ایمان، استقامت اور اتحاد

عالم نقوی

 ویسے تو یکم ستمبر(۲۰۱۸) سے  جاری وحدت اسلامی کی ’ملّت بیداری مہم‘  کا  مرکزی موضوع بھی یہی ہےجو دس ستمبر تک پورے ملک میں جاری رہے گی۔ لیکن، اِس دَس روزہ ملک گیر مہم سے قطع نظر بھی ہر مسلم و مؤمن کے جہاد زندگانی میں ’’ایمان، استقامت اور اتحاد ‘‘ ہی ’ کلیدِ کامیابی‘ ہیں   کہ  بلا تفریق  رنگ و نسل و مذہب و زبان پوری دنیائے انسانیت  کا اَمن   وامان اور صلاح و فلاح بھی اِسی پر منحصر ہے۔

 یہ موجودہ  بد امنی اور فساد فی الارض ہمارے ہی ہاتھوں کی کمائی  ہے کہ ہم  نہ صرف ایمان، استقامت اور اتحاد کا حق ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ اہل ایمان کے دائمی دشمنوں سے رشتہءِ ولایت اُستوار کر کے، رَبُّ العالمین  سے لَولگانے کے بجائے ، بنی آدم کے ’عدوِّ مُبین ‘ کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے میں  مصروف ہیں ! جبکہ ’’حقیقت میں مؤمن تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے اور پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور اپنے مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہی (فی الواقع )سچے لوگ ہیں (الحجرات ۱۵)اور اللہ سبحانہ تعالی ٰ کا واضح حکم قرآن میں موجود ہے  کہ ’’اے ایمان والو! جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو، توقع ہے (کہ پھر ) تمہیں کامیابی نصیب ہوگی (الانفال ۴۵) ’’اور اللہ رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ ۔(آل عمران ۱۰۳)اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ’’مسلمان  مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے نہ اس کو بے یارو مددگار چھوڑے۔ ۔انسان کے شر کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ہر، مسلمان کے لیے اس کا خون، مال اور آبرو تمام مسلمانوں پر حرام ہے ‘‘(مسلم )

لیکن یہ بھی خیال رہے کہ یہ دنیا بہر حال امتحان گاہ ہے اور ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ محض یہ کہہ کر کہ’’ ہم ایمان لائے ‘‘،چھوڑ دیے جائیں گے اور ان کو آزمایا نہ نہ جائے گا ؟حالانکہ ان سے پہلے جس نے بھی ایمان کا دعویٰ کیا ہے ہم نے اُن کو آزمایا ہے۔ اللہ تو یہ ضرور دیکھتا ہے کہ ایمان کے  دعوے میں سچے کون ہیں اور جھوٹے  کون؟(العنکبوت ۲،۳)اور ’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہےکہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اُن لوگوں کے سے حالات پیش ہی نہیں آئے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کو تنگیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا اور ایسے جھنجوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ آخر اللہ کی مدد کب آئے گی ؟ یقین جانو کہ اللہ کی مدد قریب ہے (البقرہ ۲۱۴)رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ’’جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں ان کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں کہ  زمین میں گڑھا کھودا جاتا اور کسی مؤمن کو پکڑ کے  اس  گڑھے میں  کھڑا کر کے اُس کے سر پر اس طرح آرا چلایا جاتا کہ اس کے دو ٹکڑے ہوجاتے۔ لوہے کے کنگھے جسم میں اس طرح چبھوئے جاتے کہ وہ  گوشت سے گزر کر ہڈیوں تک پہنچ جاتے لیکن مؤمنین  اپنے ایمان سے دستبردار نہ ہوتے (بخاری)

ڈاکٹر محب الحق نے بالکل درست لکھا ہے کہ ہم’’ فسطائیت ‘‘(فاشزم)کے اس دور سے گزر رہے ہیں جو مکر و فریب، جھوٹ اور نفرت و عداوت پر مبنی اکثریت کی جارحانہ و ظالمانہ قوم پرستی کے ذریعے  ملک کے سیاسی اقتدار  پر قابض ہونے سے عبارت ہے۔ تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے ایک خاص قسم کا  جاہلانہ تہذیبی شعور  پیدا کرنا، اسلامو فوبیا جیسے مفروضہ خطروں سے ڈرا کر خوف کی نفسیات پیدا کرکے اکثریت کے مذہبی و نسلی جذبات کو بر انگیختہ کرنا، اعلیٰ اخلاقی اقدار سے نفرت ظاہر کرنا اور سماج کے کمزور طبقوں اور اقلیتوں کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کرنا اِس’’فسطائیت‘‘ کی اہم خصوصیات ہیں۔ جس کا مقصد محض سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنا ہی نہیں بلکہ مملکت کے دست و بازو پولیس، فوج، خفیہ ایجنسیوں، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ وغیرہ  ہر ایک کا غیر قانونی اور انسانیت دشمن استعمال ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں قتل عام، نسل کشی، ٹارگٹ کلنگ، ماب لنچنگ (ہجومیت )اس فسطائیت (فاشزم ) کی روح ہیں (وحدت جدید جولائی ۲۰۱۸ ص ۱۳۰)

