگے۔

 اللہ تعالیٰ نے ان کی ان کٹھ حجتیوں کے اور ان کے اس ادعا کے جواب میں فرمایا:۔  "اے پیغمبر ان لوگوں سے کہہ دو کہ اے اہل کتاب تم ہر گز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تم قائم نہ کر لو تو رات اور انجیل کو، اور اس چیز کو جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر اتری ہے۔ (مائدہ ۔68)”

 یعنی تم اپنی موجودہ حالت میں رہتے ہوئے ہر گز اس امر کے مستحق نہیں ہو کہ دلیل وبرہان کے ساتھ حق کے بارے میں کلام کر سکو۔ تم نے وہ بنیاد ہی کھود کر پھینک رکھی ہے جس پر تمہارے وجود ملی کی عمارت کھڑی تھی۔ اس معاملہ میں تم بحث وجدال کے حقدار اسی وقت ہو سکتے ہوں جب تم ان ہدایات پر کاربند ہوجاؤ اور اپنی زندگیوں کو ان تمام احکام کا پابند بنا لو جو سلطان حقیقی کی جانب سے تم پر مختلف وقتوں میں نازل ہوتے رہے ہیں ۔ تم نے کتاب الہی کے جن حصوں کو اپنی دنیائے عمل سے خارج کر رکھا ہے ان کو ازسر نونافذ کر لو ، جن صداقتوں کا تمہیں علم دیا گیا تھا ان کی حفاظت اور بر ملا اشاعت کا بھولا ہوا فریضہ یاد کر لو۔ اور تمہاری زندگی کا جو مقصد ٹھیرایا گیا تھا اسے پھر اپنا لو۔

 اب غور کیجئے اسی فیصلۂ قرآنی کی روشنی میں خود اپنے معاملہ پر امت مسلمہ کے اتباع حق کی عملی حالت بھی جب یہی ہے کہ کتاب الہی کا ایک حصہ صرف برکت تلاوت کیلئے رہ گیا ہے اور اس سے اس کا کوئی عملی تعلیم باقی نہیں رہا ہے تو انصاف کیا کہتا ہے ؟ کیا اسکے سوا کچھ اور کہ اسے بھی  لستم علیٰ شیًٗ کا سزاوارٹھیرایا جائے اور جب تک وہ "قرآن کی اقامتـ”نہ کر ے اس وقت تک اسے شہدآحق اور خیرامۃہونے کے اعزاز کا حقدار نہ سمجا جائے ؟ یقیناً نہیں ، اور بلاشبہ یہ اس کی ایک طرح کی دھاندلی ہوگی ۔ اگر وہ اس اعزاز کے تمغے کو اس حالت میں بھی اپنے سینے پر آویزاں کئے رہے ۔ اس لئے اگر وہ اپنے منصب اور اعزاز کی حقدار بننا چاہتی ہے تو اس کی تعین اور قطعی تدبیر صرف یہ ہے کہ وہ اپنے فرض کا بارگراں پھر سے اپنے کا ندھوں پر اٹھالے اور دنیا کے ہر کام ، ہر ہنگامے، ہر مشغولیت اور ہردل چسپی سے منھ موڑ کر اپنی نظریں اسی ایک کام پر جما لے ۔ یہ اس کے منصب اور اس کے مقصد وجود کا مطالبہ ہے۔ اس کی ملی تشخص کی بحالی کی اس کے سوا کوئی تدبیر ہی نہیں کہ وہ اس مطالبے کے آگے سر جھکا دے۔

  اسی طرح اس  امت کے لئے دنیوی عزت واقبال کی بازیافت کی راہ بھی اس کے سوا کوئی دوسری نہیں جس کا ناقابل انکار ثبوت قرآن مجید کا وہ ارشاد ہے جو اس نے ذلت ومسکنت کے مارے ہوئے بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا تھا: ۔

 "اگر یہ اہل کتاب ایمان رکتھے اور خدا تر سی کی راہ چلتے تو ہم ان کی برائیاں ان سے دور کردیتے اور نعمت کے باغوں میں انہیں داخل کرتے اور اگر وہ  تو راۃ اور انجیل کو اور ان ہدایتوں کو جو ان کے رب کی طرف سے انہیں پہونچی ہیں قائم کرتے تو اپنے اوپر سے رزق بٹورتے اور پنے قدموں کے نیچے سے بھی۔ "(مائدہ۔65-66)

