اہل فلسطین کی پامردی: ظالم و جابر اور بے کردار مسلم حکمرانوں کو پیغام

عمیر کوٹی ندوی

اسرائیل کی طرف سے فلسطین پر ظلم وجور اور اہل فلسطین کے خلاف تشدد کے مظاہرہ کا جو حالیہ سلسلہ شروع ہوا ہے اسے فلسطینی عوام کے پائے ثبات کو جنبش دینے میں پورے طور پر ناکامی ہاتھ آئی ہے۔ فلسطینی عوام نے پامردی کے ساتھ مزاحمت اور ظلم وجور کے سامنے سینہ سپر ہو کر  صہیونی عزائم  کی ناکامی کا مژدہ سنا دیا ہے۔ میڈیا میں یہ  خبر آئی ہے کہ فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کی مشرقی سرحد پر جمع ہونے والے فلسطینی مظاہرین کی طرف سےپھینکے گئے کاغذی جہازوں کی وجہ سے اسرائیلی ریاست سخت پریشان ہے اوراسے اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

اسی طرح فلسطینی عوام نے اس بار بھی 5؍جون کو51ویں’یوم نکسہ’منا کر ایک بار پھر یہ پیغام دے دیا ہے کہ انہوں نے 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کو بھلایا نہیں ہے اور نہ وہ دنیا کو اسے بھولنے دیں گے۔ اسی طرح فلسطین کےعلاقے غزہ کی پٹی میں 8؍جون کو جمعہ کے روز ‘عالمی یوم القدس’ کے موقع پر لاکھوں افراد نے مشرقی سرحد کی طرف مارچ کیا۔ اس موقع پر قابض اسرائیلی فوج کی طرف سے نہتے فلسطینی مظاہرین پر طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا گیا۔ اسرائیلی فوج نے ڈرون طیاروں کے ذریعے آنسوگیس کی شیلنگ، براہ راست فائرنگ اور دھاتی گولیوں کا استعمال کیا۔ اس کے باوجود فلسطینی عوام نے ‘یوم القدس’ مناکر اور اس موقع پر  نہتے مظاہرین میں سے دوفلسطینیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ  پیش کرکے اور 600سے زائد نے شدید چوٹیں کھا کر اپنی ثابت قدمی کا ثبوت پیش کردیا ہے۔

فلسطینی عوام نے اپنے عمل کے ذریعہ یہ پیغام دے دیا ہے کہ  ارض فلسطین اور قبلۂ اول کی بازیابی کے مشن کو کسی بھی صورت وہ بھلانے کو تیار نہیں ہیں اور اس کے لئے وہ ہر ممکن قربانی دے رہے ہیں۔ اسی طرح ماہ صیام کے آخری جمعہ کی نماز مسجد اقصی میں ادا کرنے کے لئے 280000فلسطینیوں کا وہاں پر پہنچنا اور نماز ادا کرنا کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ خاص طور پر اس صورت  میں جب فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں جانے سے روکنے کے لئے طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کردی گئی تھیں، چالیس سال سے کم عمر لوگوں کے داخلہ پر پابندی عائد کردی گئی تھی اور میڈیا رپورٹوں کے مطابق  بے جا رکاوٹوں اور چیک پوسٹوں کی وجہ سے مقبوضہ بیت المقدس کو فوجی چھاونی میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ اسرائیلی فوج کی رکاوٹوں اور دیوار کو عبور کر اور آنسو گیس کے شیل، بم اور ربڑ کی گولیوں کا سامنا کرتے ہوئے  لاکھوں فرزندان توحید نے نماز جمعہ مسجد اقصی میں ادا کر کےاور مسجد اقصی کے امام محمد سالم نے خطبۂجمعہ میں اسرائیلی رکاوٹیں عبور کر کے مسجد اقصی میں آنے والے تمام فلسطینیوں کے مذہبی جوش و جذبے کی ستائش  کر کے  یہ پیغام دیدیا ہے کہ وہ  چراغ مصطفوی  کو کسی صورت بجھنے نہ دیں گے۔ اللہ کے دین، اس سرزمین کی حفاظت جی جان سے کریں گے جس کو اللہ نے بابرکت قرار دیا ہے۔ وہ   قبلۂ اول کی حفاظت کے لئے  اپنے حصہ کی کوشش کرتے رہیں گے۔

