خلیج میں اردو تنظیمیں اور ادارے

موجودہ عالمی تناظر میں غوروفکر کے لیے چند باتیں

 شہاب الدین احمد

اردو اگر چہ ہندستان میں پیدا ہوئی اور اس کی نشوونما کی کئی صدیاں اسی خطّے میں مکمل ہوئیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بدلتی ہوئی دنیا میں دوسری زبانوں کی طرح اردو بھی ایک ایسی بین الاقوامی زبان کے طور پر رفتہ رفتہ مستحکم ہوتی گئی جیسے انگریزی کو ہم پہچانتے ہیں۔ آج دنیا کے چالیس سے زیادہ ایسے ممالک ہیں جہاں سے اردو کے اخبارات ورسایل شایع ہوتے ہیں اور سو سے زیادہ یونی ورسٹیوں میں اردو کی درس وتدریس کا باضابطہ طور پر انتظام ہے۔ جب سے دنیا کو عالمی گاؤں قرار دیاجانے لگا اور معلومات یا رَسَد کے وسائل کی رفتار تیز ہوئی، اُس وقت سے ہماری مادری زبان نے بھی دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ کر اپنے وجود کاشناخت نامہ مرتب کیا۔ آج یہ صرف ہندستان اور پاکستان کی زبان نہیں بلکہ اس زبان کے بولنے اور لکھنے پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد  اُن انجانی جگہوں سے متعلق ہے جن کے بارے میں کل ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اِن اقوام تک ہماری زبان پہنچ جائے گی۔

انگریزی اور عربی زبانوں کی عالمی حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ ان کی پشت پر اقتدار اور دولت کے علاوہ جغرافیائی تحفّظات بھی بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ برطانیہ کے مٹھی بھر لوگوں نے جب دنیا کے ایک بڑے حصے کو تاراج کرنے میں کامیابی پائی تو اس کے لسانی اثرات یہ ہوئے کہ نئی نئی زبان اور اقوام کے درمیان انگریزی پہنچ کروہاں کی زبانوں کو اس نے جتنا بھی تبدیل کیاہو، حقیقی بات یہ کہ ان نئی آبادیوں کے بیچ خود انگریزی بھی بدلتی چلی گئی۔ آئر لینڈ سے لے کر امریکہ تک انگریزی کی کچھ ایسی نئی شکلیں سامنے آئیں جن کے سبب انگریزی زبان کا نیا ڈھانچہ کھڑا ہوگیا۔ یہ ڈھانچے حقیقت میں پرانی اور مستحکم لسانی نظام سے آویزش میں فطری طور پر قائم ہوئے تھے۔ آج آسٹریلیاکی انگریزی اور ہندستان کی انگریزی، کناڈا کی زبان کو باضابطہ طور پر انگریزی کی مستند اقسام کے طور پر پڑھانے کارواج ہماری یونی ورسٹیوں میں کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔

عربی زبان کی مذہبی حیثیت سے الگ یہ بات قابل غور ہے کہ دنیا کی بہت ساری دولت مندقوموں کی مادری زبان عربی ہے لیکن کیاسعودی عرب اور مصر کی عربی میں بہت سارے معاملے میں زمین وآسمان کی دوری سامنے نہیں آتی ؟کیایمن اور فلسطین کے افراد کی زبانوں میں یکسانیت کی تلاش ممکن ہے؟کیاایک ہندستانی کی عربی سے مادری زبان کے طور پر عربی کا استعمال کرنے والوں کے بیچ کوئی مطابقت قائم ہوتی ہے ؟ایران اور عراق سے فارسی باہر گئی تو کیسی بدل گئی ؟اب بھی ہندستان میں یاے معروف کے ساتھ ساتھ یاے مجہول کے بولنے اور لکھنے کا باضابطہ رواج ہے لیکن کون فارسی اور عربی داں جو عرب وایران سے آتاہے، وہ یاے مجہول کی ادائیگی کرسکتاہے ؟مطلب صاف ہے کہ جو زبان ایک جغرافیائی خطّے سے دوسرے علاقے میں پہنچے گی تو نئے تہذیبی ذائقے کے بغیر وہ اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔ وہ متاثّر بھی کرے گی اور خود بھی بدلنے کے لیے تیار  رہتی ہے۔

