کیوں آئینے کے آگے جاتے جھجک رہا ہے

مجاہد ہادؔی ایلولوی

کیوں آئینے کے آگے جاتے جھجک رہا ہے
وہ کیسا داغ ہے جو تجھ کو کھٹک رہا ہے

تاروں کے جیسا ہر وہ قطرہ چمک رہا ہے
خوفِ خدا سے آنکھوں سے جو چھلک رہا ہے

آیا نہیں ابھی تو رخصت کا وقت میرا
"دلبر کی یاد میں دل میرا دھڑک رہا ہے”

وہ دیکھتا نہیں ہے منہ پھیر کر بھی مجھ کو
کیا جانے اس کے دل میں ایسا کیا پک رہا ہے

کب سے تو تیرا میرا کرنے لگا ہے ظالم؟
ہندوستان اب تک تو مشترک رہا ہے

دشمن ہے اپنا شیطاں, دشمن سمجھنا اس کو
صبحِ ازل سے اس کو انساں کھٹک رہا ہے

جس سے تُو شہر میرا بھڑکا گیا تھا ظالم
وہ شعلہ آج تیرے گھر میں بھڑک رہا ہے

تیرے دکھائے رستے سے پائی سب نے منزل
کیوں ایسے راستے سے تُو خود بھٹک رہا ہے

ہر سمت بے حیائی پھیلی ہوئی ہے ہادؔی
عورت کے سر سے جب سے آنچل سرک رہا ہے

تبصرے بند ہیں۔