اگر ہندو دھرم میں بھی پردہ ہوتا تو یہ نہ ہوتا

حفیظ نعمانی

ربّ کریم کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے مسلمان عورتوں کو پردہ میں رہنے کا حکم دیا اور رشتہ داروں کے بارے میں قرآن عظیم میں واضح طریقہ سے بتا دیا کہ کون کون محرم ہے اور کون نامحرم اور جو محرم ہے اس سے پردہ نہیں ہے اور جو نامحرم ہے اس سے ایسا ہی پردہ ہے جیسے غیرسے۔ اگر اسلام میں بھی پردہ نہ ہوتا تو ہمارے بزرگوں کی خانقاہوں میں اور بزرگوں کے مزارات کے سجادہ نشینوں کے ٹھکانوں سے ایسی ہی لڑکیاں نکلتیں جیسے ہندو بابا کہے جانے والے اور اپنے کو بھگوان کہلانے والوں کے ڈیرہ سچا سودا یا احمد آباد کے باپ اور بیٹے یا دہلی کے بابا کے محلوں سے نکل رہی ہیں۔

اپنے کو رام رحیم کہلانے والے ہوں یا ملک کے چپہ چپہ پر بسے ہوئے بابا کے پاس کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیاں خود چلی جائیں یہ تو ذہن قبول نہیں کرتا۔ تو پھر وہ کیسے باپ ہیں جو اپنی عمر کے اعتبار سے سرکاری پیمانہ سے نابالغ اور طبیعت کے اعتبار سے بالغ لڑکیوں کو کسی بھی بابا کے پاس چھوڑ جاتے ہیں ؟ لڑکی کا باپ ہو یا لڑکے کا وہ مرد ہوتا ہے اور جانتا ہے کہ مرد کے پاس اگر غیرلڑکی ہو تو اس کے جذبات کیا ہوتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر مرد یا ہر عورت ایک جیسی نہیں ہوتی جیسے کوئی جسمانی طاقت میں ممتاز ہوتا ہے ایسے ہی بعض لوگ جنسی طاقت میں ممتاز ہوتے ہیں لیکن ایسا کوئی نہیں ہوتا جو اجنبی لڑکی کو اپنے پاس رکھے اور اسے سگی بیٹی کی طرح دیکھے جو کوئی جھاڑ پھونک کے بارے میں مشہور ہوجاتا ہے اس کا بھی کام یہ ہے کہ کوئی لڑکی اگر لائی جائے تو پڑھ کر پھونک دے یا پانی کو دم کرکے دے دے لیکن ماں باپ کے بغیر اپنے پاس رکھنے والا کوئی بھی ہو پارسا نہیں ہوسکتا۔

ڈیرہ سچا سودا کا رام رحیم جب جیل بھیج دیا گیا تو ڈیرے کو خالی کرانے کی مہم شروع ہوئی اور پولیس نیز خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں نے پورے ڈیرے کی تلاشی لی اور ایسی سرنگ برآمد کی جو اسی عمارت میں کھلتی تھی جہاں نئی لڑکیاں رہتی تھیں۔ میڈیا کے نمائندوں نے اس کے بارے میں جو کچھ کہا وہ آپ کو بھی معلوم ہے۔ ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اپنا مختصر سا سامان لے کر ایک آدمی باہر جارہا تھا اسے تعلیم یافتہ سمجھ کر میڈیا کے نمائندے نے معلوم کیا کہ کہاں جارہے ہو؟ اس نے کہا کہ ہم تو زندگی بھر رہنے اور خدمت کے لئے آئے تھے اور گھر پر لکھ کر دے آئے تھے کہ ہمارے مرنے جینے کی ذمہ داری کسی کی نہیں ہوگی لیکن پولیس خالی کرا رہی ہے۔ ٹی وی کے نمائندے نے معلوم کیا کہ جو کچھ سامنے آیا ہے اس کے بعد بھی یہیں رہنا چاہتے ہو؟ تو اس کا جواب تھا کہ وہ بھگوان ہیں خدا ہیں وہ جو چاہیں کریں بھگوان ہی رہیں گے۔

