ایران بھارت دفاعی تعلقات

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

     ایران کے ساتھ بھارت کی سفارتی تاریخ 15مارچ 1950ءسے شروع ہوتی ہے۔سرد جنگ سے پہلے تک دونوں ملکوں کے تعلقات بہت اچھے رہے،لیکن سرد جنگ کے آغاز سے ہی چونکہ بھارت کی قیادت روس کی گود میں بیٹھی تھی اور ایران کاشہنشاہ اپنی پوری شان و شوکت کے باوجود امریکہ بہادر کا درباری راگ نواز تھا اس لیے دونوں ممالک کے تعلقات سردمہری کاشکار رہے۔1970میں شاہ ایران نے بھارت کادورہ بھی کیالیکن بات کچھ آگے نہ بڑھ سکی۔سرد جنگ نے جیسے ہی جہادکے میدانوں کو گرم کیاتب ہی ایران کی تاریخ نے بھی صدیوں بعد انقلاب کا چہرہ دیکھااوریہ انقلاب بظاہرشہنشائیت کے خلاف تھا لیکن حقیقتا”ََمرگ برامریکہ “اس انقلاب کاعنوان تھا اس لیے امریکہ ایران تعلقات کسی اندھے کوئیں کی نذر ہوگئے۔1979ءکے بعد ایران کی نئی مذہبی قیادت نے ایک بار پھر دہلی سرکار کے دروازے پر دستک دینا شروع کی اور سالہاسال سے جمی برف پگھلنے لگی۔خطے کے حالات کچھ اس سرعت سے بدلتے گئے کہ ایران اور بھارت تےزی سے ایک دوسرے کے قریب تر آتے چلے گئے۔ایران عراق جنگ میں پاکستان نے ایک اسلامی ملک کی حیثیت سے فریقین میں صلح جوئی کی سرتوڑ کوششیں کی تھیں لیکن بھارت نے کھل کرایران کاساتھ دیاکہ امت مسلمہ میں صلح جوئی کامادہ بھارتی قیادت کو برداشت نہیں تھا۔افغانستان میں طالبان کی حکومت کے دوران میں ایران اور بھارت ایک بار پھربغل گیرہوگئے کہ طالبان کی مسلکی وابستگیاں ایران کو برداشت نہیں تھیں۔پاکستان چونکہ طالبان کی پشت پر تھا اس لیے طالبان مخالف قوتوں کی مددنے ایران کو مسلک کی بنیاد پر اور بھارت کو پاکستان دشمنی کی بنیادپر اکٹھاکردیا۔دہلی اورتہران کے درمیان دوستی کی پینگیں بڑھتی رہیں یہاں تک کہ دسمبر2002ءمیں بھارت ایران پہلے دفاعی معاہدے پر دستخط بھی ہوگئے۔”جنوبی ایشیائی تجزیاتی تنظیم“(South Asia Analysis Group)کے تجزیے کے مطابق بھارت دنیا کی چوتھی بڑی اثنا عشری اکثریت رکھتاہے،تب ایران جیسا ملک اس شرح کو کیسے نظر انداز کر سکتاہے۔
    ایران بھارت دفاعی معاہدوں کی کہانی کچھ یوں ہے کہ اپریل 2001میںنسلی امتیازات کے خاتمے کی کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی چارروزہ سرکاری دورے پر تہران پہنچے۔10اپریل کو بھارتی وزیراعظم اور ایرانی صدرمحمدخاتمی نے ”تہران اعلامیہ“نامی ایک یادداشت پر دستخط کیے۔اس یادداشت میں دفاع کابراہ راست کوئی ذکرتونہیں کیاگیالیکن علاقائی استحکام کے نام سے اور سرحد پار دہشت گردی کے ذکر سے اس معاہدے کے مندرجات کااندازہ کیاجاسکتاہے۔اس معاہدے سے پہلے کم و بیش چالیس منٹوں تک دونوں راہنماو¿ں نے علیحدگی میں ملاقات کی اور پھر وفود کے ساتھ مزاکرات کیے۔24جون2002ءکوایرانی سلامتی کونسل کے راہنماحسن روحانی دہلی پہنچے۔انہوں نے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے دفاعی امور پر تبادلہ خیالات کیا اور انہوں نے اپنے بیان میںکہا کہ اگرچہ ایک سال قبل ایران اور بھارت میں ایک دفاعی معاہدہ ہوچکاہے لیکن اب اس کو توسیع دینے کی ضرورت ہے۔