اپنے شعر خود شکار کرنے والے کو محبت کا خراج

عالم نقوی

صرف لکھنؤ ہی نہیں  اردو دنیا  ’اچھے انسانوں ‘اور ’اچھے انسان شاعروں‘ سے خالی ہوتی جارہی ہے۔ انور ندیم ملیح آبادی ،ملک زادہ منظور اور انجم عرفانی کے بعدآج (18 ستمبر  2017 کی صبح ) تشنہ عالمی بھی چلے گئے ۔جانا تو ہم سب کو ہے بس اتنا ہے کہ آج وہ کل ہماری باری ہے! البتہ افسوس اس کا ہے کہ ہم علی گڑھ میں قیام  اور لکھنؤ سے دوری کے سبب اِن دوستوں سے  اُن کے اِس دار ِفانی کو داغ ِمفارقت دینے سے قبل ملاقات نہیں کر سکے۔ تشنہ عالمی کو جو چیز خود پرستوں ،پڑھے لکھے جاہلوں، نام نہاد اور بر خود غلط دانشوروں  اور کرپشن گزیدہ لوگوں کی بھیڑ میں منفرد اور ممتاز بناتی تھی وہ اُن کی غیر معمولی سادگی، ہر طرح کی نعرے بازی اور منافقت سے پاک اِنسان دوستی،صلہ رحمی اور بے لوث  خدمت خلق کی لگن اور تڑپ تھی ۔وطن عزیز ہندستان سمیت  پوری دنیا اس وقت جن مسائل سے دوچار ہے وہ فرعونیت کا قاہرانہ غلبہ  اور قارونیت کا  جابرانہ  تسلط ہے جس کے نتیجے میں ماحولیاتی عدم توازن ،موسموں کا غیر فطری تغیر ،بنیادی حقوق کی اندیکھی ، اَوندھی اور اندھی (معکوس ) ترقی، غیر فطری اور غریب دشمن شہر کاری کے ساتھ ساتھ امیری اور غریبی کے درمیان روز بروز بڑھتی ہوئی خلیج عام ہے ۔اب ذرا اِس خالص اور حد درجہ مخلص  ’ عوامی شاعر ‘ کے یہ اشعار پڑھئے :

چودھویں کا چاند اب مجھ سے نہ دیکھا جائے گا

میں بہت بھوکا ہوں روٹی کا خیال آجائے گا

قرض و خیرات کے پھندوں سے بچے رہیے گا

۔اُس نے ڈالر کا مکڑ جال بنا رکھا ہے

جلتے شکم کی آگ بجھانے کو کچھ نہیں

۔بچے بلک رہے ہیں کھلانے کو کچھ نہیں

فاقے کے ساتھ ساتھ اندھیرا ہے شام کا

 چولھا تو کیا چراغ جلانے کو کچھ نہیں

پہلے جیسی وہ نفاست اب کہاں پوشاک میں

کپڑے ٹیری کاٹ کے ڈھاکے کی ململ کھا گئے

ہٹو کاندھے سے ،آنسو پونچھ ڈالو

وہ دیکھو ریل گاڑی آرہی ہے

میں تم کو چھوڑ کر ہرگز نہ جاتا

غریبی مجھ کو لے کر جا رہی ہے

جو کیڑے رینگتے رہتے ہیں نالیوں کے قریب

وہ مر بھی جائیں تو ریشم بنا نہیں سکتے !

ہندستان کی یہ تصویر کھینچنے کے لیے تشنہ عالمی ہونا پڑتا ہے :

مفلسی اور بھوک کا عنوان کس نے لکھ دیا

یہ مرے چہرے پہ ہندوستان  کس نے لکھ دیا ؟

جہالت ،بھکمری ،فرقہ پرستی۔۔اِسی کا نام کیا ہندوستاں ہے ؟

فطرت سے ہم آہنگی اور ماحولیات دوستی کے تعلق سے تشنہ عالمی کے یہا شعار دیکھیے :

ہر تلخی حیات سے خود کو بچا لیا

آنگن میں ہم نے نیم کا پودا لگا لیا

ابھی تو جنوری ہے چاہے جتنے خون کر ڈالو

پرندوں کے چلے جانے کا موسم فروری تک ہے

جو پربتوں سے پرندوں کے غول آتے ہیں

۔وہ موسموں کی پرکھ اپنے ساتھ لاتے ہیں

مئی میں دیکھیے سیمل کے پیڑ کا جادو

ہوا میں برف کے گالے اڑاتا رہتا ہے

    اردو والوں کا بالعموم اور لکھنؤ والوں کا بالخصوص المیہ یہ ہے کہ تشنہ عالمی  جس زندہ و پایندہ زبان میں زندگی  بھر زندگی سے بھر پور شعر کہتے رہے اُس اردو میں ان کا کوئی مجموعہ کلام شایع نہیں ہو سکا ۔ ہندی میں ان کے ایک دوست  وویک سنگھ نے اپنے صبا پرکاشن کی جانب سے 2013 میں بہ عنوان ’’بَت کَہِی ‘‘  34 صفحات پر مشتمل اُن کا ایک نہایت مختصر ہی سہی  ،مجموعہ کلام نہ شایع کر دیا ہوتا تو  اردو والے تو آج  تک اپنے اس عظیم فرزند کے  شایان شان مجموعہ کلام  شایع کرنے سے قاصر ہیں ۔

