کیا بی جے پی سے ہندوستان کو آزادی دلائے گا عہد حاضر کا ”بھگت سنگھ“؟

سیکولر پارٹیوں کواب کنہیاکمار کا سہارا

 

غوث سیوانی، نئی دہلی

GhAuS pIcان دنوں جے این یو اسٹوڈنس یونین صدر کنہیا کمار سرخیوں میں ہے اور تمام پارٹیوں اس کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہیں۔ جہاں ایک طرف کانگریس اس پر ڈورے ڈال رہی ہے اوراپنے سیاسی مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہے وہیں دوسری طرف عام آدمی پارٹی کی بھی اس پر نظر ہے۔ حالانکہ سب سے پہلے سی پی آئی ایم نے کنہیا پر حق جتایا کیونکہ وہ جس اسٹوڈنٹس یونین کا صدر ہے وہ کمیونسٹ نظریہ کی حامی ہے اور سی لئے بی جے پی کو سب سے زیادہ کھٹکتی ہے۔ ادھر ترنمول کانگریس کی بھی چاہت ہے کہ کنہیا کمار اس کے ساتھ جڑے اور اس کے لئے کام کرے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک کنہیا کمار کس کس سیاسی پارٹی کے لئے بیساکھی بنے گا؟وہ مغربی بنگال میں کمیونسٹوں کے لئے پرچار کرے گا یا ترنمول کانگریس کے لئے؟ وہ کیرل میں کمیونسٹوں کا سہارا بنے گا یا کانگریس کی ناﺅ کا کھیون ہار بنے گا؟کنہیا پنجاب میں عام آدمی پارٹی کے لئے الیکشن ہم چلائے گا وہ آسام میں کانگریس کا الیکشن پرچار کرے گا؟ ان دنوں وہ سبھی پارٹیوں کی نظر میں ہے اور سبھی سیاسی پارٹیاں اسے اپنے سیاسی مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ کسی کو اس کے اندر جے پرکاش نارائن کی تصویر نظر آرہی ہے تو کسی کو اس کے اندر بھگت سنگھ دکھائی دے رہے ہیں جو ملک کو بھاجپا کے چنگل سے آزادی دلاسکتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے خود کنہیا کمار کی سیاسی خواہشات میں بھی اضافہ ہونے لگا ہے اور وہ بھی خود کو ایک بڑا لیڈر سمجھنے لگا ہے۔ کنہیا کمار اچھا مقرر ہے اور اپنی باتیں انتہائی دانشمندی کے ساتھ سامعین کے سامنے رکھتا ہے۔ وہ لوگوں کو اپنی باتوں کے جادو میں قید رکھنا جانتا ہے لہٰذا سبھی سیاسی پارٹیاں اسے اپنے انتخابی پرچار کے لئے استعمال کرنا چاہتی ہیں۔

