اپنے حق کی جدوجہد کرتی آدھی آبادی!

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

آدم کی پسلی سے حوا کی ابتدا مانیں یابھارت کی ثقافت کے مطابق مرد کا آدھا حصہ، حوا کی یہی بیٹیاں ملک کی آدھی آبادی کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ انہیں کے دم سے کائنات میں رونق ہے۔ ان کی بدولت ہی انسان ماں ، بہن بیٹی، دادی، نانی، بوا، موسی اور بیوی کے رشتوں میں بندھا ہے۔ عورت کے سہارے ہی زندگی آگے بڑھتی ہے اور سماج تعمیر ہوتا ہے۔ لیکن عورت کو صدیوں سے اپنے وجود کیلئے جدوجہد کرنی پڑرہی ہے، زمانہ قدیم میں لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ بچی کو جنم دینے والی ماں روتی بلکتی رہ جاتی۔ باپ (مرد) کو نہ اس وقت کمسن ننھی سی جان پر ترس آتا تھا نہ آج اس کا دل پسیجتا ہے۔ اس کی سوچ نہیں بدلی باوجود اس کے کہ آج کا آدمی اپنے تہذیب یافتہ ہونے کا دعویدار ہے۔ اپنی ترقی پر اتراتا ہے بغیر یہ سوچے کہ اس ترقی میں عورتیں بھی شانہ بشانہ اس کے ساتھ رہی ہیں ۔

پچھلے سوسالوں سے یوم خواتین منایا جارہا ہے۔ ہر سال عزت کی زندگی اور برابری کا حق دینے کا عہدکیا جاتا ہے۔ عورتوں کی حالت کو بہتر بنانے کیلئے نئے قوانین اور پالیسیاں بنائی جاتی یا ان میں سدھار کئے جاتے ہیں ۔ ہمارا ملک بھی دنیا کے ساتھ عورتوں کی اچھی زندگی کیلئے مستقل کوشاں ہے۔ لیکن غور کرنے کا سوال یہ ہے کہ خواتین کی حالت میں بنیادی طورپر کتنا سدھار ہوا۔ شہر سے لے کر گائوں تک عورتوں کی حالت آج بھی ویسی کی ویسی ہی ہے۔ چاہے ان کی سماجی زندگی ہو یا خاندانی حالات، چاہے صحت ہو یا پھر شخصیت کا ارتقاء۔ سچائی یہ ہے کہ خواتین کی جدوجہد تو ماں کی کوکھ سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ جوں ہی معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا بچہ لڑکا نہیں لڑکی ہے، تو پہلے ماں کے پیٹ میں ہی اسے قتل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر کسی وجہ سے ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر آنے والے بچے کا کسی کو انتظار نہیں رہتا اورنہ ہی حاملہ عورت کی صحت کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ جب ایک عورت کی کوکھ میں دوسری عورت کی زندگی کا انکر پھوٹتا ہے تو دو عورتوں کی جدوجہد کی شروعات ہوتی ہے۔ ایک کشمکش اس نئی زندگی کی جسے زمین پر آنے سے پہلے ہی روندنے کی کوششیں شروع ہوجاتی ہیں اور دوسری جدوجہد اس ماں کی جو اس زندگی کو زمین پر لانے کا ذریعہ ہے۔ اس سماجی جدوجہد کے علاوہ سنگھرش جو اس کا جسم کرتا ہے، غذائیت کی کمی میں نو ماہ تک پل پل اپنے خون اپنی روح سے اپنے بھیتر پلتی زندگی کو سینچنے میں ، اس کی ذہنی کیفیت کو کون سمجھ پاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس وقت سے جب کہ ہمارے یہاں لڑکیوں ، دیویوں کی پوجاہوتی ہے اور ندیوں کو بھی ماں کہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو بیٹیوں کی صحیح تربیت کر ان کا گھر بسانے کیلئے نبیؐ نے جنت کی بشارت دی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا اپنی تہذیب وثقافت اور روایات سے رشتہ کمزور ہوا ہے۔ یا ہم اس کی پروا نہ کر دوہری زندگی جیتے ہیں ۔ نوراترے میں لڑکیوں کی پوجا کرتے ہیں لیکن لڑکی کی پیدائش ہمارے ماتھے پر لکیریں کھینچ دیتی ہے شاید جہیز کی فکر ۔ جہیز ہم نے خود ہی تو شروع کیا ہے، جہیز نہ لانے پر ہم لڑکی کو ستاتے ہیں ، کئی بارتو جلاکر مار دیا جاتاہے، کبھی کبھی غیر برادری کے کسی لڑکے سے بات کرنے یا شادی کی خواہش کرنے پر خود والدین ہی اپنی بیٹی کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں ۔ دراصل روایتوں اور سنسکاروں کے نام پر لڑکیوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ ان کی خواہش اور آزادی کا گلا گھونٹ دیا جاتاہے۔ کئی سماج تو لڑکیوں کو پڑھانے کے بھی خلاف ہیں ۔ جبکہ ہر سال دسویں اور بارہویں کا ریزلٹ آتا ہے تو لڑکیوں کے آگے ہونے کی خبر خصوصیت کے ساتھ شائع ہوتی ہے۔ پرائمری کی سطح پر لڑکے اور لڑکیوں کا اندراج برابر ہوتا ہے لیکن سکینڈری کی سطح پر 20 فیصد لڑکیاں پڑھائی چھوڑ دیتی ہیں ۔ پڑھائی چھوڑنے کے پیچھے کئی وجہ ہوتی ہیں ان میں سے ایک لڑکیوں کیلئے الگ بیت الخلاء کا نہ ہونا بھی ہے۔ دوسری سکینڈری یا اس سے آگے کی تعلیم کیلئے لڑکیوں کو گائوں سے باہر جانا پڑتا ہے۔ کئی ریاستی سرکاروں نے لڑکیوں کو سائیکل دی ہے، ان کیلئے اسکول میں الگ ٹوائلیٹ بنوائے ہیں اور مڈ ڈے میل کا انتظام کیا ہے۔ ان ریاستوں میں لڑکیوں کی حاضری میں اضافہ ہوا ہے۔ غیر محفوظ ماحول کی وجہ سے بھی لڑکیاں پڑھائی چھوڑ دیتی ہیں ۔