    وہ تو کہیے کہ عزیزی و محبی رضوان فاروقی اپنی ’کتاب تانا بانا فکروں کا ‘(لکھنؤ 2011)  میں تشنہ صاحب پر پہلا مضمون ۔’ڈاکٹر تشنہ عالمی ۔ایک صاحب طرز شاعر ‘ لکھ کر  فرض کفایہ  ادا کر چکے تھے  ورنہ ، اردو میں تو  اُس وقت تک اُن کے اوپر  کسی نے چند سطریں  بھی نہیں لکھی تھیں ۔ اِس کے دو سال بعد  3 نومبر 2013 کو رونامہ اَوَدھ نامہ لکھنؤ میں  رضوان فاروقی ہی کے زیر اہتمام ،اخبار کے ہفت روزہ ضمیمہ خاص  ’’شخصیت نامہ‘ ‘ میں چار صفحات پر مشتمل جو خصوصی گوشہ شایع ہوا  وہ تشنہ عالمی مرحوم پر اُردو میں آخری کام ہے جس میں انور جلال پوری ،حیدر علوی ،رشید قریشی ، معراج ساحل ،رحمت لکھنوی ،رفعت شیدا صدیقی ،منظور پروانہ ،احسن اعظمی شکیل گیاوی  اور اویس سنبھلی کے مضامین  شامل ہیں ۔

انور جلال پوری نے بالکل صحیح لکھا  کہ ’’تشنہ عالمی کسی (اور شاعر) کے جیسے نہیں ہیں بلکہ (حق یہ ہے کہ ) ان کے جیسا کوئی اور (اردو دنیا میں موجود )نہیں ۔ شدید پیاس کے عالم میں بھی وہ  (بعض اوقات)  اس لیے پانی نہیں پیتے کہ تشنگی کا مزہ جاتا رہے گا ۔ بے نیازی کی چادر میں لپٹا ان کا وجود یقین دلاتا ہے کہ موجودہ نظام حکومت  سے وہ اس لیے دل برداشتہ ہیں کہ ہر جگہ عدم مساوات (اور سماجی نا انصافی ) عام ہے ۔منظور پروانہ نے انہیں ’’فلاح انسانیت کا نغمہ نگار ‘‘قرار دیا ہے تو معراج ساحل نے بھی حق بات کہی کہ’’ ان کی شاعری میں (کسی دوسرے کا ) چربہ تو درکنار کسی (اور ) شاعر کا عکس بھی نہیں ہے ‘‘۔

رضوان فاروقی نے اپنے مذکورہ مضمون میں جو ماہنامہ ’الثاقب ‘ لکھنؤ میں بھی شایع ہو چکا ہے تشنہ عالمی کی شخصیت اور شاعری پر جو کچھ لکھا ہے وہ صد فیصد درست ہے کہ تشنہ عالمی صاحب طرز شاعر ہونے کے ساتھ ایک دردمند دل رکھنے والے حساس انسان تھے ۔ہمہ دم  ان کی کوشش  یہی رہتی کہ وہ دنیا کے دکھ درد کو بانٹیں ،دکھی انسانوں کے غموں کا حتی الا مکان مداوا کریں  ہومیو پیتھک معالج کی حیثیت سےوہ غریبوں کا نہایت مختصر اُجرت میں علاج ہی نہیں کرتے بلکہ مفت دوا دینے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی وہ اپنے مریضوں کو اپنے مطب تک آنے جانے کا کرایہ بھی اپنی جیب سے ادا کرتے  ۔۔حیرت ہے کہ مذکورہ مصروفیات کے باوجود وہ کس طرح ایسے اشعار بھی کہہ لیتے تھے  کہ جنہیں جتنا پڑھا جائے ،تشنگی کا احساس اسی قدر بڑھتا جاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ تشنہ عالمی کا ہر شعر آپ کو دوسرا شعر پڑھنے پر آمادہ کرے گا اور دوسرا تیسرے کو ۔۔یہ سلسلہ کچھ اس طرح دراز ہوتا چلا جائے گا  کہ آپ ان کی کئی غزلیں بہ یک نشست پڑھ جائیں گے مگر تشنگی کا احساس برقرار رہے گا ۔ یہی تشنگی تشنہ عالمی کی شاعری کی معراج ہے :

یہ تشنہ عالمی سیراب ہو جائے تو مر جائے

کہ اُس کی شاعری دَر اَصل اُس کی تشنگی تک ہے

آخر میں اُن کے کچھ اور یادگار اشعار پڑھیے اور اُن کے لیے دعائے مغفرت فرمائیے :

یہ تشنہ عالمی اپنی اَسد مزاجی میں

عجیب طرز سخن اختیار کرتا ہے

پرائی فکر کی چوری کبھی نہیں کرتا

۔یہ شعر اپنے لیے خود شکار کرتا ہے

چپ چاپ گھر میں بیٹھے ہیں کیوں تشنہ عالمی

۔شام اودھ نے سرمئی پردے گرا لیے

یاروں کے ساتھ آپ بھی ہوٹل میں بیٹھ کر

۔ٹیبل سے انقلاب کے سورج اُچھالیے !

ضمیر بیچ کر توہین زندگی کرنا

خدا بنے ہوئے لوگوں کی پیروی کرنا

ستم گروں کی حمایت میں شاعری کرنا

 یہ کام تم نہ کبھی تشنہ عالمی کرنا

تبصرے بند ہیں۔