رسول اکرم ﷺ کا عدالتی طریق کار (تیسری و آخری قسط)

ترتیب:عبدالعزیز

    عدالتی کارروائی:تفتیشی  رپورٹوں اور ابتدائی تحقیقات کی بنا پر مقدمات مناسب تصفیہ کیلئے باضابطہ عدالت میں پیش کر دیئے جاتے۔ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں عدالت میں جج کے رویہ (ادب القاضی) سے متعلق تفصیلی قواعد و ضوابط اور اصول و قوانین دیئے ہوئے ہیں جن کا بہترین نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے۔ فیصلہ کرتے وقت جج کو غصہ کی حالت میں نہیں ہونا چاہئے۔ اسے سختی سے کتاب اللہ پر عمل کرنا چاہئے اور ہمیشہ اس کے مندرجات کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور فیصلے کی پیروی ججوں پر لازم ہے۔ اگر یہ ماخذ کوئی رہنمائی نہ کریں تو ججوں کو اپنی رائے پر عمل کی اجازت ہے۔ فریقین کو برابری سے بٹھانا چاہئے اور بلا کسی امتیاز کے انھیں موقع دیا جانا چاہئے۔ دونوں فریق کو لازماً سنا جائے اور جب تک دوسرے فریق کو اسی طرح نہ سن لیا جائے جس طرح پہلے کو، مقدمہ کے فیصلے کا اعلان نہ کیا جائے۔
    فریقین مقدمہ کی ذمہ داریاں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دعویٰ میں حق ثابت کرنے کیلئے قواعد و ضوابط وضع فرمائے اور مدعی و مدعا علیہ کی ذمہ داری کیلئے بھی اصول مرتب کئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضع کردہ ایک بنیادی اصول مسلمؒ نے اپنی صحیح روایت میں کیا ہے:
    ’’اگر مدعیوں کے دعووں کو (بغیر ثبوت) قبول کرلیا جائے تو وہ لوگوں کا خون اور ان کی جائیدادیں طلب کرنا شروع کر دیں گے مگر قسم کا بار مدعا علیہ پر ہے‘‘۔
    مندرجہ بالا عام قاعدہ کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص ضابطہ مقرر فرمایا ہے:
    ’’ثبوت کا بار (البینہ) مدعی پر ہے اور مدعا علیہ کیلئے قسم ہے۔ اس ضابطہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ ذیل فیصلہ میں عمل کیا۔ایک شخص حضر موت سے اور دوسرا کندہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ حضرمی نے بیان کیا: ’’اس شخص نے میری زمین میں مداخلت کی ہے‘‘ ۔ کندی نے کہا: ’’وہ میری زمین ہے اور میرے قبضہ میں ہے، اس کا اس پر کوئی حق نہیں‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی سے دریافت کیا: ’’تمہارے پاس کوئی ثبوت (بینہ) ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں!‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’پھر تم اس کی قسم قبول کرو‘‘۔ اس نے کہا: ’’اے رسولؐ خدا! یہ شخص آزاد خیال ہے، یہ اپنی قسم کی پروا نہیں کرتا اور کسی بات سے احتراز نہیں کرتا‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اس کی طرف سے تمہارے لئے سوائے اس کے کچھ نہیں‘‘۔ دوسرا آدمی قسم کھانے کیلئے تیار ہوگیا۔ جب وہ چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی سے کہا: ’’اگر وہ ناجائز طور پر تمہاری جائیداد پر پھلنے پھولنے کیلئے جھوٹی قسم کھاتا ہے تو وہ اللہ سے یوں ملے گا کہ وہ اس کی طرف سے منہ پھیرے ہوئے ہوگا‘‘۔
    اقبالِ جرم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عدالتی نظام میں ملزم کا اقبال جرم مقدمہ کے فیصلہ کیلئے کافی ثبوت سمجھا گیا تھا۔ نمونہ کے طور پر کچھ اہم مقدمات جن کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقبال جرم کی بنیاد پر فرمایا، درج ذیل ہیں: ماعزؓ بن مالک الاسلمی نے زنا کا ارتکاب کیا۔ اس نے عدالت میں اپنے جرم کا اقبال کیا اور اسے سزا دی گئی۔ حضرت ابوہریرہؓ نے یہ مقدمہ اس طرح روایت کیا ہے:
    ’’ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپؐ مسجد میں تھے۔ اس نے آپؐ کو مخاطب کیا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے زنا کا ارتکاب کیا ہے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے اپنا منہ پھیر لیا۔ وہ اس طرف گیا جدھر آپؐ کا رخ تھا اور کہا: ’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے زنا کا ارتکاب کیا ہے‘‘۔ آپؐ نے اس کی طرف سے پھر منہ پھیر لیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی طرف چلا گیا اور اقبال جرم کیا۔ اس طرح اس نے چار مرتبہ اپنے جرم کا اقبال کرلیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (جرح کیلئے) بلایا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: ’’کیا تم جنون میں مبتلا ہو‘‘؟ ’’نہیں! ‘‘ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا: ’’کیا تم شادی شدہ ہو؟‘‘ اس نے کہا: ’’ہاں؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !‘‘ اس پر آپؐ نے لوگوں کو حکم دیا: ’’اسے لے جاؤ اور سنگسار کردو‘‘۔
    حضرت ابن عباسؓ نے جرح کے دوران کچھ اور سوال و جواب بھی روایت کئے ہیں:
    ’’آپؐ نے اس سے پوچھا: ’’شاید تم نے صرف اس کا بوسہ لیا تھا یا اسے چھوا تھا یا اس کی طرف دیکھا تھا؟‘‘ ’’نہیں‘‘ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا۔ آپؐ نے نتیجہ نکالا ’’کوئی شبہ چھوڑے بغیر تم نے اسے (جنسی) فعل کیلئے لٹا لیا تھا‘‘۔ اس پر آپؐ نے اس کی سنگساری کا فیصلہ صادر فرمایا‘‘۔
    یہاں مجرم کا اقبالِ جرم اتنا غیر مشتبہ تھا کہ اس کیلئے جرم ثابت کرنے کو کسی تائیدی شہادت یا گواہ کی ضرورت نہ تھی۔ پس عدالت نے اسے سزا دینے کا فیصلہ سنادیا۔
    اقبالِ جرم کیلئے مرد اور عورت میں کوئی تمیز نہیں کی گئی۔ عورتوں کا اقبال جرم بھی ارتکاب جرم کیلئے کافی ثبوت مانا گیا ہے اور ان کی بنا پر بغیر تائیدی شہادت طلب کئے فیصلے صادر ہوئے تھے:
    جہینہ میں سے ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو اپنے جرم زنا کا اقبال کیا۔ اس نے اس کا بھی انکشاف کیا کہ وہ حاملہ ہوگئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ولی کو طلب کیا اور اسے ہدایت کی: ’’اس کو اچھی طرح رکھو، جب بچہ جنے تو مجھے اس کی اطلاع دو‘‘۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ آپؐ نے اس کی سنگساری کا حکم دیا‘‘۔
    چوری کے مقدمہ میں بھی اقبال جرم کو کافی ثبوت تسلیم کیا گیا۔ ابن ماجہ نے چوری کا ایک مقدمہ درج کیا ہے جو ابو امیہ نے روایت کیا ہے:
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو ایک چور لایا گیا۔ چوری کا مال اس کے پاس سے برآمد نہیں ہوا تھا، تاہم اس نے اقبال جرم کیا اور چیف جسٹس کے حضور دو مرتبہ اقبال جرم کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹ دینے کا حکم صادر فرمایا جو کاٹ دیا گیا‘‘۔
    مصالحت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایسے مقدمات بھی پیش ہوئے جن میں ثبوت اور دلائل کا وزن دونوں طرف برابر تھا۔ ایسے مقدمات میں حقیقی قبضہ نے ان کے فیصلہ میں اہم کردار ادا کیا۔ حضرت جابرؓ کا روایت کردہ مندرجہ ذیل مقدمہ بطور نمونہ درج کیا جاتا ہے:
    دو آدمی ایک اونٹنی سے متعلق تنازعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ ان میں سے ہر ایک نے بیان کیا: ’’یہ اونٹنی اس کی تھی اور شہادت پیش کی‘‘۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے حق میں فیصلہ دیا جس کے قبضہ میں در اصل وہ تھی۔
    ایسے مقدمات میں جہاں کوئی شہادت کسی طرف سے بھی پیش نہیں کی گئی تھی۔ عدالت نے فریقین کو راضی کرلیا اور ان کے درمیان مصالحت کردی۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری نے مندرجہ ذیل مقدمہ روایت کیا ہے:
    دو شخصوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دعویٰ پیش کیا۔ ان کے درمیان ایک جانور پر جھگڑا تھا۔ دونوں میں سے کسی کے پاس بھی ثبوت نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ دونوں کے درمیان جانور برابر برابر تقسیم کر دیا جائے۔
    غالباً جانور کی قیمت کے آدھے حصے کے دونوں مستحق قرار پائے ہوں گے۔
    دو شخص ایک کنویں کی کھدائی پر اکٹھے کام کر رہے تھے، ان میں سے ایک نے اپنی کدال اٹھائی اور اس سے اپنے ساتھی کے سر پر ضرب لگائی اور اسے مار ڈالا۔ مقتول کے بھائی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں استغاثہ دائر کیا۔ مدعی کے بیان اور پیش کردہ شہادت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ ایک غیر ارادی قتل تھا۔ اس لئے آپؐ نے مدعی کو ترغیب دی کہ مصالحت کرلے۔ اس پر اس نے مجرم کو معاف کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالحت کی بنا پر مقدمہ کا فیصلہ کر دیا۔
    عدالتی حکم کا نفاذ: ترقی یافتہ، موثر اور کامیاب ترین عدالتی نظام کے بنیادی اصول مقدمات کا جلد تصفیہ، صحیح فیصلہ اور عدالتی فیصلوں کا نفاذ ہے۔ اوپر درج کئے گئے مقدمات اور ان کے فیصلے اس بات کا وافر ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قایم کردہ عدالتی نظام کامیاب ترین اور ترقی یافتہ عدالتی نظام کی شرائط پوری کرتا تھا۔ قانونی مقدمات کا جلد تصفیہ مثبت اثرات پیدا کرنے میں ناکام ہوجاتا ہے جب تک ان کا اطلاق کسی موثر مشینری کے ذریعہ نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی توجہ فرمائی کہ آپؐ کے فیصلوں پر فوری کارروائی سے عمل در آمد کرتی۔ حضرت قیسؓ بن سعد نافذ کرنے والی جمعیت کے سربراہ تھے۔ حضرت ابو بردہؓ بن نیر، انیسؓ اور قرۃؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف فیصلوں کے نفاذ کیلئے مقرر فرمایا۔ مندرجہ بالا مختلف عنوانات کے تحت نمونہ کے طور پر دیئے گئے مقدمات ظاہر کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فیصلے باقاعدہ نافذ ہوئے۔ زانی سنگسار کئے گئے۔ چوروں کے ہاتھ کاٹ ڈالے گئے۔ دیوانی تنازعات کے فیصلے نافذ ہوئے۔ ا س موضوع پر مزید بحث کیلئے ایک اور فیصلہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ اسے حضرت سمرہؓ بن جندب نے روایت کیا ہے:
    انصار میں سے ایک شخص کے باغ میں جو وہاں اپنے خاندان کے ساتھ رہتا تھا، حضرت سمرہؓ ایک کھجور کے درخت کے مالک تھے۔ سمرہؓ باغ میں اپنے کھجور کے درخت کے پاس جاتے رہتے تھے جس سے انصاری کو تکلیف پہنچتی تھی اور انھیں زحمت محسوس ہوتی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ اسے اس کے ہاتھ بیچ دے۔ اس نے انکار کر دیا۔ اس نے اس سے تبادلہ کرلینے کیلئے کہا۔ اس نے انکار کر دیا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنا مقدمہ بیان کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے ہاتھ بیچ دینے کو کہا، اس نے انکار کردیا۔ آپؐ نے اس کا تبادلہ کرلینے کیلئے کہا، اس نے انکار کردیا۔ آپؐ نے اسے تحفتاً دینے کیلئے کہا اور فرمایا کہ اس کے عوض فلاں چیز تمہارے لئے ہے۔ آپؐ نے اسے رغبت دلائی، اس نے انکار کردیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا فیصلہ صادر فرمایا: ’’تم تکلیف پہنچانے والے ہو‘‘۔ پھر آپؐ نے انصاری سے خطاب فرمایا اور حکم دیا: ’’جاؤ اور اس کے کھجور کے درخت کاٹ ڈالو‘‘۔
    مندرجہ ذیل مقدمہ بھی اس موضوع پر مناسب حوالہ ہے:
    الزبیر بن عوّام کا انصار میں سے ایک شخص (حاطب بن ابی بلتعہ، جو غزوۂ بدر میں شریک تھے) سے پانی کے چشمے پر تنازعہ تھا جس سے دونوں اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے تھے۔ انصاری نے کہا: ’’پانی کو بے روک بہنے دو‘‘۔ الزبیر نے ا س کی التجا ٹھکرا دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الزبیر سے کہا : ’’اے زبیر! اپنے کھیت کو پانی دے لو پھر اسے اپنے ہمسایہ کیلئے چھوڑ دو‘‘۔ انصاری غضب ناک ہوگیا اور بولا: ’’اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا اس لئے کہ وہ آپؐ کا چچیرا ہے؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا: ’’اپنے کھیت کو پانی دو، اس کے بعد پانی روک دو، یہاں تک کہ یہ شخص بہتر راہ اختیار کرے‘‘۔
    فیصلہ فوراً نافذ کر دیا گیا۔ عدالتی فیصلہ سے انحراف انصاری کیلئے سزا کا موجب بنا۔ ایسی صورت آئندہ پیش آنے سے روکنے کیلئے مندرجہ ذیل ربانی قانون نازل ہوا:
    ’’تمہارے رب کی قسم! وہ ایمان نہیں لائے جب تک وہ آپس کے تنازعوں میں آپؐ کو جج نہ بنائیں پھر اپنے دلوں میں اس پر کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں جو آپؐ فیصلہ کریں اور اس کی مکمل اطاعت کریں‘‘۔
    بے رو و رعایت عدلیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قایم کردہ عدلیہ کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی غیر جانبداری تھی۔ وہ بے رو و رعایت انصاف کے بنیادی اصولوں کی پابند تھی اور سختی سے قانون کی عمل داری قائم رکھتی تھی۔ کسی شخص کا سماجی، سیاسی یا مذہبی مرتبہ خواہ کتنا ہی بلندکیوں نہ ہوتا، مدینہ کے نظام عدل پر کبھی اثر انداز نہیں ہوا۔ مندرجہ ذیل مقدمہ جو حضرت عائشہؓ نے روایت کیا، نمونہ کے طور پر درج کیا جاتا ہے:
    ’’قریش، مخزوم کی عورت کے متعلق متفکر تھے جس نے چوری کی تھی۔ انھوں نے مشورہ کیا کہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون بات کرے گا۔ انھوں نے کہا: ’’کون ہمت کرسکتا ہے سوائے اسامہ بن زید کے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منظورِ نظر ہیں‘‘۔ اسامہ نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی: ’’کیا تم اللہ کی مقرر کردہ سزا میں مداخلت کرتے ہو؟‘‘ پھر آپؐ کھڑے ہوگئے اور خطاب فرمایا: ’’اے لوگو! تم سے پہلی قومیں تباہ کر دی گئیں کیونکہ جب ان میں سے بڑے سماجی مرتبے والا کوئی چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے اور جب ان میں سے کوئی کمزور چوری کرتا تو وہ اس پر حد نافذ کرتے۔ خدا کی قسم! اگر فاطمہؓ بنت محمدؐ بھی چوری کرتی تو محمدؐ اس کا ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔
موبائل: 9831439068    [email protected]     

تبصرے بند ہیں۔