ان کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب!

عالم نقوی

علمی تنزل، فکری انحطاط اور قحطِ رِجال کے اِس دور  میں حکیم سید ظلُّ ا لرحمن کی ذاتِ گرامی بلاشبہ ایک نعمت ِعُظمیٰ ہےجس کے لیے اُس کریم آقا کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے، کم ہے۔

کردار سازی اور اِدارہ سازی وہ بڑے کام ہیں جو اِس فانی دنیا میں دَوام بخشنے  کا سبب بنتے ہیں۔ یہ دونوں خصوصیات کسی ایک ہی شخصیت میں جمع ہوجائیں تو اِسے معجزہ ہی سمجھنا چاہیے۔ حکیم سید ظل ا لرحمن  فی زمانہ وہی زندہ معجزہ ہیں۔

 اِدارہ سازی کے ذَیل میں اِبن ِسینا اکاڈمی اور تاریخ ِطب و تہذیب و ثقافت کے  جڑواں میوزیم، اُن کے لازوال کارنامے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر سید شاہد مہدی نے ۲۷ دسمبر ۲۰۰۸ کو تیسرا اِبنِ سینا یادگاری خطبہ دیتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں اعتراف کیا تھا کہ ’’ادارہ بازی ‘‘کے اِس دور میں پروفیسر حکیم سید ظل ا لرحمن نے ’’ادارہ سازی ‘‘ کی ایک مثال قائم کی ہے۔ ابن سینا اکاڈمی کُلِّیَّتاً اُن کے اَپنے وِژَن اور اَن تھک ذاتی اور بے لوث کوشش کا ایک قابل ِتقلید نمونہ ہے۔ ایسے ماحول میں جب (اَساتذہ کرام  ) اکثر دوران ِملازمت بھی ’نیم خُفتہ ‘ اور ریٹائرڈ زندگی سے آسودہ اور مطمئن (بلکہ بے عمل )رہتے ہیں حکیم صاحب، طبیہ کالج (اے ایم یو علیگڑھ ) کی سربراہی سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی (ہمہ وقت )مصروفِ عمل ہیں۔

’’اُن کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ ِ شباب ‘‘۔

 نئی نسلوں کی کردار سازی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اُنہیں نصف صدی سے زیادہ ہو چکی ہے۔

 وہ پچاس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق طب، تاریخ طب اور متعدد قدیم طبی مخطوطات کی تدوین اور ترجمے سے ہے لیکن بعض اہم تاریخی شخصیات کے  سوانحی تذکرے، مثلاً حکیم احسن اللہ خان اور راس مسعود کے حالات زندگی پر ان کی کتابیں اور  بنگلہ دیش، ایران اور وسطی ایشیا وغیرہ کے سفرنامے اُن کی وقیع  و بلیغ تصنیفات میں شامل ہیں۔ اِن کے علاوہ طبی رسائل و جرائد میں  شایع  کئی سواداریے، اور مضامین اور دیگر اہل قلم کی کتابوں پر لکھے ہوئے درجنوں  تعارفی وتوضیحی تبصرے  مزید کئی عدد کتابوں کی  صورت  میں محفوظ کیے جانے کے منتظر ہیں۔

لیکن اِس مضمون کو ہم صرف  طبی  ادب وصحافت کے لیے اُن کی قیمتی خدمات کے ذکر تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔

اُن کی منفرد طبی صحافت  کی ابتدا، ۱۹۵۸ سے  ہوتی ہے جب وہ طبیہ کالج میگزین مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے اور انہوں نے اِدارت کے فرائض کو پورا کرتے رہنے  کے تقلیدی اور روایتی تقاضوں پر اِکتفا کرنے کے بجائے میگزین کا شاندار ’’شیخ ا لرئیس ‘‘ نمبر نکال کر اپنے اساتذہ کو یہ باور کرادیا کہ اُن کی نگاہیں اِس راہ کی بلند ترین منزلوں پر ہیں۔

سنگ ریزوں کی چبھن کا انہیں احساس کہاں۔ ۔وہ جو منزل کے مناروں پہ نظر رکھتے ہیں !