بھارت میں لڑکیوں کی ریپ اور قتل کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں ۔ مغربی ممالک کی طرح ہم بھی عورت کو صرف استعمال کی چیز سمجھتے ہیں ۔ کوئی مذہب،سنسکاریا قانون اس سوچ کو نہیں بدل پایا تبھی تو 2.5 سے 3 سال تک کی بچیوں سے ریپ کی خبریں آتی ہیں ۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق بھارت میں روزانہ 93 خواتین کی عصمت دری ہوتی ہے۔ 2010 سے اس میں سات سے 10 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک تہائی معاملوں میں متاثرہ کی عمر 18 سال سے کم پائی گئی۔ اکثر خواتین دفتروں ، کھیتوں اور اسکولوں میں عصمت دری کی شکار ہوئیں ۔ عصمت دری کے معاملے میں بھارت تیسرے پائیدان پر ہے۔ سب سے زیادہ عصمت دری کے واقعات امریکہ میں ہوتے ہیں ۔بھارت میں دہلی سب سے اوپر ہے۔ چھوٹے شہروں ، قصبات کے مقابلے میٹروشہروں میں ریپ کے واقعات زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس کی بڑی وجوہات میں لڑکیوں کی کمی اور شادیوں کا مہنگا ہونا ہے۔وزارت برائے خاندانی فلاح وبہبود کی رپورٹ کے مطابق 18 سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی شادی میں کمی آئی ہے۔ملک کی کئی ریاستوں میں ایک ہزارمردوں پر 9سولڑکیاں بھی نہیں ہیں ۔ پنجاب میں 2005 میں ہزار لڑکوں پر صرف 734لڑکیاں تھیں اور ہریانہ میں 860 اور ہریانہ میں 836 لڑکیاں ہیں ۔ پندرہ سالوں میں حالت سدھری ضرور ہے لیکن ابھی تعداد کم ہے۔ اس کمی نے جھگی جھونپڑی، گائوں ، چھوٹے شہروں وغریب خاندانوں سے بچوں کے اغوا جن میں بچیوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور لڑکیوں کی تسکری جیسے کرائم کو جنم دیا ہے۔

