اگر اب بھی مودی نہ سمجھے تو!

حفیظ نعمانی

یہ تو سب کو معلوم ہوچکا ہوگا کہ راجستھان اور بنگال میں ضمنی الیکشن میں کیا ہوا۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیوں ہوا؟ 26  مئی 2014 ء کے بعد سے ملک میں جو حکومت آئی ہے اس میں ایک مخصوص ذہنیت کے عناصر کو اتنی چھوٹ دی گئی ہے کہ ملک کی شناخت ہی تبدیل ہوگئی۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ مسلمان گائے کا گوشت کھاتے تھے اور یہ بھی دیکھنے اور جاننے والے ابھی ملک میں کروڑوں ہندو ہوں گے جنہوں نے انگریزوں کی حکومت میں اور اس کے بعد بھی کافی دنوں تک ان صوبوں میں گائے کی قربانی کے لئے گایوں کی ہندوئوں کے ہاتھوں خرید و فروخت دیکھی تھی جہاں اس کی قربانی پر پابندی نہیں لگی تھی۔ اور آج بھی اسی ملک میں ایسی ریاستیں موجود ہیں جہاں کی حکومت ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے اور وہاں گائے کی قربانی آزادی کے ساتھ ہورہی ہے۔

اس کے باوجود ان ریاستوں میں جہاں گائے کی قربانی پر پابندی ہے وہاں کے غنڈہ عناصر کو چھوٹ دے دی گئی ہے کہ وہ گئورکشک بن کر جس مسلمان کو گائے لے جاتا ہوا دیکھے اسے پیٹ پیٹ کر مار ڈالے اور پولیس کے سپاہی سے لے کر وزیر داخلہ تک سب اسے اتنی اہمیت بھی نہ دیں جتنی کسی جانور کو بے رحمی سے مارنے پر دی جاتی ہے۔ ان ریاستوں میں سب سے آگے راجستھان ہے جہاں یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کسی سیاسی پارٹی کی حکومت ہے یا گئو رکشکوں کی۔

ہم نہیں کہتے کہ کوئی مسلمان گائے کاٹنے کے لئے نہیں لے جاتا۔ لیکن یہ تو ہر ہوشمند انسان سمجھتا ہے کہ اگر کوئی گائے 20  ہزار روپئے میں خریدکر لئے جارہا ہے وہ اگر اسے قصائی کو فروخت کرنا چاہے گا تو کون قصائی 25  ہزار میں اسے خریدے گا؟ اور یہ بات سڑک پر گھومنے والے آوارہ لفنگوں کے طے کرنے کی ہمت کیسے ہوگئی؟ اور اگر یہ بھی فیصلہ ہوگیا کہ گائے کاٹنے کے لئے لے جارہا تھا تو جب تک اس پر چھری نہ چلے جرم کیسے ہوگیا؟ لیکن راجستھان اور دوسرے ان صوبوں میں جہاں مودی نوازوں کی حکومت ہے وہاں نہ صرف غنڈوں کا راج ہے بلکہ وہی عدالت ہیں اور وہی جلاد کا فریضہ بھی ادا کرتے ہیں۔

 ایسے واقعات پر حکومت کی چشم پوشی بلکہ نامردی کا ہی نتیجہ تھا کہ رانی پدماوتی اور علاء الدین خلجی پر بننے والی فلم کو راجپوتوں نے گائے بنالیا اور فلم بنانے والوں کو مسلمان مان کر اس کے خلاف وہی غنڈہ گردی شروع کردی جو گئو رکشک آئے دن کیا کرتے ہیں اور حکومت ان سے اتنی خوفزدہ ہوئی کہ اس نے بھی اعلان کردیا کہ وہ ریاست میں اس کو دکھانے کی اجازت نہیں دے گی۔ بات جب بگڑی تو جو ہوا وہ سب کو معلوم ہے لیکن جب سپریم کورٹ نے بھی دو بار حکم دیا کہ فلم پر پابندی نہ لگائی جائے تب اور زیادہ غنڈہ گردی ہوئی اور کہا گیا کہ سب سے بڑی عدالت جنتا ہے اور وہ ہم ہیں۔

اگر اس وقت مودی جی ایک وزیراعظم اور ملک کے سب سے بڑے اور اپنے نزدیک سب سے محبوب لیڈر کی حیثیت سے درمیان میں آجاتے تو آج راجستھان میں انہیں اور محلوں کی رانی کو اتنا ذلیل نہ ہونا پڑتا کہ وہ اس پارٹی سے ہارے ہیں جسے چار سال پہلے انہوں نے نیست و نابود کرنے کا نعرہ دیا تھا۔ ہار تو بنگال کی بھی شرمناک ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کے صدر امت شاہ نے بنگال میں زہر کی کھیتی کرنے کی بہت کوشش کی اور ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کیا، ایک وزیر کو صرف بنگال میں نفرت پھیلانے پر مقرر کیا مگر وہاں بھی منھ کی کھانی پڑی۔

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستان نے چار برس تک زہر کی کھیتی کے باوجود اسے قبول نہیں کیا اور ان تمام کھیتوں میں باہمی محبت کے پھول ہی کھلے۔ اور راجستھان سے لے کر بنگال تک سب نے کہا کہ حکومت کا بنایا ہوا سینسر بورڈ اور ملک کی سب سے بڑی اور محترم عدالت سپریم کورٹ ہی ہے۔ مودی جی کو کہاں فرصت ہے کہ وہ ٹی وی کے مذاکرے بیٹھ کر سنیں لیکن ہمیں فرصت بھی تھی اور دلچسپی بھی ہم نے سب کچھ دیکھا بھی اور سنا بھی کہ مذاکرہ میں حصہ لینے والے کرنی سینا اور راجپوتوں کو آتنکی اور آتنک وادی کہہ رہے ہیں اور سننے والے راجپوت آگ بگولہ ہورہے ہیں کہ ہم راجپوتوں کو آتنک وادی کہا؟ آخرکار جنتا کی عدالت نے فیصلہ کردیا کہ گئو رکشک ہوں یا پدماوت کی مخالفت کرنے والے راجپوت  وہ سب کو آتنک وادی سمجھتے ہیں۔

ہم نہ کانگریسی ہیں اور نہ کانگریس کی حکومت چاہتے ہیں ہم نے بھی 2014 ء میں دل کھول کر کانگریس کی مخالفت میں لکھا تھا لیکن چار سال تک مودی سینا نے جو کچھ کیا وہ کرنی سینا سے کم نہیں تھا اور اس کا نتیجہ ہے کہ ہم راجستھان کے ان ہندو دوستوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ثابت کردیا کہ مودی جی کامیاب وزیراعظم نہیں ہیں وہ بس الیکشن لڑانے والے لیڈر ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ صدر کا جو خطبہ انہوں نے لکھوایا اور آخری بجٹ جو پیش کیا وہ انتخابی تقریریں ہیں جن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ 2014 ء سے اب تک جو جو کرنے کو کہا تھا اس میں کتنا کردیا اور اب ایک سال میں کتنا اور کرنا ہے؟ بلکہ آج سے لے کر 2022 ء تک کا بتادیا کہ وہ کیا کیا کریں گے یعنی وعدہ اور وعدہ اور وعدہ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