کدھر جائے گا کنہیا؟

کنہیا کمار جیسے ہی جیل سے رہا ہوا ،اور میڈیا و عام لوگوں سے روبرو ہوا اس نے کہا وہ سیاست میں نہیں جانا چاہتا لیکن اسی بیچ سی پی ایم لیڈر سیتارام یچوری نے کہا کہ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں کنہیا کمار ان کا اسٹار کمپینر ہو گا مگر اب کانگریس ،ترنمول کانگریس اور ”آپ“ بھی اس پر ڈورے ڈال رہی ہےں۔واضح ہوکہ الیکشن کمیشن نے مغربی بنگال سمیت 5 ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کردیا ہے۔ ظاہرہے کہ اس کے بعد سے تمام سیاسی جماعتیں سرگرم ہو گئی ہیں اور اپنا حساب کتاب لگا رہی ہیں۔ مغربی بنگال میں حکمراں ترنمول کانگریس اور لیفٹ کے درمیان مقابلہ ہے، لہذا بائیں بازو والے کوئی کسر چھوڑنا نہیں چاہتے۔ لیفٹ والے جے این یو معاملے میں کنہیا کمار کے مسئلہ سے فائدہ اٹھانے کی تیاری میں ہےں۔ تبھی تو سی پی ایم لیڈر سیتارام یچوری نے کہاکہ بنگال انتخابات میں کنہیا کمار سمیت لیفٹ کے تمام فعال کارکن الیکشن مہم میں حصہ لیں گے۔خاص بات یہ بھی ہے کہ اس بار بنگال میں بی جے پی بھی دم خم کے ساتھ انتخابی میدان میں اتر رہی ہے۔ سیتارام یچوری کے بیان پر ترنمول کانگریس نے ابتدا میں کہا کہ کنہیا کی آمد سے بنگال میں اس کے ووٹ پر کوئی فرق نہیں پڑتا مگر اب خبر ہے کہ خود ترنمول کانگریس اس کوشش میں ہے کہ کنہیا کمار کو اپنے حلقے میں شامل کرے اور اس سے الیکشن پرچار کرائے۔ ظاہر ہے کہ کمیونسٹ اور ترنمول ایک دوسرے کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں لہٰذا یہ ممکن نہیں کہ کنہیا دونوں کے لئے پرچار کرے۔ اس بیچ سی پی آئی ایم کو اندیشہ ہے کہ کنہیا کمار کسی دوسری پارٹی کے پالے میں جاسکتا ہے لہٰذا اس نے کیرل میں کنہیا کو نہ لے جانے کا فیصلہ لیا ہے۔

راہل گاندھی سے کنہیا کی ملاقات

جہاں مغربی بنگال میں کنہیا کو لے کر کھینچ تان چل رہی ہے وہیں دوسری طرف کانگریس نے اس پرڈورے ڈالنے شروع کردئےے ہیں۔ حال ہی میں کنہیا نے کانگریس نائب صدر راہل گاندھی سے ملاقات کی ہے۔ راہل گاندھی سے کنہیا کمار کی ملاقات اس وقت ہوئی ہے جب بی جے پی ششی تھرور کے بیان پر کانگریس کو گھیر رہی ہے۔ راہل گاندھی سے کنہیا کمار کی یہ پہلی ملاقات ہے۔کنہیا کی گرفتاری کے بعد راہل کھل کر جے این یو کی حمایت میں آئے تھے۔ اس سے پہلے کنہیا این ایس یو آئی کے پروگرام میں بھی شامل ہو چکا ہے۔ کنہیا ان دنوں جے این یو معاملے پر حمایت کرنے والے رہنماو¿ں سے ملاقات کر شکریہ ادا کر رہاہے ۔ اس سے پہلے کنہیا کمار کا دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال سے ملاقات کا پروگرام تھا لیکن ٹرافک جام میں پھنسنے کے سبب کنہیا سی ایم کے آفس لیٹ پہنچا اور ان کی ملاقات نہ ہوسکی۔

آسام میں کنہیا کا چہرہ

کانگریس نے فیصلہ کیا ہے کہ آسام اسمبلی انتخابات میں راہل گاندھی نہیں کنہیا کمار ہونگے کانگریس کے ”پوسٹربوائے“۔ اس وقت آسام کے گوہاٹی شہر میں جہاں نظر ڈالیں آپ کو انتخابی اشتہارات دکھائی دینگے اوریہاں کانگریس کے انتخابی اشتہارات میں کنہیا کمار کا چہرہ چھایا ہوا ہے۔ اسی پوسٹر میں حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے طالب علم روہت وےملا کو بھی دکھایا گیا ہے۔ آسامی زبان میں چھپے ان بل بورڈز میں لکھا ہے کہ ’کیا یہی ہیں مودی حکومت کے اچھے دن؟ فیصلہ آپ خود کیجئے“۔حالانکہ غداری کے الزام میں پھنسے جے این یو طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار کی حمایت میں کانگریس نائب صدر راہل گاندھی کے جے این یو جانے پر بی جے پی نے تیکھے حملے کئے تھے اور اب آسام انتخابات میں کانگریس کے اشتہارات میں کنہیا کو دیکھ کر بی جے پی نے حملے اور تیز کر دیئے ہیں۔ اس پوسٹر پر بی جے پی کا کہنا ہے کہ اس سے صاف ہے کہ کانگریس ملک مخالفوں کی حمایت میں ہے۔ بی جے پی کے اس حملے کا جواب دیتے ہوئے کانگریس نے کہا ہے کہ اس کے پاس مسائل کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی کنہیا ان کا ہیرو ہے بلکہ وہ جمہوریت میں مخالفت کی علامت ہے۔

