حضورﷺ کی تشکیل ِریاست کی فکری بنیادیں (چوتھی قسط)

ترتیب:عبدالعزیز

ابن ہشام اس کے آگے جو کچھ لکھتا ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے، وہ کہتا ہے کہ :
اسماء بنت ابوبکر کا بیان ہے کہ میں نے بوڑھے سردار زید بن عمرو کو کعبہ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے دیکھا، وہ کہہ رہا تھا کہ ’’اے قریشیو! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں زید بن عمرو کی جان ہے، میرے سوا تم میں کوئی بھی ابراہیم کے دین پر قایم نہیں رہا۔ پھر کہنے لگا؛ اے اللہ! اگر مجھ کو معلوم ہو کہ میں کس طرح سے تیری عبادت کروں تو میں اس کو بجا لاؤں مگر افسوس کہ میں تیری عبادت کا طریقہ نہیں جانتا‘‘۔
مکہ اس نیک نفس آدمی کے وجود کو بھی برداشت نہ کرسکا اور بالآخر زید کو شہر بدر کر دیا اور مکہ میں اس کا داخلہ ممنوع قرار دیا۔ نتیجتاً زید بن عمرو نے وطن چھوڑا اور دین ابراہیمی کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ موصل، الجزیرہ، شام وغیرہ کی خاک چھانتے ہوئے میفعہ (بلقائ) کے ایک راہب کے پاس پہنچا اور اس سے گم گشتہ مسلک ابراہیمی کا سراغ پوچھا۔ راہب نے کہا:
’’آج تجھے اس مسلک پر چلنے والا کوئی ایک متنفس بھی نہ ملے گا؛ البتہ ایک نبی کے ظہور کا وقت آ پہنچا ہے جو اس جگہ سے اٹھے گا جہاں سے تو نکل کر آیا ہے۔ وہ دین ابراہیمی کا علمبردار بن کر اٹھے گا۔ جاکر اس سے مل۔ اس کی بعثت ہوچکی ہے‘‘۔
زید راہب کی ہدایت کے مطابق مکہ کی طرف روانہ ہوا مگر منزل پر پہنچنے سے پہلے بلاد لخم میں قتل ہوگیا۔
ان روایات کو ہم نے اس لئے نقل کیا تاکہ یہ ثابت ہوجائے کہ بعثت نبوی کے وقت اذہان و قلوب میں سختی اضطراب پیدا ہوچکا تھا اور فطرت انسانی ماحول کے خلاف جذبہ احتجاج کے ساتھ بیدار ہورہی تھی اور کم از کم عرب میں حنفاء کا ایک طبقہ ایسا ضرور موجود تھا جو صنم پرستانہ جاہلی طرز فکر سے بغاوت کرچکا تھا۔ اس صورت حال میں رسولؐ اللہ کی بعثت اور آپ کی دعوت وقت کی آواز بن گئی۔ زمینوں کی طرح روحوں اور دلوں کے بھی موسم ہوتے ہیں اس لئے وہ موسم آپہنچا تھا جبکہ دلوں میں ایمان کے بیج ڈالے جائیں ان کے اضطراب کو سکون سے بدلا جائے اور روحوں کو عقیدہ کی لذت سے آشنا کیا جائے۔ بہر حال رسولؐ اللہ نے ٹھیک وقت پر زمانہ کی نبض پر ہاتھ رکھا اور دلوں کے احساس کو حقیقت کے طور پر پیش کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب لوگوں کے سامنے آپؐ کی دعوت واضح ہوئی تو انھوں نے اسے فوراً قبول کرلیا۔ انھوں نے یہ محسوس کیا کہ گویا اپنے ہی دل کی آواز سن رہے ہیں، ان کے قبول حق میں نہ تو معجزات کی ضرورت پیش آئی اور نہ اس بات کی کہ قرآن ان کے سامنے بار بار پیش کیا جائے۔ در حقیقت وہ پیاسے تھے اس وجہ سے جونہی ان کے سامنے پانی پیش کیا گیا وہ اس کی طرف دوڑ پڑے۔ ان کی آنکھیں طلب ہدایت کیلئے کھلی ہوئی تھیں۔ اور جن کی آنکھیں کھلی ہوئی ہوں ان کو روشنی سے زیادہ عزیز کوئی چیز نہیں ہوا کرتی۔ پس جس طرح آئینہ روشنی میں چمک جاتا ہے یہ بھی روشنی پاکر چمک اٹھے۔ البتہ جو لوگ ضد، ہٹ دھرمی اور فریب نفس میں مبتلا تھے یا جن کو اپنے ذاتی مفادات عزیز تھے انھوں نے جانتے بوجھتے انکار و کفر کی روش اختیار کی۔
