اکثیریت؟

ممتاز میر

ہم برسوں سے یہ لکھتے آرہے ہیں کہ فرقہ پرستوں کو مسلمانوں پر مظالم کی چھوٹ دے کر یہ سمجھنا کہ ہندوستان کی دوسری قومیں ، دوسرے فکری گروہ یا سول سوسائٹی کے دوسرے اجزامحفوظ و مامون رہیں گے یا مستقبل میں بھی اپنی خیر مناتے رہیں گے،احمقوں کی جنت میں رہنا ہے۔ اب دیکھئے مودی جی کے تین ساڑھے تین سالہ دار حکومت میں وہ نوبت آچکی ہے۔ آج سول سوسائٹی کا کوئی جز محفوظ نہیں ہے ایک طرف مسلمانوں کا خون پیتے پیتے آدمخور طاقتور ہو چکے ہین تو دوسری طرف وطن عزیز کی دیگر اقوام مسلمانوں کا خون بہتے دیکھ کر اس درجہ بے حس ہوچکی ہیں کہ اب جبکہ وہی کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے توبھی وہی۔ زمیں جنبد بہ جنبد گل محمد والا معاملہ درپیش ہے۔

 آزاد بھارت کا پہلا سورج مسلمانوں کے قتل عام کے ساتھ طلوع ہوا تھا۔ مگر دیگر اقوام یہ سوچ کر خاموش رہین کہ جنھوں نے دیش کے دو ٹکڑے کئے ان کے ساتھ یہ سب ہونا تو واجب ہے۔ وہ قومیں بھی جو اپنے آپ کو بڑ ا پڑھا لکھا سمجھتی ہیں انھوں نے بھی گہرائی میں جا کر اس بات کا مطالعہ کرنا ضروری نہیں سمجھا کہ تقسیم کس کی خواہش تھی، کس کے مفادات اس سے وابستہ تھے،اور کس کے ایماء پر ہوئی؟چلئےجو ہوا سو ہوا۔۔ مگر اس کے بعد بھی مسلمانوں کے خلاف فسادات کا نہ تھمنے والا سلسلہ چلتا رہا۔ جب اچھی طرح دیکھ لیا گیا کہ اب مسلمانوں  میں مزاحمت کی طاقت نہیں رہی۔ ان کے تمام لیڈروں کو متاع کوچہء وبازار بنا لیا گیا تو عیسائیوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کی گئی۔ اب عیسائینکّو بن گئے۔ کہتے تو کیا کہتے کس سے شکایت کرتے ؟ کس سے مدد مانگتے؟وہ تو اس خوش فہمی مبتلا تھے کہ ہم تو بڑےSophisticated  لوگ ہیں ہم ہی نے تو ان کو حکومت سپرد کی ہے۔ یہ ہم کو کیوں چھیڑیں گے؟کیوں ستائیں گے؟

جب مار پڑنے لگی تو ان کے پاس مار کھانے کے سوا چارہ نہ تھا۔ فرقہ پرستوں کی ہمتیں خود ان کی پیاری کانگریس نے اتنی بڑھادی تھی کہ جب تخت اقتدار خود ان کی ہم قوم کے کنترول میں تھا تب بھی اڑیسہ کے کندھمال اور کیرالہ میں اگست ۲۰۰۸ میں شر پسندوں نے ان پر ظلم کی انتہا کردی تھی۔ کئی بار ملک کی مختلف ریاستوں میں ان کی راہباؤں کی عصمت دری ہوئیں ہیں ۔ جنوری ۱۹۹۹  میں اڑیسہ میں ہی دارا سنگھ نامی ایک زعفرانی دہشت گرد نے گراہم اسٹینس نامی ایک پادری اور اس کے دو بچوں کو زندہ جلا دیا تھا۔ حیرت اس وقت ہوتی ہے کہ مسلمان کیا اور مسلم ممالک کیا؟ایکیہودی کو دنیامیں کہیں بھی تکلیف پہونچ جائے تو اسرائیل اور امریکہ آتش زیر پاہو جاتے ہیں ۔ مگر عیسائیوں پر ظلم کے خلاف عیسائی دنیا مہر بلب رہتی ہے۔