اردو کے موجودہ حالات کو عالمی تناظر میں سمجھنے کے لیے ان بنیادی باتوں پر بے شک غور کرنا چاہیے۔ ہماری مادری زبان تو ہے لیکن بہت سارے لوگوں نے اس میں اپنے جذبات اور افکار ونظر یات پروے ہیں۔ ان کی تہذیب اور معاشرت ہم سے بالکل مختلف ہے۔ وہ بت پرستی پر مائل ہوسکتے ہیں اگرچہ ہم بت شکن ہیں۔ دونوں کے اعتقادات مختلف ہوں گے لیکن ایک ہی زبان میں اظہار کے پیمانے چھلکیں گے۔ زبان تہذیب کی آئینہ دار ہوتی ہے لیکن جب مختلف طرح کی تہذیبوں کاسامنا ہو، تصورات میں اچھے خاصے اختلافی پہلو بھی موجود ہوں لیکن لفظیات کا ذائقہ ایک ہی ہو تو نتائج بڑے دلچسپ اور لطیف ہوں گے۔ ہمیں اپنی مادری زبان کے اندازو اسلوب اور معیار و میزان میں بدلتی ہوئی مختلف کیفیتوں کو سمجھنا ہوگااور نہایت ہمدردانہ اور پرخلوص انداز میں نئی آبادیوں اور غیر مادری زبان والے افراد کی بولیوں کوقابلِ غور سمجھنا ہوگا۔ اس صورت حال کو محض فصیح اور غیر فصیح، غلط اور صحیح یا کسی دوسری اصطلاح کے دائرے میں اسیر کرکے نہیں دیکھنا چاہیے۔

اردو پر کبھی دلّی اور لکھنؤ اسکول کے افراد نے قلعہ بندی کررکھی تھی۔ صرف وہی درست ہے جو انھوں نے لکھا اور پڑھا۔ جیسے وہ بولتے ہیں، وہی سکۂ رائج الوقت۔ حالت تو یہ تھی کہ دلی والا لکھنؤ والے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور لکھنؤ والا دلی والوں کو مستند ماننے کے لیے روادار نہیں تھا۔ دونوں نے مل کر پورے ہندستان کی اردو کو غیر مستند قرار دے دیاتھا۔ حد تو یہ ہے کہ اردو کے ابتدائی سرمائے اور قیمتی ورثے کو دہلی اور لکھنؤ والوں نے کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھا اور دکن کے ابتدائی خدمت گاروں سے اپنی زبان کی تاریخ کوتقریباً الگ تھلگ ہی رکھا۔ اصول و ضوابط ایسے بنائے گئے کہ آپ آسانی سے جاگیردارانہ تہذیب کی تمام جکڑبندیاں ان میں تلاش کرسکتے ہیں۔ سنسکرت کے زوال کے اسباب پر بھی نظر نہ رکھی گئی اور اردو کو اصول وضوابط کی اشرافیہ زنجیروں میں جکڑنے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی گئی۔ یہ تو بھلاہو کہ جاگیردارانہ تہذیب کو جمہوریت کے سورج نے بہت حد تک جلاکر راکھ کردیااور پوری دنیا کچھ اس انداز سے بدلنے کی طرف مائل ہوئی اور سامراجیت کا صفایا ہونے لگا جس سے ادب و تہذیب کے بہت سارے مسائل  از خود حل ہونے لگے۔