پچھلے دس سالوں میں عورتوں کے کام کرنے کی بھارت میں در جو پہلے ہی ایشیائی ممالک کے مقابلے بہت کم ہے،37فیصد سے 27فیصد رہ گئی ہے۔ بھارت دنیا کے ان چند دیشوں میں ہے جہاں شادی کے بعد عورتوں کا کیریئر بریک ہوجاتاہے، یہاں صرف 25 فیصد خواتین نوکری پیشہ ہیں ۔ آزادی کے 70 سال بعد بھی پارلیمنٹ میں خواتین کی بھاگیداری 11 فیصد سے زیادہ نہیں ہورہی ہے۔ ریاستوں میں حالات اور بھی خراب ہیں ۔ صرف 33 فیصد سیٹیں ریزرو کرنے کی مانگ کرنے والے بل کو پارلیمنٹ میں سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جو اس کی سب سے بڑی حمایتی تھی اپنی اکثریت کی سرکار ہونے کے باوجود اس بل کو پاس کرانے کی ہمت نہیں جٹا پارہی ہے۔ اسی طرح بڑی کمپنیاں اور کارپوریٹ اپنے بورڈ میں اہل خواتین کا تقرر کرتی نہیں نظرآرہیں جبکہ کمپنی ایکٹ کے تحت یہ لازمی ہے۔

جسٹس ٹروڈو2015 میں جب کناڈا کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے اپنی کابینہ میں آدھی خواتین کو جگہ دی۔ جب ان سے پوچھا گیاکہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ تو ان کا معصوم سا جواب تھا کہ یہ 2015 ہے۔ بھارت کے وزیراعظم بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو، وزیراعظم ماترتا یوجنا اور نہ جانے کتنی یوجنائیں چلا رہے ہیں لیکن بھارت ابھی بھی 2015 سے شاید بہت دور ہے۔ ہم قانون بناکر سمجھتے ہیں کہ اس سے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ قانون سے شاید ہم زیادہ توقع کررہے ہیں ۔ قانون صرف حکومت کی طاقت بڑھاتا ہے سماج کو نہیں بدلتا۔ سماج وہاں رہنے والوں کی سوچ اور ماحول سے بدلتا ہے۔ہمارے دیش کا ماحول خواتین کے خلاف ہے اس کو بدلنے کیلئے یہاں کے لوگوں کو عورتوں کے تعلق سے اپنے نظریہ کو بدلنا ہوگا۔صنف کا مخالف صنف کی طرف مائل ہونا فطری ہے۔ لیکن اسے جسمانی ضرورت سے آگے نہیں بڑھایا جاسکتا۔ پہلی ضرورت لڑکیوں اور عورتوں کو انسان سمجھنے کی ہے۔ ان کے ساتھ انسانی رویہ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مردوں کی زیادتی کی وجہ سے ان کے اندر ردعمل پیدا ہورہا ہے۔ جو لڑکیاں پڑھ لکھ کر اچھی نوکریاں حاصل کرلیتی ہیں وہ بچے پیدا کرنے اور شادی کے بندھن میں بندھنے کو غیر ضروری سمجھنے لگتی ہیں ۔آج عورتیں مردوں سے اپنے حق مانگ رہی ہیں مردوں کو وقت رہتے ان کے تعلق سے اپنے نظریہ کو بدلنا چاہئے ایسا نہ ہو کہ ایک دن مردوں کواس آدھی آبادی سے اپنا حق مانگنے کیلئے مجبور ہونا پڑے۔(یو این این)

تبصرے بند ہیں۔