غرض ایک طرف تو حالات کے رخ نے لوگوں کے اذہان و قلوب میں مدو جزر پیدا کئے اور دوسری طرف اہل کتاب کی وساطت سے یہ روایات عرب میں بالعموم اور مکہ میں بالخصوص عام تھیں کہ ایک نئے نبی کی بعثت ہونے والی ہے۔ رسولؐ اللہ سے پہلے جو انبیاء و رسل اس دنیا کے مختلف حصوں میں تشریف لائے انھوں نے متواتر یہ خوشخبری سنائی کہ ایک نبیِ رحمت کی آخر کار بعثت ہوگی۔ ان انبیاء و رسل میں سے کم از کم حضرت موسیٰؑ کی پیش گوئیاں تو اب تک محفوظ ہیں۔ اس بنا پر اندرون و بیرون عرب بعثت محمدی کا چرچا عام تھا، جیسا کہ ہم زید بن عمرو کے واقعات اور سلمان فارسی کی سرگزشت میں دیکھ چکے ہیں کہ مختلف علاقوں کے رہبان و احبار نے یکساں پیش گوئی کا اظہار کیا تھا۔ ابن ہشام نے آنحضرتؐ کی تبلیغی مساعی کے سلسلے میں لکھا ہے کہ طائف سے واپسی کے بعد جب بھی کہیں کوئی مجمع دکھائی دیتا یا حج کا موسم آتا تو آپؐ حج پر آنے والے تمام قبائل کا دورہ کرکے انھیں اسلام سے روشناس کراتے، توحید و رسالت کی دعوت دیتے اور ان کو دین خداوندی کی نصرت و اعانت پر آمادہ کرنے کی کوشش فرماتے تھے؛ چنانچہ یہ دعوت آپؐ نے قبیلہ بنو عامر کو بھی دی۔ بنو عامر جب اپنے علاقے میں واپس پہنچے تو وہاں ان کے ایک بڑے بوڑھے نے حج کے حالات دریافت کئے۔ بنو عامر نے کہا:
’’اس دفعہ ایک عجیب واقعہ ہم نے دیکھا کہ قریش میں سے بنی عبدالمطلب کے ایک نوجوان نے ہم سے کہاکہ ’’میں خدا کا رسول ہوں‘‘ اور ہم کو اس بات کی طرف بلایا کہ ہم اس کے ساتھ ہوکر اس کے مخالفوں سے مقابلہ کریں اور اس کو اپنے شہر میں لے آئیں‘‘۔
اس بوڑھے نے یہ بات سن کر دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھ لئے اور کہا کہ ’’اے بنی عامر! اس بات کی کیا تلافی ہوسکتی ہے کہ تم ایک نبی کو چھوڑ آئے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میںمیری جان ہے اس سے بڑھ کرکوئی مطلوب ہی نہیں اور بیشک وہ نبی جو کچھ کہتے ہیں حق کہتے ہیں‘‘۔
ہم نے اوپر جو پیش گوئیاں اور صداقتیں نقل کی ہیں ان کی خاص تاریخی اہمیت بھی ہے، کیونکہ ان کی بازگشت عہد رسالت کے تاریخی واقعات میں صاف سنائی دیتی ہے۔ مثلاً بیعت عقبہ کے موقع پر انصار کی سبقت ایمانی اس وجہ سے تھی کہ وہ یہود پر فوقیت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس کی تفصیل تو ہم آئندہ بیان کریں گے، البتہ یہاں یہ سمجھ لینا کافی ہے کہ مذکورہ پیش گوئیوں کے اثرات اہل کتاب اور انصار دونوں پر مرتب ہوئے۔
(ب) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ دین کا آغاز کیا تو آپ کی عمر چالیس سال تھی۔ چالیس سال کی مدت تھوڑی نہیں ہوتی۔ اس پوری مدت میں آپ کی زندگی اہل مکہ اور دوسرے اہل عرب کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح تھی جس کی تحریر کا ہر حرف پاکیزہ، روشن اور مستحکم تھا۔ آپ کے بے داغ اخلاق و کردار ، آپ کی امانت، دیانت، صداقت اور عالی نسبی و عالی ظرفی کا ہر شخص معترف تھا۔ اہل مکہ بچشم سر یہ دیکھ چکے تھے کہ اس صادق اور امین نے پوری زندگی ایسی شرافت، پاکیزگی اور احتیاط کے ساتھ گزاری ہے کہ اس سے زیادہ پاکیزگی کا تصور ممکن نہیں ہے۔ شراب کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا، جذبات کبھی بے قابو نہیں ہوئے، بے حیائی کا کبھی مظاہرہ نہیں کیا، بدکاری و فحاشی اس کے حاشیۂ خیال میں نہیں آئی۔ کسی موقع پر عصمت و عفت کا سودا یا لڑائی جھگڑا نہیں کیا، کسی کا ناحق خون نہیں بہایا، چوری، ڈکیتی، بت پرستی، غیر اللہ کے سامنے نذر و نیاز، مراسم جاہلیہ اور لہو و لعب سے وہ کوسوں دور رہا۔ غرض جاہلیت کے اس دور میں جو مفاسد بھی موجود تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب سے اپنے آپ کو بچاکر عظمت و شرافت نفس کا ایسا نمونہ پیش کیا جو اس ماحول میں ایک ’’عجوبہ‘‘ سے کم حیثیت نہ رکھتا تھا۔
