اپنوں کو قاتل بنانے سے پہلے سنبھل جائیے!

رويش کمار

امید ہے آپ کے اندر ریل چلنے لگی ہوگی. ریل کی آواز کے ساتھ آپ کی سانسوں نے آپ سے کچھ کہا ہو گا کہ جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے. بھیڑ کو سیاسی شناخت ملنے لگی ہے. ہمدردی کے نام پر دو تین دن گزر جانے کے بعد مذمتی  بیان آتے ہیں. پھر  کچھ دن بعد بھیڑ کسی اور کو مار دیتی ہے. آپ سوچ رہے ہیں کہ اس سے ہمارا کیا، لیکن آپ یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ایک کو مارنے کے لئے آپ ہی اپنے قاتل بن رہے ہیں.اس بھیڑ کو  سیاسی حمایت حاصل ہے۔ کیونکہ جو زہر اس بھیڑ کو اکساتا ہے، وہ کسی فیکٹری میں پیدا ہو رہا ہے،۔ آپ دیکھنا چاہتے ہیں تو آرام سے نظرآ جائے گا. نہیں دیکھنا چاہیں گے تو کوئی بات نہیں، پر آپ کا ہی اپنا  کوئی کسی بھیڑ میں جاکر کسی کو مار آئے گا. لہذا اپنوں کو قاتل بنانے سے پہلے سنبھل جائیں.

بھارت میں لوگ مل کر لوگوں کو مارتے رہے ہیں . کبھی عورتوں کو ڈائن بتا کر مار دیا تو کبھی کسی کو چوری کے الزام میں پکڑ کر مار دیا. ہمارے اندر جو تشدد ہضم ہوئی ہوتی ہے، وہ کسی نہ کسی شکل میں قے کر کے باہر آ جاتی ہے. ایک کے جھگڑے میں بہت سے لوگ شامل ہوتے ہیں اور پھر اس کا قتل کر دیا جاتا ہے. دہلی شہر میں روڈ ریج ایک ذہنی بیماری تو ہے ہی. ذرا سی گاڑی میں کھرونچ آئی نہیں کہ لوگ اتر کر کالر پکڑ لیتے ہیں . یہ جو آگ ہے، جسے کچھ لوگ چنگاری بتا رہے ہیں ، دھواں بتا رہے ہیں ، دراصل آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں . انہیں آپ لوگ چاہئیں . بھیڑ ہوا سے نہیں بنتی ہے. آپ کے بچوں کو بہکایا جائے گا، طرح طرح کے جھوٹے ، من گھڑت واقعات بتایے جائیں گے تب جاکر وہ کسی آگ میں كودےگا. آپ کا بچہ ایک ناقص سیاست کا کام آ رہا ہے. وہ قاتل بن رہا ہے. جو قتل میں شامل ہے وہ تو بن ہی رہا ہے اور جو اس قتل پر خاموشی کا بہانہ تلاش کر رہے ہیں دراصل وہ بھی ممکنہ قاتل بننے کی تیاری میں ہیں . خود کو بچا لیجئے. اپنے  کو اس بھیڑ سے الگ کر لیجیے.

مغربی بنگال کے اسلام پور میں تین لوگوں کو ہجوم نے مار دیا. گاؤں والوں کو لگا کہ کچھ لوگ گائے کے دیوار کے باہر کھڑے ہیں وہ جانوروں کی چوری کرنے والے ہو سکتے ہیں . بس شور کرنے لگے اور بھیڑ نے ان تینوں کو گھیر لیا. 15 لوگوں کی بھیڑ نے سميرالدين، نصیر، نارس کو گھیر کر مار ہی دیا. یہ 24 جون کا واقعہ ہے. 9 جون کو راجستھان کے باڑ میر میں تمل ناڈو کے گلہ محکمہ کے ملازم 50 گائے بچھڑوں کو خرید کر اپنے گھرواپس آ رہے تھے. ان کے پاس تمام کاغذات تھے، ضلع مجسٹریٹ تک کو اطلاع تھی، اس کے بعد بھی 50  لوگوں کی بھیڑ انہیں گھیر لیتی ہے اور سب کو مارتی ہے. ٹرک میں آگ لگا دیتی ہے. ڈرايورو کو مارتی ہیں . بالا برمگن، كرپےييا، این اروند راج کو افسر آئے تھے، ان کی جم کر پٹائی ہوتی ہے. یہی نہیں ، گائے کے نام پر ان کا حوصلہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ پولیس پر پتھراؤ بھی کرتے ہیں اور تین گھنٹے تک نیشنل ہائی وے جام بھی کرتے ہیں .

9 جون کو جھارکھنڈ کے چترا میں ایک پولیس والا 19 سال کے سلمان کو گھر سے ہٹا دیتا ہے اور گولی مار دیتا ہے. سلمان کی ماں پوچھتی رہی کہ کیا بات ہے، لڑکے نے کیا کیا ہے مگر وہ پولیس والا سلمان کو مار دیتا ہے. سری نگر کے مسجد کے باہر ڈی ایس پی ایوب پنڈت کو بھیڑ مار دیتی ہے. جس بھیڑ کو وہ برسوں سے جانتے تھے مگر لوگوں نے ان کی وردی اتاری اور پیٹ پیٹ کر مار دیا. آپ کے نام سے دیکھ لیجئے، مذہب سے دیکھ لیجئے، شہر سے دیکھ لیجئے، جیسے ذہن ویسے دیکھ لیجئے، مگر آپ کو ہر جگہ ایک بھیڑ نظر آئے گی جو کسی کو بھی وقت مار سکتی ہے. کسی کا بھی خون کر سکتی ہے.