۱۹۶۰ میں بی یو ایم ایس کی تکمیل کے بعد ہی ملک کے طبی جرائد میں اُن کے وقیع مضامین کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ۱۹۶۳ میں ان کی پہلی کتاب  عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق ’’دور جدید اور طب ‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئی اور، وہ دن اور آج کی تاریخ، اِ ن پچپن طویل برسوں میں پھر کبھی انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

رشید کوثر فاروقی کا یہ شعر  اس اٹھتر سالہ ’پیر ِ جواں ‘پر پوری طرح صادق آتا ہے کہ  :

اک طرف ڈوب گئے ایک طرف جا نکلے۔ ۔ہم تو سورج ہیں، ہمارے لیے آرام کہاں !

مئی ۱۹۶۵ میں دہلی سے ماہنامہ ’الحکمت ‘ نکالا جسے علی گڑھ آنے کے بعد ستمبر ۱۹۷۰ میں مجبوراً بند کر دینا پڑا۔ ان میں شایع مضامین پر مشتمل صرف دو ہی کتابیں ابھی تک شایع ہوئی ہیں جن میں سے ایک خود حکیم ظل ا لرحمن کی ’تاریخ علم تشریح ‘ اور دوسری حکیم سید ایوب علی کی ’ذخیرہ ثابت بن قُرَّہ‘ ہے لیکن، اپنی اشاعت کے  پانچ برسوں کے دوران   الحکمت کے  ۶۵ شماروں میں جو کچھ شایع ہوچکا ہے، وہ سب کا سب، علمی، فنی، تحقیقی اور تاریخی ہر  اعتبار سے اِس  بلند درجے  اور اعلیٰ معیار کا مواد ہے کہ جسے کم از کم بیس کتابوں میں  مرتب کر کے شایع کیا جا نا چاہیے۔ اگر ایسا  ہو  جائے تو آج کی ترقی یافتہ  عالمی   طبی اور علمی  دنیا بھی ’اَش اَش کر اٹھے گی  کہ ’ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں ہے ! ‘ جو آج منارہ نور بنی جہان علم و حکمت کو منور کیے ہوئے ہے!

مختار مسعود  مرحوم نے  لکھا ہے کہ صحیح لفظ ’اَش اَش‘  ہی ہے نہ کہ ’عش عش ‘جیسا کہ بالعموم اردو والے لکھتے ہیں۔ ’اَش اَش عربی لفظ ہے جس کے معنی خوشی منانے کے ہیں۔ (’حرف ِ شوق‘مختار مسعود۔ ۲۰۱۷ص ۳۱ )

اجمل خاں طبیہ کالج مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ کے اُستاد ڈاکٹر شمیم اِرشاد اَعظمی نے حکیم سید ظل ا لرحمن کی طبی خدمات پر ایک طویل(بارہ صفحات پر مشتمل )یادگار  مضمون صرف ماہنامہ الحکمت کے حوالے سے لکھا ہے جو رضا لائبریری رام پور کے ڈائرکٹر، ڈاکٹر سید حسن عباس اور مسلم یونیورسٹی کے ڈاکٹر عبد الطیف کی مرتب کردہ، ۶۱۶صفحات کی ضخیم کتاب حکیم سید ظل ا لرحمن حیات و خدمات ۲۰۰۵ میں (ص ۳۳۶تا ۳۴۷)شایع ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ؛