یہ تو ایک پہلو تھا، اسی کے ساتھ ساتھ اخلاقِ محمدیؐ کا دوسرا پہلو بھی اہل مکہ کی نظروں سے اوجھل نہ تھا، وہ جانتے تھے کہ ابو طالب کا بھتیجا فضول و لایعنی مشاغل سے اپنی توجہ ہٹاکر مظلوموں کی داد رسی، غریبوں کی مدد، مسکینوں کی اعانت اور خیر و صلاح کے فروغ میں صرف کرتا ہے؛ چنانچہ حربِ فجار میں شرکت اور حلف الفضول کا عہد اسی قبیل سے ہے۔ اسی طرح تعمیر کعبہ کے سلسلہ میں تنصیب حجر اسود کے موقع پر بھی اہل مکہ صادق و امین کے جذبۂ امن و آشتی اور حکم و سیاست کا مظاہرہ دیکھ چکے تھے جبکہ قریش میں سخت کشمکش پیدا ہوگئی تھی ’’لعقہ الدم‘‘ ہوچکا تھا اور تلواریں چلنے میں کچھ دیر نہ رہ گئی تھی کہ اس عقدۂ لاینحل کو محمد رسولؐ اللہ نے اپنے ناخن تدبیر سے ذرا دیر میں سلجھا دیا یہاں تک کہ سب کے دل کی گہرائیوں سے یہ آواز نکلتی تھی کہ
’’یہ امین ہیں، ہم ان کے فیصلے پر راضی ہیں‘‘۔
پھر خاص بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرز عمل وقتی نہ تھا بلکہ مستقل تھا۔ آپ کا اخلاقِ کریمانہ ہر آن و ہر گام یہی رہا؛ چنانچہ جب آپ پر پہلی وحی غارِ حرا میں نازل ہوئی اور آپ نے گھر آکر حضرت خدیجہؓ سے کچھ اندیشوں کا اظہار کیا تو حضرت خدیجہؓ نے آپ کے اخلاق و کردار کی شہادت دیتے ہوئے جو کچھ کہا تھا اس کا مفہوم یہ تھا کہ اے محمدؐ! آپ بالکل نہ ڈریں۔ اللہ آپؐ کو رسوا نہ کرے گا بلکہ آپ تو نبی بنائے جارہے ہیں۔ اور پھر آپؐ تو سچ بولتے ہیں، رشتوں کو جوڑتے ہیں اور امانتیں ادا کرتے ہیں۔
غرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کی عظمت اہل مکہ اور اہل عرب سب کے نزدیک مسلم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے انقلابِ نو کی دعوت دی اور لوگوں نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی بلکہ اپنے ذاتی مفادات کی بنا پر انکار کی روش اختیار کی تو قرآن کے الفاظ میں رسولؐاللہ نے بطور دلیل ان سے کہا کہ :
’’میں اس سے پہلے تم میں ایک عمر گزار چکا ہوں، کیا تم سمجھتے نہیں؟‘‘
اسی طرح کوہ صفا پر کھڑے ہوکر پہلی مرتبہ قوم کو مخاطب کیا تو یہ فرمایا تھا کہ:
’’اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک حملہ آور فوج چلی آرہی ہے تو کیا تم میری بات پر یقین کروگے؟‘‘
اس پر اہل مکہ کے پورے مجمع نے بالاتفاق و بیک آواز یہ جواب دیا تھا :
’’ہاں؛ ہم ضرور یقین کریں گے۔ تمہارے کردار پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ تم نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘‘۔
پیغمبر اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کی یہی وہ رفعت و بلندی ہے کہ ابو جہل جیسا دشمن خدا و رسول بھی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کرتا ہے کہ
’’ہم آپ کو تو جھوٹا نہیں کہتے مگر جو کچھ آپ پیش کر رہے ہیں اسے جھوٹا قرار دیتے ہیں‘‘۔
جنگ بدر کے موقع پر اخنس بن شریق نے تخلیہ میں ابو جہل سے پوچھا کہ یہاں میرے اور تمہارے سوا کوئی تیسرا موجود نہیں ہے۔ سچ بتاؤ کہ محمدؐ کو تم سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا؟ تو ابوجہل نے جواب دیا:
’’خدا کی قسم! محمد ایک سچا آدمی ہے۔ عمر بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر جب لوأ اور سقایت اور حجابت اور نبوت سب ہی کچھ بنی قصّی کے حصہ میں آجائے تو بتاؤ باقی سارے قریش کے پاس کیا رہ گیا‘‘۔
ان حقائق کی تاریخی شہادت خود قرآن اس طرح دیتا ہے : ’’لیکن یہ لوگ تمہیں نہیں جھٹلاتے بلکہ یہ ظالم دراصل اللہ کی آیات کا انکار کر رہے ہیں‘‘۔
بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بے داغ سیرت نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مسلمان ہوگئے؛ چنانچہ ابتدائی ایام میں بہت سے لوگ آپ کی اسی سیرت کے پیش نظر ایمان کا اقرار کرکے جدید معاشرہ کے رکن بنے تھے۔
(ج) واقعہ یہ ہے کہ آدمی کی ذہنیت کو تبدیل کرنا اور اس کے نقطہ نظر یا نصب العین کو منقلب کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کیلئے غیر معمولی ذہانت، حکمت و تدبراور سب سے بڑھ کر ایسے استدلال سے کام لینا پڑتا ہے جو مخاطب کو ذہنی طور پر ہموار کرکے نئی بات قبول کرنے پر آمادہ کرسکے، جس طرح ایک بیج کی نشو و نما کیلئے تنہا بیج کی صلاحیتوں پر ہی نظر نہیں رکھنی پڑتی بلکہ زمین کی آمادگی و مستعدی اور فصل و موسم کی سازگاری و موافقت کا بھی لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ اسی طرح ایک داعیِ انقلاب کو بھی لازماً تخم ایمان کی آبیاری کیلئے قلوب و اذہان کی آمادگی و موافقت کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے اور یہ آمادگی اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جبکہ استدلال محکم اور پائیدار ہو۔
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقاید اور تعلیمات دین کو دلوں میں اتارنے کیلئے ایک طرف تو ایسے دلائل و براہین سے کام لیا جن کا ادراک ایک ادنیٰ سے ادنیٰ عقل رکھنے والا آدمی بھی کرسکتا ہے نیز ان دلائل و آثار میں تنوع کا خیال بھی رکھا تاکہ افہام و تفہیم کا حق ادا ہوسکے اور دوسری طرف رسولؐ اللہ نے اہل عرب کی تمام خوبیوں اور خرابیوں ، ان کی انفرادی و قومی روایات اور ان کے عادات و خصائل کی رعایت رکھتے ہوئے کشتِ ایمان کی آبیاری کی، جس طرح ایک طبیب مریض کی کیفیت و مرض کی ٹھیک ٹھیک نشان دہی کرنے کے بعد دوا تجویز کرتا ہے اسی طرح رسولؐ اللہ نے قوم کی حالت و کیفیت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرکے پوری حکمت و دانائی کے ساتھ لوگوں کی صلاح و فلاح کا کام انجام دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ دعوت اور اشاعت تعلیم کے سلسلے میں مخاطب ذہنی نزاکتوں کا پورا پورا خیال رکھا۔ عرب کے مشرکین اور اہل کتاب پر جس طرح آنحضرتؐ نے اتمام حجت فرمایا ہے اس کی تمام تفصیلات قرآن میں موجود ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے کسی ایسی بات کا مطالبہ نہیں کیا گیا جو ان کیلئے بالکل نادر اور انوکھی ہو اور ان کی تاریخ، ان کی روایات، ان کے معروف و منکر اور ان کے عقاید و اخلاق میں اس کی کوئی اصل یا شکل موجود نہ ہو۔ اس لئے آنحضرتؐ کا مطالبہ یہ تھا کہ اصول و جزئیات میں جو تناقض اور کجی پیدا ہوگئی ہے اس کو دور کیا جائے بلکہ اپنے پیغمبرانہ کام کی تکمیل میں آپؐ کی مستقل سیاست ہی یہ رہی ہے۔ آپؐ نے پہلے درجہ میں تو بعض مراسم جاہلیت کو جو بہت پہلے سے چلے آرہے تھے متعدد ترامیم و اصلاح کے بعد قبول کرلیا۔ دوسرے درجہ میں بالکل نئے اصول و قوانین عطا فرمائے۔                             (جاری)
موبائل: 9831439068    azizabdul03@gmail.com

تبصرے بند ہیں۔