  یہ تھی وہ تدبیر جس کے ذریعہ امت اسرائیل کو اس کا کھویا ہوا اقبال واپس مل سکتا تھا۔ اس ارشاد قرآنی کی روشنی میں امت مسلمہ کا معاملہ بھی کچھ مشکل نہیں رہ جاتا ۔ مرض کی یکسانی  چاہتی ہے کہ علاج بھی ایک ہی ہو ، ہلاکت و نامرادی جس راہ سے اہل کتاب کے یہاں آئی تھی ۔ آپ دیکھ چکے ہیں کہ اہل قرآن کے پاس بھی اسی راہ سے آئی ہے اس لئے کھلی بات ہے کہ اس سے نجات بھی اسی طریقے سے مل سکتی ہے جس کی اہل کتاب کو تلقین کی گئی تھی۔ قرآن کہتا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا کہنا ایک مومن کے لئے حرف آخر کا حکم رکھتا ہے، کہ اہل کتاب نے خداوندی احکام وہدایات کے کچھ حصوں کو چھوڑ دیااور بھلا رکھا تھا، جس کے نتیجے میں رحمت الٰہی ان سے روٹھ گئی۔ اور غضب خداوندی ان پر ٹوٹ پڑا جس سے نجات کی واحد تدبیر صرف یہ تھی کہ ان احکام وہدایات پر وہ پھر سے عمل کرنے لگتے۔ اب اگر کسی کے دل ودماغ قرآن حکیم کی "زبان”سمجھنے کی صلاحیتوں سے بالکل محروم نہیں ہوچکے ہیں تو اس کے لئے اس پیغام کو سمجھ لینا ذرا بھی دشوار نہیں جس کی طرف وہ اپنے اس ارشاد میں صاف طور سے انگلی اٹھا کر اشارہ کر رہا ہے ۔ چنانچہ جس کسی کو اللہ تعالیٰ نے ہوش مندی اور عبرت کے کان دیئے ہیں وہ قرآن کے انہی لفظوں میں سے یہ آواز بھی سن سکتا ہے کہ :۔

 "اگر قرآن کے پیروایمان رکھتے اور خدا ترسی کی راہ چلتے تو ہم ان کی برائیاں ان سے دور کر دیتے اور نعمت کے باغوں میں انہیں داخل کرتے اور اگر وہ قرآن کو قائم کرتے تو اپنے اوپر سے بھی رزق بٹور تے اور اپنے قدموں کے نیچے سے بھی "

نیز یہ کہ :۔

ـ”اے اہل قرآن! تم ہر گز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک قرآن کو قائم نہ کرو۔”

غرض "اقامت قرآن”دوسرے لفظوں میں اقامت دین ہی وہ واحد نسخۂ شفا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے پہلے ہی سے تجویز فرما دیا تھا اور یہ بتادیا تھا کہ یہی وہ چیز ہے جس پر تمہاری اخروی سعادت کا بھی انحصار ہے اور تمہاری دنیوی فلاح کا بھی تم کو جب بھی ان چیزوں  کی تلاش ہو، اس کے لئے راستہ یہی اختیار کرنا، باقی ہر طرف سراب ہی سراب ہوگا ۔ جہاں ٹھوکریں کھانے کے سواتمہارے کچھ ہاتھ نہ لگ سکے گا۔یعنی قرآن ہمیں  پھر اسی مقام پر واپس جانے کا حکم دے رہا ہے جہاں سے ہم ہٹ آئے ہیں ۔ حضرت امام مالکؒ نے یہ پیش گوئی کی تھی، نہ اپنے کسی کشف کا اظہار کیا تھا، جب فرمایا تھا کہ :۔

  ـ”یہ امت اپنے آخری دو ر میں بھی بہر حال اسی چیز سے خیر وصلاح پاسکے گی جس سے اس نے اپنے ابتدائی دور میں پایا تھا ۔”

 بلکہ یہ ایک روشن حقیقت تھی جس کا ان کی مومنا نہ بصیرت نے پورے تیقن سے ادر اک کیا اور جس کے سوا کسی صاحب ایمان کے ذہن میں کوئی دوسری بات آہی نہیں سکتی جہاں تک "صلاح دین "کا تعلق ہے اس کے لئے تو اتباع دین کے سوا ور کوئی ذریعہ تصور ہی میں نہیں آسکتا ۔ کھلی بات ہے کہ دینی سدھاردین ہی کے اپنا نے سے ہو سکتا ہے۔ رہ گئی امت کی "دنیوی صلاح”تو یہ بھی اس کے شہادت حق کے منصب پر فائز جماعت ہونے کے باعث اسی دین ہی سے وابستہ ہے۔ کیونکہ اسے جو عروج واقبال بھی بخشا گیا تھا وہ سب اسی نصب العین سے وفاداری کاصلہ تھا اور اس سے اللہ تعالیٰ نے فتح ونصرت کے جتنے وعدے کئے تھے  وہ سب اسی اقامت دین کی شرط سے مشروط تھے۔ چنانچہ جب مسلمانوں کو یہ بشارت دی گئی تھی کہ تم ہی سر بلند ہوگے اور تمہارے مقابلے میں تمہارے دشمنوں کا انجام محکومیت ہوگا (انتم الاعلون) تو اسی کے ساتھ ان کنتم مومنین کی شرط بھی لگادی گئی  تھی۔ ظاہر ہے یہ مشروط وعدہ کوئی خصوصی اور وقتی وعدہ نہیں تھا بلکہ ایک ابدی اور اصلی وعدہ تھا ۔ احادیث سے تو یہاں ت معلوم ہوتا ہے کہ خود اس امت کے اندر بھی خاص طور پر وہی گروہ اس کے اعزاز واقبال کا نمائندہ اور علمبر دار ہوگا  جو اقامت دین کے فریضے کو پورا کر رہ ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :۔

 "بلا شبہ یہ خلافت اس وقت تک قریش ہی میں رہے گی جب تک وہ دین کو قائم رکھنے کا فریضہ ادا کرتے رہیں گے جو کوئی بھی ان سے عداوت کرے گا اللہ اس کو اوندھا گرادیگا۔”(بخاری بحوالہ مشکوٰۃ)

  تحریر :۔ مولانا صدرالدین اصلاحی ؒ ۔۔  ترتیب عبد العزیز

تبصرے بند ہیں۔