‘یوم القدس’ کے موقع پر عالم اسلام میں بھی فلسطینیوں سے اظہاریکجہتی کےمظاہرے کئے گئے۔ 8؍جون کو جمعہ کے روزفلسطین سمیت پوری مسلم دنیا میں لاکھوں افراد نے ہزاروں مقامات پرفلسطینیوں کی حمایت میں جلوس نکالے اور ریلیاں منعقد کیں۔ اس روز عراق سمیت کئی عرب ممالک، ایران، پاکستان، انڈونیشیا، ملیشیا اور دوسرے ممالک میں ‘یوم القدس’ کی مناسبت سے ریلیاں نکالی گئیں۔ اس موقع پر علماء اور آئمہ نے مظلوم فلسطینی قوم کے حقوق اور ان کے مسائل پر روشنی ڈالی،لاکھوں فرزندان توحید نے فلسطینی عوام کی آزادی اور مظالم سے نجات کے لیے دعائیں کیں۔ مظاہروں کے دوران مقررین نے صہیونی ریاست اور امریکی پالیسیوں کی بھی شدید مذمت کی۔

اس موقع پر القدس کے دفاع کے لیے موثر حکمت عملی وضع کرنے، عرب لیگ، اوآئی سی اور دیگر عالمی تنظیموں کی فلسطین کے بارے میں منظور کردہ قراردادوں پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد کرنے پر زور دیا گیا۔ ایک عرصہ سے ماہ صیام کے آخری جمعہ کو عالمی یوم القدس کے طورپر منایا جاتا ہے۔ یہ لوگوں کا جوش وخروش اور جلوس وریلیاں عام مسلمانوں کی طرف سے تھیں اور اظہاریکجہتی کےمظاہرے مسلم عوام کر رہے تھے۔ اس میں مسلم حکومتوں اور حکمرانوں کا کوئی رول نہیں تھا۔  البتہ اس مسئلہ اور ‘ عالمی یوم القدس’ کے اہتمام وعدم اہتمام ، دلچسپی و عدم دلچسپی، شرکت وعدم شرکت میں مسلم حکومتوں اور حکمرانوں سارا زور سیاست کرنے پر تھا۔ کہیں ‘عالمی یوم القدس’ کا کریڈیٹ لینے اور اپنے ہاتھوں  اپنی پیٹھ تھپ تھپانے کی کوشش ہورہی تھی تو کہیں اس کے پس پردہ توسیع پسندی کو تلاش کرنے اور اس کی مزمت کرنے کی کوشش ہورہی تھی۔

 سب جانتے ہیں کہ یہ دونوں ہی کوششیں فلسطینی کاز کو فائدہ تو نہیں پہنچاسکتیں۔ ہاں نقصان ضرور پہنچا سکتی ہیں بلکہ پہنچارہی ہیں۔ اسی ضمن میں مسلم حکومتوں اور حکمرانوں کی امریکہ نوازی اور اسرائیل دوستی کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔  کسی کے تعلق سے باتیں ہورہی ہیں کہ اس کی امریکہ نوازی  اور اسرائیل سے قربت علی الاعلان ہے تو کسی کے تعلق سے درپردہ امریکہ و اسرائیل  سے رشتے قائم کرنے کی  باتیں ز بان پر گردش کررہی ہیں۔  ان باتوں میں کس حدتک صداقت ہے یہ تو وقت خود بتا دے گا۔ لیکن اس سے مسلم حکومتوں اور حکمرانوں کی سوچ اور دلچسپیوں کا پتہ ضرور چلتا ہے۔ اس کے ظاہر میں جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ اس کا راست فائدہ ان ہی کو پہنچتا ہے جن کو رات ودن برا کہا جاتا ہے اور جن کا نام لے لے کر اقتدار اور مفادات کی روٹیاں سیکی جاتی ہیں۔ اس سےاہل فلسطین کو راحت کی چند سانسیں تو نصیب نہیں ہوتی ہیں ہاں ان کے لئے مشکلوں کا مزید سامان ضرور فراہم ہوجاتا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان فلسطینی عوام کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔ اسرائیل کو حوصلہ ملتا ہے اور وہ امریکہ کی سرپرستی میں بے خوف ہوکر اپنے جرائم میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔

بہر کیف عالم اسلام کے مسلمانوں کا اجتماعی طور پر عالمی سطح پر فلسطینی کاز اور فلسطینی عوام سے اظہار یک جہتی کرنا اور ان کے لئے اٹھ کھڑا ہونا ، اسی طرح فلسطینیوں کا پامردی کے ساتھ ظلم وجور کے خلاف کھڑا رہنا ز بان حال سے ظالم کو بھی پیغام دے رہا ہے اور بے کردار مسلم حکومتوں اور حکمرانوں کو بھی خبردار کررہا ہے اور یہ مژدہ بھی سنا رہا ہے کہ حق پر جمے رہنے والے اللہ کے کرم کا مشاہدہ کررہے ہیں اور  اللہ کی مدد ان سے دور نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں۔