9نومبر2002ءکو ایران اور بھارت کے درمیان ایک اور معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت سائینس اور تیکنالوجی کے میدان میں دونوں ممالک ایک دوسرے سے بھرپور تعاون کریں گے،بھارتی وزیر مورلی منوہرجوشی اور ایرانی وزیر برائے سائینس و تکنالوجی وتحقیق مصطفی معین نے تہران میں اس معاہدے پردستخط کیے۔19جنوری 2003ءکو بھارت کے مشہور اخبار ”دی ہندو“نے ان پے درپے معاہدوں پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ماضی میں اگرچہ پاکستان اور ایران کے تعلقات بہت اچھے رہے ہیں لیکن اب ایران کے تعلقات کاواضع جھکاو¿بھارت کی طرف ہوتا نظر آتاہے۔
    جنوری2003ءمیں ایرانی صدرمحمدخاتمی نے بھارتی یوم جمہوریہ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی ،یادرہے کہ اس تقریب کا مہمان خصوصی بھارت کے بہت قریبی بہی خاہوں میں سے ہوتا ہے اورکوئی ہماشمااس دن کے مہمان کے طورپر نہیں بلایا جاتا۔اس دورے کے دوران ایرانی صدر اور بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے ”اعلان دہلی “نامے معاہدے پر دستخط کیے۔اس معاہدے کی رو سے بھارت اور ایران ایک دوسرے کے ”دفاعی ساجھی“بن گئے۔دوماہ بعد ایرانی بحریہ اور بھارتی بحریہ نے مشترکہ جنگی مشقیں بھی کیں۔مشقوں کے اختتام پرایران نے بھارت سے جنگی ہتھیاروں کی ایک کھیپ خریدی اور اور بھارت نے ایران سے وعدہ کیا کہ ایرانی فوجی افسران کی تربیت کاانتظام بھی بھارت کی طرف سے یقینی طورپر کیاجائے گا۔اس کے بعد سے توگویاایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس میں فوجی افسران کا آناجانا اور حساس معلومات کاتبادلہ تہران اور دہلی کے درمیان ایک معمول کی کاروائی کے طور پر چلتارہاہے ۔اسی دوران بھارتی فضائیہ کے تکنیکی کارندوں نے ایران کے پاس موجود روسی ساختہ جنگی ہوائی جہاز مگ29کی مرمت جیسا بہت بڑا منصوبہ بھی مکمل کیا۔
    اخباری اطلاعات تویہاں تک بھی ہیں کہ بھارت نے ایران سے یہ بھی منوا لیاہے کہ اگرپاک بھارت جنگ چھڑ گئی تو ایران اپنے فوجی اڈے بھی بھارتی افواج کے لیے کھول دے گا۔شاید اس لیے کہ جنوبی مشرقی ایران کی ”چابہار“کی بندرگاہ جو پاکستان سے محض پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور خلیج میں واقع ہے جبکہ کھلے سمندروں تک جانے کا اپنے علاقے میں واحد راستہ ہے،اس بندرگاہ میں بھارتی دلچسپی کی وجہ نوشتہ دیوار ہے۔اس بندرگاہ کی تعمیرجدید کے لیے ایران اور بھارت کے درمیان پچاسی ملین ڈالرزکامعاہدہ طے پایاہے جس کے مطابق ”کاندلہ پورٹ ٹرسٹ(KPT)“اور”جواہرلعل نہروپورٹ ٹرسٹ(JNPT)“مل کراس بندرگاہ میں کام کریں گے۔یہ بندرگاہ بلوچستان کے قریب ترین ایرانی صوبے سیستان میں واقع ہے اور 1990ءسے بھارت اس بندرگاہ میں دلچسپی رکھتاتھا ۔2002ءمیں بھارت اور ایران میں معاہدہ ہوا کہ مل کر اس بندرگاہ کو گہرے پانیوں کی بندرگاہ بنائیں گے۔ماضی قریب میں ایران اور بھارت نے ایک اور معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں جس کے مطابق ”چابہار“کی بندرگاہ سے بھارت کوافغانستان تک براہ راست رسائی دی جائے گی۔15اگست2015کو ایرانی وزیرخارجہ محمدجواد ظریف نے نئی دہلی کادورہ کیااور بھارتی وزیراعظم نریندرمودی سے ملاقات بھی کی۔