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ عام واقعات ہیں . ہو سکتا ہے کہ انہیں عام نظر آتے ہوں مگر سرعام کسی کو مار دینا عام رجحان نہیں ہے. یہ ایک ذہنی بیماری ہے جو سیاسی وجوہات کی بنا پر  پنپ رہی ہے. گائے کے نام پر قتل کا یہ حوصلہ بچہ چوری کے نام پر اتم اور گنگیش کمار کی بھی جان لے لیتا ہے. تمل ناڈو کے كرپيا اور این اروند راج کو بھی زخمی کر دیتا ہے. اب یہ بھیڑ سب کے خلاف ہے. مگر اس کا ایک پیٹرن ہے. زیادہ لوگ وہ مارے جا رہے ہیں جو مسلمان ہیں. الور کے بعد اتنا ہنگامہ ہوا مگر پھر بھی واقعات رک نہیں رہی ہیں . راجستھان میں ہی جون کے مہینے میں بہت واقعات ہوچکے ہیں . حکومت میں جو بیٹھے ہیں ان کو مذمت کرنے میں  وقت لگ رہا ہے.

تین تین دن گزر جا رہے ہیں پھر بھی کوئی مذمت تک نہیں کرتا. ہم اور آپ سب جانتے ہیں کہ ابھی تک ایسی کسی بھیڑ کو ٹھوس سزا نہیں ہوئی ہے. لہذا بھیڑ کا حوصلہ بڑھتا جا رہا ہے. یہ بھیڑ مسلمان کو مارنے کے نام پر ہندو نوجوانوں کو قاتل بنا رہی ہے. قتل کا خون ایسے سوار ہو رہا ہے کہ پھر وہ بھیڑ بہترین اور اروند کو بھی معاف نہیں کرتی ہے. لہذا جاگ جائیں . آپ کے بچے ایسے معاشرے کو دیکھتے ہویے بڑے ہو رہے ہیں ، جہاں قتل کی مذمت نہیں ہوتی ہے، مرنے والے کا مذہب دیکھ چپ رہا جانے لگا ہے، وہاں آپ کے بچے کا مستقبل محفوظ نہیں ہے. وہی محفوظ نہیں ہے. مذہب کے نام پر اندر اندر جو زہر بویا جا رہا ہے اسے آپ بھی پھیلا رہے ہیں . یاد کیجئے کتنی بار ایسے زہریلے میسج کو آپ نے وهاٹس ایپ میں فارورڈ کیا ہوگا. اس سے ملا کیا. کون سا فخریہ ترانہ ہو گیا کون سا بھارت مہان ہو گیا. اعتراض اور سوال جمہوریت کی بنیاد ہیں مگر اس کو توڑنے کے لئے بات بات میں ہلاکتیں ہونے لگیں گی تو یہ سلسلہ اتنی آسانی سے نہیں رکے گا. آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب بھی بھیڑ کسی کو مارتی ہے ان کے یہاں کون کون نہیں جاتے ہیں . کون کون وزیر نہیں جاتے ہیں . اسی سے آپ کو پتہ چل جائے گا کہ ان ہلاکتوں کو لے کر سیاسی طبقے میں یا تو بے حسی ہے یا حمایت کے نام پر خاموشی.

مدھیہ پردیش کے برہان پور ضلع کے موهاد گاؤں میں 15 نوجوانوں پر دےشودروه کا معاملہ درج کیا گیا. دو دن بعد ثبوتوں کی عدم موجودگی میں غداری کیس ہٹانا پڑا کیونکہ جس سبھاش کولی کے نام سے شکایت درج کی گئی تھی، اسی نے کہا کہ وہ تو گاؤں میں ہی نہیں تھا، تو اس کے نام سے 15 لوگوں کی زندگی کس طرح خراب ہو سکتی ہے . سبھاش نے کورٹ میں باقاعدہ حلف نامہ دے کر کہا ہے کہ پولیس نے 15 نوجوانوں کے خلاف جھوٹا کیس درج کیا ہے. یہی ہندوستان کی طاقت ہے. کوئی نہ کوئی سبھاش پیدا ہو جاتا ہے. وہ سچ بولنے لگتا ہے. مگر اب بھی وہ 15 نوجوان جیل میں بند ہیں . گاؤں والوں کا بھی کہنا ہے کہ اپنی کرکٹ ٹیم ہے جس کا نام ہے ٹارگیٹ ہے. اس میں ہندو مسلم ساتھ ساتھ کھیلتے ہیں. ایسے میں پولیس کے اس الزام سے معاشرے میں دراڑ پیدا ہو رہی ہے. آپ دیکھ رہے ہیں معاشرے سے آواز آنے لگی ہے. ایک زہر ہے جسے معاشرے میں پھیلایا جا رہا ہے. چینلز کے ذریعہ یا پھر وہاٹس اپ کے ذریعہ. اس زہر سے کبھی بھی کہیں بھی بھیڑ بن سکتی ہے. یہ بھیڑ ہمارے دائیں طرف بھی ہے اور بائیں طرف بھی. جواب دینے کا اگر یہی چلن ہے کہ بھیڑ کی طاقت کا مظاہرہ ہو تو پھر ایسی ریل ابھی اور چلے گی. ہماری سینے پر، آپ کے سینے پر … اور شاید اس زمین کے سینے پر. زہر کا جادو پھیلا ہوا ہے، سنا ہے شہر میں کوئی جادوگر آیا ہے.

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