’’۔۔مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد، ہندستان کے مقبول (ترین) طریقہ علاج طب یونانی کا وجود بھی خطرے میں پڑ گیا (تھا)مگر صاحب فکر و بصیرت اطبا نے  بر وقت سامنے آکر اس خطرے کا مقابلہ کیا۔ ۔جس میں خاندان شریفی دہلی اور خاندان عزیزی لکھنو کی (خدمات سر فہرست ہیں )۔جدید ہندستان (کے بدلے ہوئے حالات )میں طب کا نیا نصاب تعلیم مرتب کرتے ہوئے ۱۸۸۲ میں، شریف منزل دہلی میں۔ مدرسہ طبیہ کی بنیاد ڈالی گئی (جو بہت جلد پورے ملک میں ) مستقل طور پر طبی تعلیم گاہوں، اداروں اور تنظیموں (کے قیام کی محرک ثابت ہوئی )۔ماہنامہ مجلہ طِبِّیہ دہلی، تکمیل ا لطب (طبیہ) کالج لکھنؤ،ادارہ المسیح دہلی اور آل انڈیا یونانی طبی کانفرنس اس کی روشن مثالیں ہیں۔ اسی سلسلے کی دو  زریں کڑیاں ’طبی اکاڈمی بھوپال ‘  کا قیام(۱۹۶۲)  اور  اس کے ترجمان کے طور پر ماہنامہ ’الحکمت ‘دہلی کی اشاعت کا آغاز(۱۹۶۵)ہیں، جن کا سہرا  حکیم سید ظل الرحمن کے سر ہے۔ ’الحکمت ‘ کے پہلے شمارے (مئی ۱۹۶۵میں ) اُنہوں نے لکھا کہ’’ طبی اکاڈمی اور الحکمت کے ذریعے طبی نظریات کی اِشاعت، طب کے قدیم کلاسیکل کتابوں کے ترجمے، قلمی طبی کتابوں اور مخطوطات  کی تلاش و تدوین، علم کے جدید تقاضوں کی روشنی میں طبی تحقیق اور اعلی طبی لٹریچر کی فراہمی ہے۔ اس وقت بھی  برصغیرہند۔پاکستان میں شایع ہونے والے طبی جرائد کی تعداد تیس یا چالیس سے کم نہ ہوگی لیکن دو ایک کے سوا، شاید ہی کوئی پرچہ محض علمی و فنی خدمت کے طور پر نکل رہا ہو۔ ۔لہٰذا الحکمت کا اجراان ہی اعلیٰ مقاصد کے فروغ کی خاطر عمل میں آیا ہے۔ اس میں صرف طبی نسخے اور مجربات ہی نہیں سبھی متعلقہ علوم مثلاً حیوانیات، نباتات،کیمیا،طبیعات،ہیئت،فلسفہ وغیرہ (پر علمی و تحقیقی )مضامین بھی ہوں گے کیونکہ ان علوم کو نظر انداز کرکے طب میں کوئی تحقیقی کام بہت مشکل ہے۔ رسالہ میں پہلا مضمون ’حکمت‘(سائنس)  کی وسعت  اور طب سے اس کے تعلق پر مزید وضاحت کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔ ‘‘حرف آغاز کے عنوان سے الحکمت کے پہلے اداریے میں فاضل مدیر نے لکھا کہ ’’آپ اسے دیکھ کر تعجب بھی کریں گے اور افسوس بھی۔ تعجب اس لیے کہ یہ پہلا جریدہ ہے جو محض علمی رنگ میں ڈوبا ہوا اور علمی خدمات کا بوجھ اپنے شانوں پر لیے ہے اور افسوس اس لیے کہ خدا جانے اس نوزائدہ کی عمر کتنی ہوگی۔ عمر کی کمی اور برتھ کنٹرول کا یہ عام زمانہ ہے لیکن طب کے ساتھ تو خصوصیت کے ساتھ مدت سے برتھ کنٹرول اور عمر کی کمی سوال پیدا ہو چکا ہے۔ ‘‘

حرف آغاز کے تحت شایع ہونے والے الحکمت کے سبھی پینسٹھ علمی و تحقیقی  اداریےکتابی شکل میں ایک جگہ مجتمع ہوکر محفوظ کیے جانے کے منتظر ہیں !