  مودی کے اقتدار سے پہلے بھی دلتوں کو مسلمانوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا تھا۔ خصوصاً گجرات کے تو ہر فساد میں دلت ہندؤں کے ہتھیار کے طور پر ہی لڑے ہیں ۔ اتنی جانبازی کی کے باوجود ’’کبھی کبھی ‘‘ ان کو بھی ٹارگٹ بنا لیا جاتا تھا۔ مگر مودی جی کے برسراقتدار آنے کے بعد چونکہ عملاً ہندتو کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ مرکز ہی نہیں بہت ساری ریاستوں میں بھی ہندتو کے متوالے برسر اقتدار ہیں اور اب انھیں نہ دلت ووٹ بینک کی ضرورت ہے نہ دلتوں کی منہ بھرائی کی۔ اسلئے اب ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جارہا ہے اور مسلسل کیا جا رہا ہے جو اب تک مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ کیونکہ اب تک جو کام دلت کرتے رہے ہیں اب وہی کام ہندتو کے جیالے کر رہے ہیں ۔ اب تو سیاں بھئے کوتوال والا معاملہ ہے۔ اب کسی کو کوئی سزا ملنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اب تو عدالتوں میں بھی اپنے ہی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ جب ملک کے کروڑوں لوگوں کی کوئی سننے کو تیار نہیں تو ۴ جج کسی کا کیا بگاڑ لیں گے ؟پہلے دلتوں کو اسی لئے استعمال کیا جاتا تھا کہ اگر کوئی پکڑا بھی جائے اور اسے سزا بھی دینی ہی پڑ جائے تو وہ دلت ہو۔ ہندؤں کے ورن آشرم کے سب سے نچلے طبقے کا فرد۔ جس کی جنم سدھ ڈیوٹی ہی یہ ہے کہ اونچی ذاتوں کی خدمت کرے۔

  اب رہ گئے جین بودھ اور سردارجی۔۔ ۔ تو وہ بھی تو ہندو دھرم کا ہی ایک حصہ ہیں ۔ اور ان تینوں گروہوں میں یہ دم بھی نہیں کہ وہ ہندتو کے چاہنے والوں کوعملاً کوئی چیلنج دے سکیں ۔ بلکہ سچ یہ ہے کہ ہندتو ان تینوں مذاہب کو گھول کر پی چکا ہے۔ ان تینوں مذاہب کے اکابرین لاکھ چیخیں چلائیں کہ ہم ہندو نہیں ہیں ۔ عدالتوں سے لاکھ اپنے حق میں فیصلے کروائیں کہ ہمیں مائنارٹی اسٹیٹس دیا جائے مگر ان کی عوام اپنے آپ کو نہ صرف ہندو سمجھتی ہے بلکہ اکثیریتی معاشرے کا رکن ہونے کا مزہ بھی لوٹتی ہے۔ وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم پرسنل ختم ہونا چاہئے اور مسلمانوں کو بھی اپنی شناخت سے دست بردار ہو کر ہندتو کے دھارے میں مدغم ہو جانا چاہئے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اکابرین نے خود اپنی عوام کے درمیان اپنی شناخت کا شعور بیدار کرنے کوئی کوشش نہیں کی۔ جبکہ سنگھ پریوار قریب ایک سال سے نہ صرف ہندؤں کے بلکہ غیر ہندؤں کو بھی ہندتو کی شناخت دینے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ کامیاب بھی ہو چکا ہے اور اس کے لئے قربانی کا بکرا صرف اور صرف مسلمانوں کو بنایا۔

