استاد: یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

اللہ عزوجل نے حضرت انسان کو باشعور بنایا، عقل وخرد کی بیش بہا خوبی نوازا، جو اسی دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے، یہ تتبع، کھوج اور تلاش وجستجو کی صلاحیت ہے جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے اور اس کو افضل مخلوق بناتی ہے، علم ومعرفت یہ وہ کلید ہے جو انسان کو اعلی درجات کا حامل بناتی ہے، اہل علم ہی قوم ہی باعزت اور بہتر مقام حاصل کرتے ہیں، علم انسان کو عزت بخشتا ہے، اس کو فوقیت اور برتری عطا کرتا ہے، علم کے زیور سے آراستہ شخص سچ جھوٹ، بھلائی، برائی کے درمیان امتیاز کرسکتا ہے، جب اللہ عزوجل روئے زمین انسانیت کے بسانے اور دنیاکے سجانے کا ارادہ کیاتو فرشتوں نے انسان کی خمیر کو دیکھ کر کہا کہ یہ تو روئے زمین پر فساد وبگاڑ کے سبب بنیں گے، پھر اللہ عزوجل نے حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر برتری اور فوقیت دینے کے لئے ان کو زیور علم سے آراستہ کیا، لیکن حصول علم میں استاذ کی حیثیت معمار قوم کی سی ہے، ایک ایک ’’مینارۂ نور ‘‘ ہے، جس سے اندھیری تاریکی جھٹ جاتی ہے، ایک سیڑھی ہے جس سے بلندی پر پہنچا جاتا ہے، اساتذہ کا کردار نوجوانوں اور نوخیزوں پود کی پرورش وپرداشت میں ان کے سنوار نے اور زیور علم سے آراستہ وپیراستہ کرنے نہایت اہم ہے،  اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ معاشرے کی تعمیر میں ایک استاد کاکلیدی رول ہوتاہے، اساتذہ کرام ہمارے معاشرے کی وہ عظیم ہستی ہیں جو نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں اور انہیں مستقبل کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار کرتے ہیں۔ حق بات تو یہ ہے کہ اساتذہ روحانی ماں باپ ہوتے ہیں جو نہ صرف جسمانی صحت و صفائی کے اصول سکھاتے ہیں بلکہ روحانی بیماریوں سے چھٹکارہ دلا کر معاشرے کا ایک اعظیم فرد بھی بناتے ہیں اور انسان کے اندر پنہاں تمام تر صلاحیتوں اور قوتوں کو پروان چڑھاتے ہیں، آج اس قوم کے معمار کے پاس نونہال پودہے۔ بلکہ یہ کہوں کی   بیج ہیں جن کو محبت و شفقت کی ذمین میں بو کر اورعلم کے پانی سے ایک گلستان تیار کرتے ہی،آج ان ننھے منے بچوں کا یہ گلستان ان کے ہاتھ ہے۔ اس کی   آبیاری کرنے میں بحیثیت ایک مالی کے  اپنی کوششوں اور کاوشوں سے سنواریں۔ اور مستقبل کو امن کا گہوارہ بنانے کی نوید دے  ؛کیونکہ ایک صحتمند معاشرے کی تعمیر بھی ان اساتذہ کے پرعزم کاندھوں پر بالکل اسی مالی کی طرح ہے۔

اسی لئے معلم انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقام ومرتبہ کو ان الفاظ میں بیان کیا : کہ میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں . (ابن ماجہ، ۲۲) استاذ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا فرمائی : کہ اللہ تعالی اس شخص کو خوش وخرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی، اسے یاد رکھا اور اس کو جیسا سنا تھا اسی طرح لوگوں تک پہنچا دیا(ابوداد. ۶۶۳) مخبرصادق نے یہ بھی فرمایا: دنیا میں تمہار ے تین باپ ہیں : ایک جو تمہاری پیدائش کا سبب بنا، دوسرا وہ جس نے اپنی لڑکی تمہارے نکاح میں دی، تیسرا وہ جس نے دوجس سے تم نے دولت علم حاصل کی، اور ان میں بہترین باپ تمہارا استاذ ہے، خیرالقرون کے زمانے میں استاذ کی عظمت کا اندازہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے اس قول سے بھی لگایا جاسکتا کہ آپ نے فرمایا ؛ کہ جس شخص نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں، (تعلیم المتعلم، ۶۴) خلیفہ ھارون رشید نے اپنے بیٹے مامون کو حصول علم کے لیے امام اصمعی کے پاس بھیجا، ایک دن خلیفہ کا گزر امام اصمعی کے پاس سے ہوا تو دیکھا کہ استاذ وضو کر رہے ہیں اور مامون استاذ کے پاں پر پانی بہا رہے ہیں تو خلیفہ ھارون رشید نے امام اصمعی پر ناراضگی کا اظہار کیا، کہ میں نے تو اپنے بیٹے کو آپ کے پاس حصول علم وادب کے لیے بھیجا ہے آپ نے انہیں اس کا حکم کیوں نہیں دیا کہ ایک ہاتھ سے پانی بہائے اور دوسرے ہاتھ سے آپ کا پاں دھوئے، (تعلیم المتعلم، ۵؍-۱۵)