عام طور پر طبی رسائل قوت باہ  اور مردانہ طاقت کے نسخوں، مجربات اور متعلقہ دواؤں کے اشتہارات کا پلندہ ہوتے ہیں لیکن ’الحکمت ‘سبھی  گھٹیا اور فرسودہ روایات کے بر خلاف خالص علمی، فنی اور تحقیقی حیثیت کا حامل تھا۔علم ا لا دویہ (مفردہ، کلیات، مرکبات) تشریح، طبیعات، نفسیات، معالجات، حفظانِ صحت ، جراحت، ماہیت ا لا مراض، تنقید، تراجم وغیرہ سبھی  علمی و طبی موضوعات  پر نہایت وقیع اور اعلی درجے کے مضامین، اُتنے ہی بلند پایہ حکما و علما کے تحریر کردہ ’الحکمت ‘ کی پانچ سال کی فائلوں میں بند کتابوں کی محفوظ روشنی میں تبدیل کیے جانے کے منتظر ہیں !

ڈاکٹر شمیم ارشاد اعظمی نے لکھا ہے کہ ’’طبیہ کالج میگزین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ’شیخ ا لرئیس ‘نمبر اور ماہنامہ ’الحکمت ‘ دہلی سے حکیم سید ظل الرحمن کی جس صحافتی زندگی کا سفر شروع ہوا تھا وہ  کسی نہ کسی شکل میں آج بھی جاری ہے۔ وہ ۶۶۔۱۹۶۵میں ماہنامہ ’دکھ سکھ ‘ بریلی کی مجلس ادارت کے رکن رہے۔ ۱۹۷۱ میں انہیں ماہنامہ رہنمائے صحت ‘دہلی کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل کیا گیا۔ ۱۹۸۴ میں انہیں اسٹڈیز آن ہسٹری اِن میڈیسن اینڈ سائنسز دہلی کی مجلس مشاورت کا رکن منتخب کیا گیا۔ ‘‘

یو پی طبی کانفرنس منعقدہ الہ آباد ۱۹۸۹کے سالانہ اجلاس کے موقع پر شایع ہونے والے خصوصی سووینئیر کے مرتب رہے۔ اسی طرح فروری  ۱۹۹۰ میں فیکلٹی آف یونانی میڈیسن، علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے نیشنل سیمینار آن یونانی میڈیسن  کے سووینئیر کے مرتب بھی وہی تھے۔ اکتوبر ۱۹۹۰میں شایع ہونے والے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے انٹر نیشنل سیمینار آن ’علم ا لا دویہ ‘ کے سووینئیر کے مرتب کی ذمہ داریاں بھی حکیم ظل ا لرحمن ہی کے سپرد رہیں۔

 ۱۹۹۳ سے ۲۰۰۰ تک وہ انٹرنیشنل جرنل اسٹڈیز ان میڈیسن ‘ کے ایسو سی ایٹ ایڈیٹر رہے۔ ۱۹۹۵ سے سن دو ہزار میں سبکدوش ہونے تک، وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سہ ماہی جریدے ’فکر و نظر ‘ کے ادارتی بورڈ کے رُکن رہے۔ ۱۹۹۶ میں وہ  رضیہ حامد کے سہ ماہی جریدے ’فکرو آگہی ‘ بھوپال کے خصوصی شمارے ’نقوش ِ بھوپال ‘نمبر کی مجلس ادارت کے رکن تھے۔ ۱۹۹۹ سے تاحال وہ CCRUMکےسہ ماہی جریدے ’جہان ِ طب ‘دہلی کی مجلس مشاورت (ایڈوائزری بورڈ)کے رُکن ہیں۔ ۱۹۹۳ سے ۲۰۰۰ تک وہ دی جرنل آف اِسٹڈیز اِن ہسٹری آف میڈیسن اَینڈ سائنسز کے معاون مدیر رہے۔ سن دو ہزار میں ’فکر وآگہی ‘ بھوپال کے ’علی گڑھ نمبر ‘کے ادارتی بورڈ کے رکن بنائے گئے۔ سن دو ہزار دو میں انہیں استنبول ترکی کے ’جرنل آف انٹرنیشنل سوسائٹی فار ہسٹری آف اسلامک میڈیسن ‘ کے بین ا لاقوامی ایڈوائزری بورڈ کا رکن مقرر کیا گیا۔ سن ۲۰۰۳ میں حلب (Aleppo)سیریا کے انسٹی ٹیوٹ فار دی ہسٹری آف عرب سائنسز کے تحقیقی جریدے کے ایڈیٹوریل بورڈ کے رکن بنائے گئے۔ ۲۰۰۴ میں فرانس سے شایع ہونے والے جرنل آف اِتھنو فارما کالوجی کے ایڈیٹوریل بورڈ کے رُکن مقرر ہوئے۔ ۲۰۰۶ میں CCRUMکے انگریزی تحقیقی مجلے ’ہپو کریٹک جرنل ‘کے ادارتی بورڈ کے رکن بنائے گئے۔