ہم تو اپنی مجبوری کی وجہ سے دنیا سے کٹ گئے ہیں کوئی ہندو دوستوں سے معلوم تو کرے کہ ہر بابا بھگوان کیسے ہوجاتا ہے جو جوان لڑکیوں سے کہتا ہے کہ تم سے جو پاپ ہوگیا ہو وہ پورا پورا لکھ کر دے دو میں تمہیں معاف کردوں گا۔ بھگوان کیسے بنتے ہیں رام رحیم تو سکھ ہے وہ اگر بھگوان ہے تو جتنے گرو گذرے ہیں جن کو سارے سکھ مانتے ہیں رام رحیم ان کا بھی بھگوان ہوگیا وہ فلمیں بھی بناتا رہا ناچتا گاتا اور اچھل کود بھی مچاتا رہا پھر بھی ہریانہ اور پنجاب کی حکومت کروڑوں روپئے اسے دیتی رہی اور سونیا گاندھی کی حکومت میں اسے زیڈ پلس سیکوریٹی دی گئی اور کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ بھگوان دوسروں کی حفاظت کرتا ہے یا اپنی حفاظت پولیس سے کراتا ہے؟ 10  سال ڈاکٹر منموہن سنگھ بھی یہ تماشہ دیکھ کر چلے گئے اب چار سال سے مودی جی بھی دیکھ رہے ہیں اور اتنی ہمت نہیں کرتے کہ جو کوئی بھگوان بنا بیٹھا ہے اس سے کہیں کہ یا تو دسمبر کے باقی دنوں میں دہلی کے اندر لو چلاکر دکھائو ورنہ جیل جاکر چکی پیسو۔ اس وقت دہلی اور دوسرے شہروں میں بابا وریندر دیو دکشت کے خفیہ ٹھکانوں پر چھاپے مارے جارہے ہیں شہرت یہ ہے کہ لڑکیاں برآمد ہورہی ہیں اور یہ بھی ہے کہ نشہ آور دوائیں اور دوسرا قابل اعتراض سامان بھی نکل رہا ہے اور یہ بھی ہے کہ کچھ لڑکیاں آشرم سے نہیں جانا چاہتیں۔

حیرت اس پر ہے کہ برس گذر جاتے ہیں کہ ایک بابا ایک کمرہ سے اپنی دُکان شروع کرتا ہے اور دیکھتے دیکھتے وہ آس پاس کی زمین خرید کر اسے بڑھاتا ہے پھر ایسا بناتا ہے کہ اندر سیکڑوں مرد اور عورتیں بالغ اور نابالغ لڑکیاں آجاتی ہیں اور چاروں طرف لوہے کی دیوار کھڑی ہوجاتی ہے۔ اور وہ پولیس جو دن رات سب کچھ دیکھ کر رپورٹ کرتی ہے وہ اس عمارت کی طرف سے اس لئے آنکھ بند کرلیتی ہے کہ کیا خبر بھگوان واقعی بھگوان ہو اور اسے نقصان پہونچادے۔ اور ہوسکتا ہے کہ یہ بھی سوچتا ہو کہ وہ بھگوان خوش ہوکر اسے انسپکٹر بنا دے؟

وہ تو گائوں کا لڑکا ہے اگر اس کی سوچ ایسی ہے تو ہوسکتی ہے لیکن حکومت کو کیا ہوگیا ہے کہ گلی گلی بھگوان بنے بیٹھے ہیں لیکن جب تک کوئی عدالت میں فریاد نہ کرے اور وہاں سے پھٹکار نہ لگائی جائے ان ڈھونگی بھگوانوں پر کوئی ہاتھ ہی نہیں ڈالتا۔ یہ تو اب ناممکن ہے کہ سناتن دھرم میں پردہ لازمی کردیا جائے لیکن حکومت اتنا تو کرسکتی ہے کہ غیرمرد وہ چاہے کتنا ہی بڑا بابا ہو اس کے پاس غیرعورت وہ کسی بھی عمر کی ہو رات کو نہیں رہے گی اور بابا کے پاس صرف اتنی دیر رہے گی جتنی دیر علاج کے لئے ضروری ہو۔ بابا کے ساتھ ناچنا گانا اور سونا یا بابا کے ڈیرے میں رہنا جرم قرار دے دیا جائے اور یہ بھی دیکھا جائے کہ یہ دولت کہاں سے آتی ہے اور یہ پیسوں کے بدلے میں کیا دیتے ہیں ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