   ابھی حال میں کرناٹک میں دو قتل ہوئے ہیں ۔ ایک پروفیسر ملیشپا کلبرگی اور دوسرا گوری لنکیش کا۔۔ دونوں کا تعلق کرناٹک کے لنگایت طبقے سے ہے۔ ہمیں تو گوری لنکیش کے قتل کے بعد معلوم ہوا کہ یہ لوگ بھی ہندو فولڈ سے فرار ہونے کی کوشش میں قتل کئے جارہے ہیں ۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ زبردستی مسلمان بنانے کا الزام لگانے والوں کا منہ خود اپنے کرتوتوں سے کالا ہو رہا ہے۔ لنگایت کرناٹک کی سب سے بڑی ذات ہیں ۔ کرناٹک کی سیاست ان کے گرد ہی گھومتی ہے۔ اگر لنگایت ہندو فولڈ سے نکل جاتے ہیں تو کم سے کم کرناٹک کی حد تک تو ہندتو سیاست کی لٹیا ہی ڈوب جائے گی۔ اب بھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ مگر اس سے ایک بات تو صاف ہے کہ ہندتو کے متوالوں کو ہندو مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اگر دھرم کی مٹی پلید ہوتی ہے تو ہونے دو، سیاسی اقتدارہاتھ سے نہ جائے۔ یہ بات غیرہندؤٔں سے زیادہ سچے ہندؤں کے لئے قابل غور وفکر ہونی چاہئے۔ اسی طرح شمال مشرق کے باشندے بھی اپنے آپ کو ہندو نہیں سمجھتے۔ اب سوال یہ کہ وطن عزیز میں ہندو واقعی اکثیریت میں ہیں یا یہ محض افسانہ ہے؟

 ہمارے نزدیک فلم پدماوت بھی ایسی ہی کہانی ہے جیسی مغل اعظم اور انار کلی تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس قسم کے نان ایشو کو ایشو کیوں بنایا جاتا ہے؟ہم نے اوپر ہندتو کے کھوکھلے بدن پر روشنی ڈالی ہے۔ اسی کھوکھلے جسم کو برادران وطن کی نظروں سے چھپانے کے لئے نان اشوز اٹھائے جارہے ہیں ۔ ورنہ ہر صاحب عقل کو سوچنا چاہئے کہ تین طلاق سے ملک کو کیا فائدہ یا نقصان ہے۔ اگر کچھ ہے تو وہی کچھ ورنداون کی بیواؤں سے کیوں نہیں ہے؟۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس کا شوہر زندہ ہے اس بیوہ کا کیا؟ٔاس کی حالت کے بارے میں کیوں نہیں سوچا جاتا؟حج پر جانے کے لئے اگر اسلام میں محرم کی شرط ہے تو اس سے ملک کا کیا فائدہ یانقصان ہے؟یہ تمام کے تمام چند حالیہ باتیں ہیں ورنہ ہندتو کے چیمپئنوں کی نان اشوزکو اشو بنانے کی بڑی لمبی تاریخ ہے۔ اور وہ ایسا اسلئے کرتے ہیں کے سادہ لوح عوام اسی میں الجھے رہیں ۔ مگر نریندربھائی کے تین ساڑھے تین سالہ دور میں جو کچھ ہوا ہے اس نے وطن عزیز کی بہت ساری خوابیدہ ذاتوں کو انگڑائی لینے پر مجبور کردیا ہے۔ ہم ہندو نہیں ، اب اس کی تکرار تیز ہو رہی ہے۔ اب یہ آوازیں نہیں رہیں بلکہ شور مچ گیا ہے۔ اگر ہماری سول سوسائٹی اب بھی نہ جاگ سکی۔ اسے اب بھی اپنی ذمے داریوں کا احساس نہ ہو سکا۔ وہ اب بھی حالات سے نپٹنے کے لئے کوئی لائحہء عمل طے نہ کر سکی تو شاید سال ڈیڑھ سال بعد وہ کچھ کرنے کے لائق ہی نہیں رہے گی۔ یہ سوچ کر بڑی حیرت ہوتی ہے کہ انگریزوں کو ملک سے بھگانے والوں کی اولادکتنی بے عمل ہے؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