نومبر ۲۰۱۰ میں ابن سینا اکاڈمی نے ’طب یونانی میں اعلی ٰ تعلیم، اُصول ِتحقیق اور مطالعہ مخطوطات ‘ کے موضوع پر ایک قومی ورکشاپ کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر شایع ہونے والے خصوصی سووینئیر کی ترتیب و ادارت کی ذمہ داریاں حکیم ظل ا لرحمن ہی کے سپرد رہیں۔ اکتوبر ۲۰۱۱میں ابن سینا اکاڈمی  کے زیر اہتمام ’حکیم اجمل خاں ایک تاریخ ساز شخصیت ‘ کے موضوع پر دو روزہ قومی سیمینار ہوا۔ اس موقع پر جو یادگاری  مجلہ شایع ہوا اس  کےمرتب بھی حکیم ظل ا لرحمن تھے۔

 ۲۰۱۲ سے تاحال وہ قم ایران کے علمی جریدے ’میراث قطب شاہی ‘کے ایڈیٹوریل بورڈ میں شامل ہیں۔ ۲۰۱۷ تک اس کے چھے وقیع شمارے شایع ہو چکے ہیں۔ جون ۲۰۱۴ سے تا حال وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ماہنامہ ’تہذیب ا لا خلاق ‘ کی مجلس ادارت میں شامل ہیں۔ اکتوبر ۲۰۱۴ میں ’ابن سینا :حیات اور علمی کارنامے ‘ کے موضوع پر ابن سینا اکاڈمی علی گڑھ میں ایک عالمی سیمینار ہوا۔ اس کے یادگاری مجلے کے مدیر حکیم ظل الرحمن تھے۔ اگلے سال اکتوبر ۲۰۱۵ میں ’ابن ا لہیثم :حیات و خدمات ‘ کے موضوع پرہونے والے  دو روزہ قومی سیمینارکے یادگاری مجلے کی ترتیب و ادارت کی ذمہ داریاں حسب دستور حکیم ظل ا لرحمن ہی کے کندھوں پر رہیں۔

جنوری ۲۰۱۶ سے وہ کراچی پاکستان کے ہمدرد میڈی سکس کواٹرلی جرنل آف سائنس اینڈ میڈیسن کے ایڈوائزری بورڈ کے رکن ہیں۔ ابن سینا اکاڈمی کا ترجمان سہ ماہی ’نیوز لیٹرآف ابن سینا اکاڈمی (NISA)ان کی ادارت میں پچھلے اٹھارہ برسوں سے بلا ناغہ شایع ہو رہا ہے۔ اب تک اس کے ۶۸ شمارے آچکے ہیں۔

اسلامک میڈیسن اور تاریخ طب و سائنس کے ترکی، ایران،سیریا، پاکستان  اور فرانس کے بین ا لا قوامی مجلات کی مجالس ادارت و مشاورت سے حکیم سید ظل الرحمن کی وابستگی صرف  وطن عزیز ہی نہیں   پوری دنیا کی قدیم  طب یونانی، طب سنتی اور طب اسلامی کی  طبی برادری  کے لیے باعث افتخار ہے۔

تبصرے بند ہیں۔