کیا بھاجپا سے ہندوستان کو آزادی دلائے گا یہ بھگت سنگھ؟

ان دنوں کانگریس اور بی جے پی کے بیچ ایک بحث کنہیا کمار اور بھگت سنگھ کو لے کر بھی چل رہی ہے۔پچھلے دنوںکانگریس لیڈر ششی تھرور نے کنہیا کمار کا شہید بھگت سنگھ سے موازنہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ جمہوریت میں لوگوں کو جو صحیح لگتا ہے اسے منتخب کرنے کا حق ہونا چاہئے اور دوسروں کے خیالات کو برداشت کیا جانا چاہئے۔ تھرور نے جے این یو میں تقریر کے دوران کہا کہ بھگت سنگھ اپنے زمانے میں کنہیا کمار تھے۔ ملک میں کشن کنہیا اور کنہیا کمار دونوں کے لئے جگہ ہے۔ ملک کو آج ”کانہا“ کی بھی ضرورت ہے اور ”کنہیا “کی بھی ضرورت ہے۔ جے این یو کے معاملے پر بی جے پی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کانگریس لیڈر ششی تھرور نے کہا کہ قوم پرستی اب صرف اس پرطے ہوتی ہے کہ کوئی شخص ”بھارت ماتا کی جے“کہتا ہے یا نہیں؟ تھرور سے پہلے JNU طلبہ یونین صدر کنہیا نے بھی اجتماع سے خطاب کیاتھا۔ اس نے کہا کہ NSUI کے پروگرام میں تھرور کے ساتھ موجود ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کانگریس جوائن کر رہے ہیں۔ کنہیا نے اپنے انداز میں ایک بار پھر مودی حکومت اور RSS پر تیز حملے کئے۔ بغیر نام لئے انوپم کھیر کو جواب دیتے ہوئے اس نے کہا کہ کسی کی ایکٹنگ اچھی لگتی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے کہنے کے مطابق کسی خاص برانڈ کا تیل خریدیں۔

یوگی کا حملہ

کنہیا کمار کا موازنہ شہید بھگت سنگھ سے کرنے والے ششی تھرور کے بیان پر کہرام مچ گیا ہے ۔شرمناک بیانات کے لئے مشہور بی جے پی رہنما یوگی آدتیہ ناتھ نے کانگریس لیڈر ششی تھرور کے بیان کو شرمناک قرار دیا ہے۔انھوں نے نے کہاکہ کانگریس کنہیا کمار جیسے ملک مخالفوں کا مقابلہ عظیم انقلابی بھگت سنگھ سے نہ کرے۔ تھرور نے ایسا بیان دے کر خود کے ساتھ ساتھ کانگریس پارٹی کو بھی سوالوں کے گھیرے میں لا کھڑا کیاہے۔گورکھپور کے ممبر پارلیمنٹ نے کہا کہ بھگت سنگھ انقلابی تھے۔ وہ ملک کے عظیم محب وطن تھے، جنہوں نے ملک کو انگریزوں سے آزاد کراکر ہمیں آزادی دی ہے۔ غیر ملکیوں کو ملک کی سرزمین پر سے بھگانے کے لیے بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں نے جس انقلاب کی قیادت کی تھی اس پر پورا ملک آج انہیں آئیڈیل مانتا ہے۔ کنہیا کمار اس ملک کی تقسیم اور اس ملک کو کھنڈت کرنے والے اپنے بیانات کے لئے بدنام ہواہے۔ہائی کورٹ میں اس کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے۔ اس لیے بھگت سنگھ جیسے عظیم انقلابیوں سے اس کا موازنہ بہت ہی شرمناک ہے۔