اس ملاقات کا سرفہرست نقطہ بھی چابہارکی بندرگاہ کی ترقی مزیدتھی۔اس دورے کے دوران ایرانی وزیرخارجہ نے بھارتی وزیربرائے کشتی رانی سے بھی ملاقات کی۔بھارت کو زمینی راستے سے افغانستان جانے کے لیے پاکستان کامحتاج ہونا پڑتاہے ،چابہار کی بندرگاہ کے راستے بھارت کو افغانستان تک ایسی رسائی حاصل ہوگی جس میں وہ پاکستان کامحتاج نہیں رہے گا۔کیابھارت اس معاہدے کاپابندرہے گاکہ وہ اس راستے کو صرف بطور راہداری ہی استعمال کرے گا؟؟؟۔بھارت کے معاہدوں کی حقیقت سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں،وہ افغانستان تک رسائی کے بہانے کیاکیاگل کھلاتاہے اور کھلارہاہے جب کہ اس راستے کی بغل میں پاکستان بھی موجود ہے،اس کااندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔
    ”چابہار“میں ایران بھارت مشترکہ منصوبے کے نتیجے میں بھارت کئی طرح کے فائدے حاصل کرسکتاہے۔سب سے بڑا فائدہ تواسے یہ ہوگا کہ پاکستان میں گوادرکی بندرگاہ وہ غیرموثر کردے گا۔گوادر کے ذریعے پاکستان جس بحری تجارتی شاہراہ کے خواب دیکھ رہاہے ،”چابہار“کی بندرگاہ پر بھارتی قبضہ اس خواب کوکبھی شرمندہ تعبیر نہ ہونے دے گا۔”چابہار“پر تسلط کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ بھارت کو مشرق وسطی تک بہت ہی مختصر فاصلے کی تجارت حاصل ہو جائے گی جس سے عرب ممالک سے تجارتی تعلقات کے ذریعے بھارت اپنی معیشیت کو بہت بڑھوتری فراہم کرسکتاہے۔بھارت کو اس اقدام سے تےسرا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان اورمشرق وسطی کے درمیان بحری،فضائی اور بری،کل آمدورفت اس کی دسترس میں آجائے گی۔چوتھا فائدہ بھارت کو یہ ہوگا کہ آسیان اور مشرق بعید کے ممالک کے ساتھ اس کے تجارتی روابط میں بہت تےزی آ جائے گی اور پانچواں فائدہ اسے چین کے حوالے سے حاصل ہوگا کہ ایران نے چین کو گوادر کی بجائے ”چابہار“کی جو پیشکش کی تھی اب ایران اور چین کی دوری بھارت کے لیے سیاسی فائدے کاباعث بن جائے گی۔بھارت کے سارے فائدے پاکستان کے لیے نقصانات کا باعث ہیں۔بادی النظر میں کہا جاسکتاہے کہ ایران بھارت دفاعی تعلقات کے نتےجے میںوطن عزیزکے مشرق کی طرح مغرب میں بھی رقیب کی ایک آکاس بیل اگ آئے گی ۔ممکن ہے معاہدوں میں صرف معاشی فائدے ہی لکھے ہوں لیکن جب بھارتی کارندے وہاں براجمان ہوں گے تو ان کے حواس خمسہ پر پہرے تو نہیں بٹھائے جا سکتے۔کچھ عرصہ پہلے تک اس بات کاامکان تھا کہ ایران بھارت دفاعی تعلقات پر امریکہ اور اسرائیل اپنے شدید تحفظات کااظہارکریں ،کیونکہ ایٹمی توانائی کے مسئلے پر یہ دونوں ممالک ایران کے ساتھ شدید کھنچاو¿میں رہے ہیں لیکن اب ایران امریکہ تعلقات میں آمد بہارکے بعد اس کے امکانات بھی دم توڑ چکے ہیں۔لے دے کہ چین ہی ایک ملک رہ جاتا ہے جواس وسعت پسندی پر کوئی منفی تاثر دے سکے لیکن چین کی خارجہ پالیسی میں ہمیشہ دفاع سے زیادہ اقتصادیات کو دخل رہا ہے اور چینی قیادت نے دفاع کو صرف اتنی ہی اہمیت دی ہے جتنی کی معاشی استحکام کے لیے ضرورت تھی اس لیے چین کی طرف سے بھی ممکنہ ردعمل کاامکان صفرہی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