اردو کی ادبی تحریکوں یا مختلف مراکز میں زبان کی نئی شیرازہ بندی پر ابھی گفتگو کا موقع نہیں اور اس کے لیے اصحاب علم کی ایک بڑی جماعت یہاں موجود ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جمہوری دھمک اور جاگیردارانہ نظام یاسامراجیت کے زوال نے اردو کو وہ ذہن عطا کیا جس سے یہ زبان دنیا کی ہرتہذیب اور ہر قوم کے لیے وسیلۂ اظہار بن سکتی تھی۔ نئے لوگوں اور نئی قومیتوں میں یہ زبان پہنچے گی تو اس کی شکل ہرگز وہی نہیں ہوگی جیسی اسے مادری زبان سمجھنے والے لوگوں نے عطا کی تھی۔ قواعد اور انداز واسلوب میں نمایاں تبدیلیاں ہوں گی اوراس کے لیے ہمیں چار وناچار تیار رہنا ہوگا۔ ممکن ہے مادری زبان کا دعوے دار شخص اسے کم معیاری یا غیر فصیح سمجھنے کی بھول کرے گا لیکن تاریخ یہ بات بار بار ثابت کرتی رہی ہے کہ زبان اور تہذیب کے ہر بار نئے وارثین پیدا ہوجاتے ہیں اور صنم خانوں سے کعبے کے پاسباں بار بار مل جاتے ہیں۔

ہندستان و پاکستان سے باہر خلیجی ملکوں میں جس بڑی تعداد میں اردوبولنے والی آبادی موجود ہے، سعودی عرب، کویت، قطر، دوبئی، ابو ظہبی، بحرین اوردیگر خلیجی ممالک میں ہند و پاک سے آکر بسنے والے افرد کی مجموعی تعداد پچاس لاکھ سے زیادہ ہے۔ ان میں سے بڑی تعداد ان افراد کی ہے جن کی مادری زبان اردوہی ہے۔ خلیج کے ہر اہم ملک میں اردو کے لیے ایک سازگار فضا اس طور پر قائم ہو گئی ہے۔ ملازمت یا کاروبار کے سلسلے سے پہنچنے والی اس آبادی میں صرف مادری زبان کے طور پر استعمال کرنے والا طبقہ نہیں بلکہ ایسے افراد بھی خاصی تعداد میں ہیں جنھیں اردو ادب سے براہِ راست واسطہ ہے۔ وہ ایک طویل مدت سے ہندستان اور پاکستان سے نکلنے والے رسائل سے خود کو وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ ان کی تخلیقات ٹھیک اسی طرح شائع ہوتی ہیں جیسے ہند و پاک کے لکھنے والوں کی شائع ہورہی ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ سلسلہ بھی شروع ہوا کہ خلیجی ممالک میں رہنے والے افراد میں جو شعرا یا ادبا تھے، انھوں نے اپنی کتابیں شائع کرائیں اور ادب دوست اصحاب کی مدد سے مختلف ادبی و علمی ادارے قائم ہوئے اور خلیج سے نکلنے والے رسائل و جرائد کی داغ بیل پڑی۔