مولانا عطا ء الرحمن وجدی نے  وحدت جدید کے مذکورہ شمارے کے اداریے میں بالکل درست لکھا ہے کہ ’’مایو سی کسی بیماری کی  دوا نہیں۔ ہندستان میں اسلام اور مسلمانوں کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ۔ ۔ان کے بغیر بھارت کا نقشہ نا مکمل رہے گا (لیکن ) موجودہ (سنگین حالات کو  محض ) تماشائی کی طرح (بھی)نہیں دیکھا جا سکتا۔۔یقینی طور پر ہر ایک کو اپنے تحفظ کے لیے ہر ممکن اور مناسب ِ(حال)  تدابیر اختیار کرنے کا بنیادی حق حاصل ہے۔ ۔قانون کے دائرے میں اپنی حفاظت کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی کی درخواست دی جا سکتی ہے۔ امن و انصاف کے حامی افراد اور تنظیموں سے ( ہر ممکن عملی و با معنی )  ربط  و تعاون کی راہیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ بچوں اور عورتوں کو (لازمی طور پر ) ایسے (تمام ) عسکری فنون سے  (مارشل آرٹ، تیر اندازی وغیرہ  جو  نہ صرف کھیل کود، اسپورٹس  میں شامل ہیں بلکہ جن کے  ایشین گیمس اور اولمپک جیسے ملکی و بین ا لا قوامی مقابلے بھی ہوتے ہیں )  واقف کرایا جا سکتا ہے جو وقت ضرورت کام آسکیں  )لیکن مسئلہ تو’’ موت کی لذت سے بے خبری ‘‘ اور تارک قرآن ہونے کے نتیجے میں ہماری ذلت و خواری ہے،جبکہ ) قرآن کے چند جملے ہی زندگیوں میں انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ موت کا خوف جن کے دلوں سے نکل جاتا ہے اُن سے بڑے  سے بڑا دشمن بھی خوف کھاتا ہے ( نڈر اور بے خوف  غیر مسلح فلسطینیوں اورہر طرح کےجدید ترین و مہلک ترین  آلات ِحرب و ضرب سے لیس صہیونیوں کی مثال تو سامنے کی ہے،یاد رکھیے کہ  )جو مرنے نہیں ڈرتے اُن سے دنیا ڈرتی ہے ( اور مؤمن کی تو شان ہی یہ ہے کہ وہ موت سے ڈرنے کے بجائے اُس کی تمنا کرتا ہے۔ فتمنو ا لموت ان کنتم مؤمنین۔ لیکن یاد رہے کہ مؤمن پر’ حسب ِاستطاعت حصول قوت‘ بھی فرض  ہے۔ الانفال۔ ۶۰۔اور قوت کے جامع ترین لفظ میں ’ذہنی، جسمانی، علمی و معاشی قوت ہی نہیں ، ہر طرح کی خارجی ذرائع دفاع ‘سب شامل ہیں۔ زندگی تو عارضی اور فانی ہے، موت آکر اس مہلت عمل کو ختم کر دیتی ہے مگر ایک موت وہ بھی ہے جو اس عارضی زندگی کو دائمی زندگی بنا دیتی ہے اور وہ شہادت کی موت ہے۔ ۔جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو (بلکہ مردہ سمجھو بھی نہیں ) وہ زندہ ہیں (اور اسپنے رب کے یہاں رزق پاتے ہیں) مگر تم اس حقیقت کا شعور نہیں رکھتے۔( وحدت جدید جولائی ۲۰۱۸ص ۶۔۱۰)

اہل ستم سے جاکر کہہ دو ہم بھی خالی ہاتھ نہیں

دل کی لگی ہے، کوچہء جاں ہے، جانوں کے نذرانے ہیں    

تبصرے بند ہیں۔