ہارون رشید ایک دفعہ کسائی ﷺ کے پاس گئے، کسائیؒ ان کو دیکھ نہیں رہے تھے، یہ ہارون رشید کے دونوں لڑکوں امین ومامون کے استاذ تھے، کسائیؒ اپنے کسی کام سے جوتے پہنے کے لئے کھڑے ہوئے تو دونوں شہزادے فورا کھڑے ہوئے اور ان دونوں نے کسائی کے جوتوں کو ان کے پیروں کے سامنے لا رکھا، کچھ دیر بعد ہارون رشید اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : اے کسائی! سب سے زیادہ باعزت خادم کس کے ہیں ؟ تو کسائی نے کہا : امیر المؤمنین کے ہیں، ہارون رشید نے کہا : نہیں بلکہ کسائی کے ہیں، کیوں کہ ان کی خدمت امین اور مامون شہزادے کرتے ہیں ’’ بل الکسائی یخدمہ الأمین والمأمون ‘‘ ( قصص العرب : ۱؎۸۵)

عبد الرحمن بن قاسم فرماتے ہیں :  ’’میں ن بیس سال امام مالک  ؒ کی خدمت کی ان میں اٹھارہ سال آداب واخلاق کی تعلیم میں خرچ ہوئے، اور صرف دو سال تحصیل علم کے لئے، حضرت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ : میں حضرت استاذ کے سامنے ورق بھی بہت آہستہ الٹتا تھا کہ اس کی آواز ان کو سنائی نہ دے (مخز ن اخلاق : ۴۳۴)

بزرگوں نے فرمایا ہے کہ استاذ کہ پہلو میں نہ بیٹھو، وہ کہے تب بی نہ بیٹھو، مگر جب جانو کہ نہ بیٹھنے سے اس کو صدمہ ہوگا تو تب مضائقہ نہیں ’’الأمر فوق الأدب‘‘( حکم ادب سے اوپر ہوتا ہے ) استاذ کے ساتھ بڑے ادب سے گفتگو کرو، اس سے ’’لم‘‘ (یعنی کیوں ؟ ) نہ کہو، اسی طرح ’’لا نسلم‘‘ (ہم نہیں مانتے ) یا ’’ اس کو کس نے نقل کیاہے ‘‘ یا ’یہ کہاں لکھا ہے ‘‘ یہ الفاظ نہ بولے، نیز یہ کہ استاذ کی کوئی رائے یا تحقیق غلط معلوم ہوتی ہے تب بھی اس کی پیروی کرے جیسا کہ موسی اور خضر کے قصہ سے ثابت ہے۔ کسی عالم نے لکھا ہے کہ جو شاگرد اپنے استاذ کو نا مشروع امر کا ارتکاب کرتے دیکھ کر اگر اعتراض وبے ادبی سے ’’کیوں ‘‘؟ کہہ دے گا، وہ فلاح نہ پائے گا،مناسب ہے کہ ایسے موقع پر کسی دوسرے سے تنبیہ کرائے یا خود ابد واحترام کے ساتھ استفسار کی صورت میں کہے یا اسطرح کہے کہ نصیحت نہ معلوم ہو۔

تعلیم المتعلم میں ہے کہ استاذ کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کی اولاد اور متعلقین کی بھی توقیر کرے، نیز یہ کہ علم کے زوال کا سبب معلم کے حقوق کی رعایت نہ کرنا بھی ہے، صاحب ہدایہ فرماتے ہیں :بخارا کے ایک بہت بڑے عالم اپنے حلقہ میں درس دے رہے تھے، اثنائے درس کبھی کبھی کھڑے ہوجاتے، جب اس کا سبب دریافت کیا گیا تو فرمایاکہ : میرے استاذ کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، کھیلتے کھیلتے وہ کبھی مسجد کے دروازے کے پاس بھی آجاتا رہا تو میں اس کی تعظیم کے لئے کھڑا ہوتا۔

یہ اور اس طرح کے سینکڑوں ایسے واقعات تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے ہوئے ہیں جن سے استاذ کے مقام ومرتبہ کااندازہ لگایا جاسکتا ہے، مگر جیسا کہ آج کی مادیت پرستی کے دور میں ہر چیز کی قدر وروایت گھٹتی اور بدلتی جا رہی ہے، استاذ جیسی محترم اور عظیم الشان ہستی کی بھی عظمت واہمیت اور ان کے تئیں احترام کے جذبات میں نمایاں کمی محسوس کی جا رہی ہے، آج ہماری درسگاہوں میں استاذ کاادب واحترام درسگاہ کی چہار دیواری تک سمٹتا نظر آتا ہے، اور درسگاہ کے باہر ان پر ہر طرح کے تبصرے اورایذا رسانی کو درست ہی نہیں بلکہ نئی نسل کی فکری بلندی اور تقلید لا حاصل سے آزادی سمجھی جاتی ہے، جبکہ مشہور مقولہ ہے ’’ با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب‘‘ اور کہا جاتا ہے ’’کہ ادب ایک درخت ہے اور علم اس کا پھل ہے درخت ہی نہ ہو تو پھل کہاں سے ملے گا‘‘

اس سلسلے میں جہاں اساتذہ کو طلبہ کی صحیح راہنمائی کی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ والدین، سرپرستان اور ادارے کے سربراہان کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ قوم کے نونہالوں کو اساتذہ کے مقام ومرتبہ سے آگاہ کریں اور سال میں صرف ایک دن اساتذہ کیاحترام کے لئے خاص نہ کرکے اکابر واسلاف کے اس نہج پر چلنے کی تاکید اور کوشش کرائیں جس جذبہ کے تحت ایک طالب علم اپنے استاذ کے گھر کی طرف پاں پھیلا نا تک گوارہ نہیں کرتے ہیں اور بعد میں اسی شاگرد کو دنیا شیخ الاسلام حسین احمد مدنی کے نام سے جانتی ہے. یقینا ان حضرات کی راہنمائی زیادہ مؤثر ثابت ہوگی.

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

تبصرے بند ہیں۔