کنہیا کمار حیدرآباد میں

روہت وےملا کی خود کشی کے بعد سے حیدرآباد یونیورسٹی میں مظاہرہ کر رہے طالب علموں سے اظہار یکجہتی دکھانے وہاں پہنچے جے این یو طلبہ یونین صدر کنہیا کمار کو یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہونے نہیں دیاگیا۔ یونیورسٹی میں کشیدگی کے ماحول کے پیش نظر وہاں کیمپس میں کسی بیرونی شخص کے آنے پر پابندی ہے۔ 28 سالہ کنہیا نے یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر ایک مختصر سی تقریر کی ۔ یہاں انہوں نے ”تم کتنے روہت مارو گے، ہر گھر سے روہت نکلے گا“ کے نعرے بھی لگائے۔ انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ پر طالب علموں کی مخالفت اور ان کا حق کچلنے کا الزام لگایا۔ انھوں نے حیدرآباد میں روہت وےملا کی ماں سے بھی ملاقات کی، اور روہت کو ”انصاف دلانے“کا عہد کیا۔ اسی ماہ جیل سے رہا ہونے کے بعد بھی کنہیا کمار نے کہا تھا، روہت وےملا ان کے لئے آئیڈیل ہیں۔ واضح ہوکہ روہت وےملا کی ماں، روہت کے دوستوں، کچھ اساتذہ اور اپوزیشن جماعتوں نے الزام لگایا ہے کہ یونیورسٹی حکام نے پی ایچ ڈی سکالر روہت کو مرکزی وزراءبنڈارو دتاتریہ اور اسمرتی ایرانی کے دباو میں معطل کیا تھا جس پر اس نے خودکشی کرلی تھی۔

کون ہے کنہیا کمار؟

ایک ماہ پہلے تک کنہیا کو زیادہ لوگ نہیں جانتے تھے، لیکن اب ملک بھر میں کنہیا کا نام ہے۔ کون ہے کنہیا؟ آئیے جانتے ہیں۔ کنہیا کمار کی پیدائش بہار کے بےگوسرائے ضلع کے تےگھرا اسمبلی حلقہ میں ہوئی۔اس علاقے میں سی پی آئی کو کافی حمایت ملتی ہے۔ کنہیا کمار کے والدکا جسم فالج زدہ ہے اور وہ کافی سالوں سے بستر پر ہی رہتے ہیں۔اس کی ماں، مینا دیوی، ایک آنگن واڑی کارکن ہیں۔ کنہیا کا بڑا بھائی پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرتا ہے۔ کنہیا کی پڑھائی برونی کے ایک اسکول میں ہوئی۔یہ علاقہ انڈسٹری سے بھرا ہوا ہے۔اسے اپنے اسکول دنوں میں، اداکاری میں دلچسپی تھی اور انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن سے جڑا ہوا تھا۔ 2002 میں کنہیا نے پٹنہ کالج آف کامرس میں داخلہ لیا، جہاں سے اس نے اسٹوڈنٹس سیاست کی شروعات کی۔ کنہیا جغرافیہ میں گریجویٹ ہے اور فی الحال جے این یو سے پی ایچ ڈی کر رہاہے۔ پٹنہ میں پڑھائی کے دوران، کنہیا آل انڈیا اسٹوڈنٹ فیڈریشن کا رکن بنا۔ 2015 میں، کنہیا کمار نے آل انڈیا اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے امیدوار کے طور پر جے این یو طلبہ یونین صدرکا انتخاب جیتا۔ کنہیا کمار اچھا مقرر ہے اور اپنی تقریر کے سبب اس نے انتخاب میں کامیابی پائی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