آج کی تاریخ میں یہ بات کس قدر خوش آئند ہے کہ نصف صدی سے پہلے خلیجی ممالک کی پہلی تنظیم بزمِ اردو قطر کی1959ء میں داغ بیل پڑی ہوگی، اس وقت کو ن جانتا تھا کہ یہ چھوٹا سا پودا اپنے برگ و بار اس طرح پھیلا ئے گا جیسے معلوم ہو کہ خلیج کے ملکوں میں اردو کو ہندستان اور پاکستان کے بعد ایک تیسرا گھر میسر آگیا ہو۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ خلیجی ممالک میں ایک درجن سے زیادہ ایسی ادبی تنظیمیں موجود ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں مشاعرے، سے می نار اور اردو عوام کے درمیان متعدد تعلیمی پروگرام منعقد کرتی ہیں جن میں اردو آبادی بھرپور دلچسپی لیتی ہے۔ خلیج کے اکثر و بیشتر بڑے اسکولوں، کالجو ں اور اب رفتہ رفتہ یونی ورسٹیوں میں اردواپنی ایک سر گرم شرکت سے نئی فضابندی کر رہی ہے۔ خلیج کے ہر ملک میں ادب دوستوں کا ایک ایسا طبقہ سامنے آچکا ہے جو ایسی ادبی سر گرمیوں میں نہ صرف یہ کہ تعاون دیتا ہے بلکہ ہندستان، پاکستان اور خلیجی ممالک کے درمیان ایک زندہ تہذیبی رابطے کے صورت بھی بہم پہنچا رہا ہے۔ گلف اردو کونسل کی داغ بیل سے بھی پورے اردو عوام کے درمیان یہ پیغام جا رہا ہے کہ ان ممالک کے افراد اردو عوام کے بیچ زندہ رابطہ قائم کرنے کے لیے سر گرم ہیں۔

 اس بیچ گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے میں قطر میں مقیم ہوں اور اپنی مادری زبان کی بدلتی صورت حال کو نئے صارفی ماحول میں پرکھنے کے لیے کوشاں ہوں۔ درجنوں زبانوں کے بولنے والوں کے بیچ اپنی زبان کو محفوظ رکھنا اور اسے اظہار کا بنیادی ذریعہ بنائے رکھنا ہمارے لیے ہمیشہ ایک چیلنج رہاہے لیکن وطن سے دور رہتے ہوئے ان معاملات کو ایک خاص جذبے کے ساتھ دیکھنے کاموقع ملتاہے۔ شاید یہی اسباب و علل ہوں جن کے سبب ہم نے قطر اور ہندستان سے ایک بین الاقوامی رسالے ’’صدف ‘‘کی داغ بیل رکھی جس کا نشانہ یہ ہے کہ اردو داں آبادی چاہے جس خطے میں ہو، اس سے یہ رسالہ جڑے اور اس کی بہترین ادبی کاوشوں کوتمام اردو خواں آبادی تک پہنچایا جا سکے۔ افتتاحی دو شماروں کا جس بڑے پیمانے پر استقبال کیاگیا، اس سے ہمیں حوصلہ تو ملا ہی لیکن یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ دنیا کے جانے انجانے سیکڑوں علاقوں میں اردو بولنے اور لکھنے والوں اور بالخصوص شعرو ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کو ایک دوسرے سے قریب ہونے اور تبادلۂ خیالات کے لیے ایک بڑے پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔ اردو زبان و ادب کے موجودہ عالمی تناظر کو سمجھتے ہوئے ہمارا یہ فیصلہ آنے والے وقت میں مزید استحکام پائے، اس کی ہم کوشش کریں گے۔ عالمی سطح پر کتابوں کی اشاعت اور انعامات و اکرامات کے فیصلے بھی زیر غور ہیں۔ مختلف ملکوں سے ہمارے رسالے کی ایک ساتھ اشاعت کی تجویزات بھی موصول ہوئی ہیں۔ اسے بھی ہم اپنی مادری زبان کی عالم گیری حیثیت اور توسیع و اشاعت کے ثبوت کے طور پر سمجھنا چاہتے ہیں۔ ہمیں بہر طور اپنی زبان کی عالمی حیثیت کے مطابق ادب فہمی اور ادب شناسی کے نئے پیمانوں کو وضع کرنا چاہیے اور اس کے لیے جن نئے اصول و ضوابط اور ادبی اسلحے کی تعمیرو تشکیل کی ضرورت پڑے، ان سے گریزاں نہیں ہونا چاہیے۔ چاہے اپنی زبان کے پرانے انداز کو بدلنا ہی کیوں نہ پڑے۔ یہی وقت کی دیوار پر لکھی ہوئی وہ عبارت ہے جسے ہمیں ذہن نشیں کرلینا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں۔