اک نیا حوصلہ دیتی ہے شکستہ پائی

تحریر: طلحہ منان

اگر فردوس بر روئے زمیں است، ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است۔ اپنی قدرتی خوبصورتی کے لئے دنیا بھر میں مشہور کشمیر کے بارے میں یہ شعر امیر خسرو نے یوں ہی نہیں کہا تھا۔ کشمیر کو قریب سے دیکھنے پر آپ بھی اس کو خدا کی بخشش ہی کہیں گے۔ برفیلی وادیوں میں لہلہاتے ہرے بھرے درخت اپنے آپ میں جنت نشاں ہیں اور اسی لیے کشمیر کو ہندوستان کا سوئٹزرلینڈ کہتے ہیں۔

زعفران اور سیب کی پیداوار کے معاملے میں تو کشمیر نے اپنا لوہا دنیا سے منوایا ہی ہے، اس کے علاوہ اب کشمیر تعلیم کے میدان میں بھی دن بدن آگے بڑھ رہا ہے۔ جی ہاں! وہی کشمیر جو آزادی کے بعد سے اب تک اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہا ہے، جو کبھی کھوکھلے سیاسی معاہدوں کے ذریعہ ٹھگا جاتا ہے تو کبھی حد توسیع کی کٹر عزائم کا شکار بنتا ہے۔ اپنے دامن میں جنت سی خوبصورتی سجائے وادیوں میں، اب بندوقیں لہلہانا اور فوجی پہرے عام چیزیں ہیں۔

لیکن کشیدگی کے ایسے ماحول میں بھی کشمیر ایک نئی کروٹ لے رہا ہے۔ کیا یہ کروٹ اپنے ساتھ تبدیلی لائے گی، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن آئیے آپ کو ملواتے ہیں کچھ ایسے لوگوں سے جنہوں نے ثابت کیا کہ دہشت کے ماحول میں بھی صلاحیت اپنا لوہا منوا ہی لیتی ہے۔

عامر خان کی فلم ‘دنگل’ میں گیتا فوگاٹ کے بچپن کا کردار ادا کرنے والی زائرہ وسیم نے جموں و کشمیر بورڈ کے دسویں کے امتحان میں 90 فیصد سے زائد نمبرات حاصل کئے ہیں۔ زائرہ نے کشمیر وادی میں چلے سب سے طویل تشدد کے دور کا سامنا کرتے ہوئے یہ کامیابی حاصل کی ہے۔ سری نگر کے پرانے شہر کی رہنے والی زائرہ وسیم نے دسویں بورڈ کے امتحان میں 92 فیصد نمبر حاصل کر وادی کے سب سے مشکل دور میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو کشمیر بورڈ دسویں کلاس کے امتحانات کے نتائج کا اعلان کیا گیا۔ تشدد کی وارداتوں کے درمیان امتحانات کا انعقاد بھی مشکل تھا۔ آخر کار جب امتحان ہوا تو 99 فیصد بچے اس میں شامل ہوئے۔

زائرہ وسیم امتحان دینے کے ساتھ ساتھ فلم کی شوٹنگ بھی کر رہی تھی۔ اس کے باوجود 92 فیصد نمبرات کے ساتھ انہوں نے اے گریڈ حاصل کیا۔ سولہ سالہ زائرہ سینٹ پالس انٹرنیشنل اکیڈمی کی طالبہ ہے ۔ زائرہ کی اس کامیابی سے ان کے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ کشمیر دسویں بورڈ کے امتحانات کے نتائج 83 فیصد رہے، جن میں 84۔61 فیصد لڑکے اور 81۔45 فیصد لڑکیاں ہیں۔

اس سے پہلے کشمیر کے باندی پورہ ضلع کی رہنے والی نو سالہ تجمل اسلام نے ورلڈ کک باکسنگ چیمپئن شپ میں پرچم لهراكر اپنا لوہا  منوایا تھا۔ کشمیر کی اس بیٹی نے بہت کم عمر میں ہی کک باکسنگ کی شروعات کی تھی۔ جموں میں گزشتہ سال ہوئے ریاستی سطح کے مقابلے میں انہوں نے طلائی تمغہ جیتا تھا۔ مقابلہ جیتنے کے بعد تجمل نے کہا تھا کہ، "میں نے جب اپنے مخالف کو دیکھا تو ڈر گئی لیکن یاد کیا کہ مقابلے میں کسی کی عمر یا قد و قامت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ کارکردگی پر زور دوں گی اور اپنا سب سے بہتر کھیل پیش کروں گی۔ "

کشمیر کے ہی رہنے والے اطہر عامر الشفیع کو کون نہیں جانتا، انہوں نے گزشتہ سال یو پی ایس سی کے امتحان میں دوسری رینک حاصل کی تھی۔ اطہر کہتے ہیں کہ "گزشتہ سال میری رینکنگ کم تھی اسی لئے مجھے آئی-آر-ٹی-ایس دیا گیا تھا لیکن میں نے ملازمت شروع کی۔” آئی اے ایس کو اپنی پہلی پسند بتانے والے اطہر نے نوکری کے ساتھ امتحان میں بھی بیٹھنے کا منصوبہ بنایا۔ ان کے والد اسکول میں بطور استاد ملازم ہیں۔ اطہر کو سال 2009 میں وادی کشمیر کے شاہ فیصل کے پبلک سروس امتحان میں اعلی مقام حاصل کرنے کے بعد آئی اے ایس بننے کی دلچسپی پیدا ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گیا ہے اب وہ لوگوں کی بہتری کے لئے کام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ جموں و کشمیر کیڈر کا انتخاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ، "مجھے وہاں کام کرنے کا موقع ملا تو خوشی ہوگی۔ مجھے لگتا ہے کہ میری ریاست کے لوگوں کی خواہشات کو پورا کرنے کی بہت گنجائش ہے۔ "

اتنا ہی نہیں بلکہ یو پی اے حکومت کے دور میں پھانسی کی سزا پانے والے افضل گرو کے بیٹے غالب گرو نے بھی گزشتہ سال کشمیر بورڈ کے دسویں کے امتحان میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 95 فیصد نمبرات حاصل کئے تھے۔ غالب نے کہا تھا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔ جب وہ اپنے باپ سے ملنے جیل گیا تھا تب اس کے باپ نے اسے ایک سائنس کی کتاب اور قلم تحفہ میں دیا تھا۔

یہ خبریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھلے ہی وادی کشمیر میں تشدد ہے، بدامنی ہے لیکن اس کے باوجود وہاں کے لوگوں میں تعلیم کے لئے اتنا ہی زیادہ جوش و خروش بھی ہے۔ ان کے اندر ایک ایسا کشمیر بنانے کی خواہش بھی ہے جس میں دہشت نہیں بلکہ بھائی چارہ ہو، لیکن افسوس چند لوگ صرف اپنے سیاسی فائدے کے لیے کشمیر معاملے پر ناقص سیاست کرتے ہیں لیکن انہیں معلوم ہو کہ اب کشمیر تعلیم کو اپنا ہتھیار بنا رہا ہے، آہستہ آہستہ ہی سہی لیکن تعلیم کو لے کر ایک اچھا آغاز وادی میں ہو چکاہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