اڑی حملہ ؛ جملے بازی سے کچھ نہیں ہونے والا 

ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)

   اڑی میں فوج کے ہیڈکوارٹر میں بزدل دہشت گردوں نے اور ان کے پاکستانی اسٹیٹ یانان اسٹیٹ ایکٹرس نے جو کچھ کیا اورکروایا وہ پورے ملک کا پارہ چڑھانے کے لئے کافی ہے اور اس واردات پر ملک کی عوام و خواص کا غصہ ہوجانا واجبی بھی ہے۔ اس معاملہ میں عوام کا مطالبہ ہے کہ سرکار اس حملے کے پیش نظر دہشت گردی کو ملک کے خلاف استعمال کر نے والے پاکستان کو سبق سکھانے والے اقدامات کرے۔ کچھ لوگ تو اس کے لئے براہ راست پاکستان سے جنگ کرنے تک کی بات کہہ رہے ہیں کچھ پاک مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوکر اسے بھارت میں شامل کر لینے کی بھی بات کر رہے ہیں۔ کچھ ذرا زیادہ ’دانشورانہ سوجھ بوجھ ‘ رکھنے والے لوگ پاکستانی حدود میں موجود دہشت گردوں کے ٹریننگ کیمپس پر حملوں ’ سر جیکل اسٹرائیک ‘کی بات کر رہے ہیں۔ کوئی ایک دانت کے بدلے پورا جبڑا توڑ نے کی بات کر رہا ہے تو کوئی پاکستان سے تمام طرح کے تعلقات ختم کر نے کی بات بھی کررہا ہے۔ اس ضمن میں لوگوں نے مودی جی کی ’چھپن انچ کی چھاتی‘ اور سشما سوراج کی’ ایک ہندوستانی سر کے بدلے دس پاکستانی سر لانے‘ کی بات کا بھی مذاق اڑایا۔ سرکاری طور پر اس ضمن میں وہی کہا جارہا ہے جو اب تک کی تمام سرکاریں کہتی آئی ہیں اور سرکار کا یہ عمل زیادہ تر سیاسی ہی رہا جس میں پاکستان کو اس حملے کا اصل ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اسے ’دہشت گرد ریاست ‘ قرار دیا گیا۔ اور ہائی لیول میٹنگوں کا دور چلایا گیا۔ مودی جی وزیر اعظم بننے سے پہلے دہشت گردی دہشت گردوں اور پاکستان کے خلاف بڑی جذباتی باتیں کیا کرتے تھے اور ملک میں سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کی ساری ذمہ داری مرکزی سرکار کے سر ڈال دیا کرتے تھے کہ ’سرکار کچھ نہیں کررہی ہے اور اس میں کچھ کرنے کی ہمت بھی نہیں ہے ‘ ایک بار ایک انتخابی ریلی میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا’کہ( دہشت گردی کا) مسئلہ دہلی میں ہے سرحدوں پر نہیں، اور یہ مسئلہ اسی وقت حل ہو سکتا ہے جب ملک میں کوئی قابل و مجاز (competent)محب وطن اور عوامی حکومت مرکز میں بنے۔ یعنی سرحد پار دہشت گردی کے معاملہ میں انہوں نے پچھلی کانگریس سرکار یا سرکاروں کو نااہل (incompetent)کے ساتھ ساتھ غیر محب وطن تک قرار دیا تھا لیکن اب جبکہ لوگوں نے ان کی حکومت بنادی اور وہ اپنی پوری قابلیت (competency ) اور حب الوطنی کے ساتھ وزیر اعظم بن گئے توڈھاک کے تین پات کی طرح وہ بھی وہیں نظر آرہے ہیں جہاں پچھلی حکومتیں تھیں، ان کے’ جملے ‘ بھی پچھلی سرکاروں کے جملوں سے مختلف نہیں ہیں۔ اڑی معاملہ میں تو انہوں نے قوم سے براہ راست خطاب بھی نہیں کیا اور نہ ہی کوئی پریس کانفرنس کے ذریعہ کوئی بات کہی بلکہ ٹویٹر پروہی گھسا پٹا ’جملہ‘ دہرایا کہ ’ ہم اڑی حملے کی پرزور مذمت کرتے ہیں، میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ اس حملے کے کار پرداز سزا سے نہیں بچیں گے۔ ‘ لیکن بھائی یہ مودی جی کا بیان ہے اور ہماراہی نہیں پورے ملک کا تجربہ ہے کہ مودی جی کہتے بہت ہیں کرتے کم ہیں اور لوگ بھی ان کی باتوں پر عمل نہیں کرتے، شاید وہ جو کہتے ہیں وہ بھول بھی جاتے ہیں کہ ان کے کہے کی مسلسل خلاف ورزی ہوتی رہتی ہے اور وہ خاموش رہتے ہیں، اس سے پہلے انہوں نے پچھلے سال 2014 میں یوم ازادی کی تقریر میں مذہبی سدھ بھاؤنا، بھائی چارہ اور ایکتا پر کافی زور دیا تھا لیکن پورے سال بھر اس کے خلاف ہی ہوتا رہا، گائے کے نام پرخاص طور سے مسلمانوں کو خوب خوب ہراساں کیا گیا، مارا پیٹا گیا، قتل کیا گیا، مقتولین کی لاشوں کو درختوں سے لٹکا دیا گیا، جانوروں کا فضلہ کھانے اور پیشاب پینے پر مجبور کیا گیا، مسافروں کے بیگس کی زبردستی تلاشی لی گئی انہیں زدو کوب کیا گیا یہی نہیں عورتیں بھی ان لاقانونی کارروائیوں سے محفوظ نہیں رہیں اور اس طرح کی ہر کارروائی پہلے کے مقابلہ شدیر تر ہوتی گئی اور مودی جی خاموش رہے تقریباً پورے سال کے بعد انہوں نے اپنی ٹاؤن ہال تقریر میں گؤ رکشکوں کو ڈانٹ پلائی اور ان کی اکثریت 70 سے 80 فیصد کو جعلی اورسماج مخالف قرار دیا اور ریاستی حکومتوں کو ایسے لوگوں کے خلاف ڈوزیئرس (dossiers) تیار کر نے کو کہا تھا اسی طرح انہوں نے قوم کو ایسے لوگوں سے خبردار کرتے ہوئے ریاستوں کو ان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی صلاح یا ہدایت بھی دی تھی لیکن اس بار بھی ان کے اس بیان کی خلاف ورزی شروع ہو گئی ان کا یہ بیان اگست میں آیا تھا اور دوسرے ہی مہینے اس کی خلاف ورزی شروع ہو گئی۔ جگرات میں گورکشکوں نے ایک مسلم شخص کو اتنا پیٹا کہ وہ بے چارہ اسپتال میں دم توڑ گیا۔ اور ان کی اپنی ریاست اور اپنی پارٹی کی حکومت کی پولس نے ان کے ’سخت کارروائی ‘ کے مشورے صلاح یا ہدایت کے باوجود اس شخص کو مارنے والے گؤ رکشکوں کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کی۔ اور مودی جی اس ضمن میں نہ کچھ کہا اور نہ ہی کچھ کرنے کا خاص حکم دیا۔ خیر، بات کہاں سے کہاں چلی گئی، اڑی حملے کے متعلق مودی جی کا بیان بالکل وہی ہے جو کسی بھی حکومتی سر براہ کا ہونا چاہئے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہ اور دیگر سہولتیں فراہم کر نے والے اور اسے اپنے سیاسی فوائد کے لئے استعمال کر نے والوں کو سخت ترین سز ا کے عمل سے گزارنا اشد ضروری ہے کہ اس کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہی نہیں لیکن صاحب اس کے لئے جملے بازی سے زیادہ عملی کارروائی کی ضرورت ہے لیکن ہمیں ڈر ہے کہ کہیں زمین پر موجوداور مودی جی کے اس بیان کو عملی جامہ پہنانے کے ذمہ دار اہلکار مودی جی کے اس بیان کو بھی اسی طرح نہ لے لیں جس طرح ان کے سدھ بھاؤنامذہبی بھائی چارہ اور ایکتا کا بیان لیا گیا، اور جس طرح ان کا گؤ رکشکوں کے خلاف سخت کارروائی کر نے کا بیان لیا گیا۔ دی قونٹ (The Quint (  ویب سائٹ کے حوالے سے ایک خبر گشت کر رہی ہے کہ ہماری فوج نے سرحد پار جا کر پاک مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کے کیمپوں پر حملہ کیا جس میں کم از کم بیس دہشت گرد ہلاک ہوئے اور دو سو کے قریب زخمی ہوئے۔ اس خبر کو غیر مصدقہ کہا جا رہا ہے کیونکہ ہمارے ملک کی فوجی یا سرکاری اتھارٹی کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی اور نہ ہی پاکستان کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے آیا ہے، ہم تو چاہتے ہیں کہ خدا کرے کہ یہ خبر سچ ہو کہ اس طرح کی کارروائیوں سے ہی دہشت گردی اور اس کے کارپردازوں کی کمر توڑی جا سکتی ہے اور اس کے حمایتیوں ( پاکستانی حکومت اور فوج کو ) کو دہشت گردی کے متعلق اپنی پالسی تبدیل کر نے پر مجبور کیا جاسکتا ہے وگرنہ اس ضمن میں اب تک کئے گئے تمام سفارتی داؤ پیچ ناکام ہی رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کو انڈیا کے خلاف استعمال کرتا اور انہیں اپنی سرزمین پر پہنپنے کی پوری سہولتیں فراہم کرتا اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں بھی مہیا کرتا ہے جس کے لئے اسے سبق سکھانا ضروری ہے لیکن پاک کو سبق سکھانے کے لئے اس پر براہ راست حملہ کر نے یا سرجیکل اسٹرائیکس سے پہلے اپنی سرحدوں کو اتنی محفوظ بنا نا ضروری ہے کہ دہشت گرد انہیں کراس کر کے انڈیا میں داخل نہ ہو پائیں اوراپنے آپ کو اتنا مضبوط اور چو کنا کر نا ضروری ہے کہ اگر بد قسمتی سے دہشت گرد لائن آف کنٹرول کراس بھی کر لیں تو کسی جانی و مالی نقصان اٹھائے بغیر ہی انہیں بے ضرر کیا جا سکے۔ اڑی حملے میں بھی انتقام لینے کی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ وہ چار دہشت گرد سرحد پار کر کے فوجی کیمپ میں گھسنے میں کس طرح کامیاب ہو سکے اور کیمپ میں بھی وہ اتنی اندر تک کیسے گھس آئے۔ اس ضمن میں یہ بھی خبر ہے کہ دو دن پہلے ہی اس طرح کے حملے کی انٹیلی جنس مل چکی تھی، تو یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ہماری کونسی کوتاہیا ں دہشت گردوں کی کامیابی کا سبب بنیں۔ ہمیں دہشت گردوں کے خلاف اور پاکستان کے خلاف جذباتی بیان بازی کی بجائے اور غصیلے رد عمل کی بجائے ٹھنڈے دماغ سے اپنا احتساب کرنا چاہئے اور اپنے آپ کو اتنا مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ دہشت گرد اپنی تمام تر صلاحیتوں اور پاکستان کی پوری مدد کے باوجود بھی ہم پر حملہ کرنے اور ہمیں نقصان پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