اینٹ کاجواب پتھر سے!

مدثراحمد

ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں جب مسلمانوں کاتذکرہ ہوتا تھا تو اُس وقت دنیا کی دیگر قومیں یہ تسلیم کرتی تھیں کہ یہ قوم بہادر، شجاعت اور نڈر قوم ہے، حق کیلئے یہ اپنا خون بہانے اور خون کرنے کیلئے بھی پیچھے نہیں ہٹی۔ مسلمانوں کے نام سے یہودی ونصاریٰ ہی نہیں بلکہ کفارہند بھی لرز جاتے۔ مغل سلطنت کی بات کی جائے یا پھر نوابوں و نظاموں کی حکومتیں۔ ہر حکومت نے ہندوستان کے غیر مسلموں کو مسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے سے بھی بچا رکھا تھا۔ حضرت عمر ؓ جیسے خلفائے راشدین، حضرت معاویہؓ، سلطان صلاح الدین ایوبی، سلطان محمد بن قاسم، سلطان ٹیپوشہید جیسے عظیم حکمرانوں کے ہر دورمیں مسلمانوں کی حفاظت ہوتی رہی اور بلاوجہ کبھی بھی مسلمانوں نے اپنی میانوں سے تلواریں نہیں نکالی اور نہ ہی غیر مسلم کی تلواریں مسلمانوں کی جانب اٹھی۔ حالانکہ دین اسلام تلواروں کے بل بوتے پر نہیں پھیلا ہے اور نہ ہی اسلام کا واسطہ تشدد سے ہے اور اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔ دنیا بھر میں جتنے بھی دہشت گرد ہوئے ہیں وہ تمام مسلمان نہیں اور جو مسلمان ہیں وہ دہشت گرد نہیں۔

یہ بات ہر دورمیں سچ ثابت ہوگی کیونکہ اسلام کو ماننے والے امن وامان کے پیکر ہیں۔ لیکن جب بھی مسلمانوں پر ظلم ہوا، تشدد ہوا، بلاوجہ مسلمانوں کا خون بہا، مسلم عورتوں کی عزتیں پامال ہوئیں، جب بھی مسلم بچوں کے سر سے سائے چھینے کی کوشش کی گئی تو اس وقت مسلمانوں نے اپنے حریفوں کومعقول جواب دیا۔ یہ ہماری تاریخ ہے اور اس تاریخ میں بالکل بھی کوئی شبہ نہیں۔ لیکن ہم پریشان ہیں، ہمارے حال اور مستقبل کو لیکر کیونکہ ہم مسلمان امن کے پیکر ہوکر بھی نہ صرف اس ملک میں محفوظ ہیں بلکہ ساری دنیا میں ہم مسلمانوں کی خونریزی کی جارہی ہے۔ دنیا بھر کے مختلف مقامات پر مسلمانوں کو الگ الگ وجوہات سے ختم کیا جارہا ہے لیکن ہمارے ہندوستان میں صرف اور صرف ایک جانورکے نام پر موت کے گھاٹ اتارا جارہاہے۔ جس طرح سے انسانوں کو گائے کے نام پر قتل کیا جارہا ہے، اس پر ہمیں سوچنے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے کہ کاش ہم بھی گائے ہوتے اور ہماری حفاظت کی جاتیں۔ ہماری حفاظت کی ذمہ داری حکومتوں اور جانچ ایجنسیوں کی ہوتی، ہمارے نام پر سیاست کی جاتی۔

یقینا آج تک ہندوستان کی زمین پر مسلمانوں کو گائے کی طرح ہی استعمال کیا گیا اور ہم مسلمانوں کے نام پر ہی اکثر سیاست کی گئی۔ وقت کے بدلنے کے ساتھ اب گائے کی جگہ مسلمانوں نے لے لی اور مسلمانوں کی جگہ گائے نے لے لی۔ پہلے ووٹ مسلمانوں کے نام پر پوچھا جاتا تھا اور اب ووٹ گائے کے نام پر پوچھا جارہا ہے۔ پہلے ووٹ مسلمانوں کی حفاظت کیلئے مانگا جاتا تھا اور اب گائے کی حفاظت کیلئے ووٹ مانگے جارہے ہیں، پہلے مسلمانوں سے حکومتیں بنتی تھیں اور اب گائے سے حکومتیں بن رہی ہیں۔ کتنی تشویشناک بات ہے کہ پچھلے چارسالوں سے مسلمانوں پر250 سے زائد تشدد کے واقعات پیش ہوئے، 65 معاملات میں بھیڑ کے ذریعے مسلمانوں پر حملے ہوچکے ہیں جس میں اب تک30سے زائد لوگوں نے شہادت نوش فرمائی ہے۔ محمد اخلاق، پہلو خان، علیم الدین، اکبر خان، ایوب پنڈت، تحسین پونا والا، حسن ابا، اصغرعلی، محسن شیخ، ظفرخان، محمدنعیم، غلام محمد جیسے تیس سے زائد ایسے مسلمان ہیں جن کی موت صرف اور صرف گائے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ جس قوم میں تشدد کاجواب پہلے اخلاق سے پھر تشدد بڑنے پر تشددسے دئیے جانے کا رواج ہے، باوجود اس کے کیونکر مسلمان خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

قریب ایک سال قبل ایک سکھ کو ٹرک میں بیلوں میں لے جاتے وقت خود ساختہ گائو رکشکوں نے روک لیا تھا، اس پر سکھ بھائی نے پہلے انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب وہ نہیں مانے تو اس نے اپنی ٹرک سے جیسے ہی تلوار نکالی تو ڈرپک گائورکشک وہاں سے بھاگ نکلے۔ ویسے بھی ہمیں مرنا ہے تو کیونکر بزدلوں کی طرح مررہے ہیں۔ مسلمان کی شناخت تو ایک کے بدلے دس قاتلوں سے بدلہ لینے کی ہے، مگر ہم بھیڑ کے ہاتھوں پر آمادہ ہوچکے ہیں۔ حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ سب سے خطرناک طبقہ مانے جانے والے قصائی معمولی غنڈوں کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو بھی بھیڑ کے ذریعے بھیڑ بنا کر کسی معصوم کا قتل کیا جائے بلکہ تشدد کا بدلہ تشدد سے لیا جائے۔

اگر ملک میں دو چار ایسے واقعات ہوجاتے ہیں تو یقینا ڈر پک و خود ساختہ گائو رکشکوں کی آواز بند ہوجائیگی۔ ملک بھر میں ہورہے گروہی تشدد، گائے کے نام پر دہشت گردی کے خلاف اب تک مسلمان صرف احتجاج، مذمت، مزاحمتی بیانات اور اظہار افسوس ہی کرتے آرہے ہیں، لیکن جس طریقے سے ان خونی دہشت گردوں سے نمٹنا ہے اس طریقے سے نمٹا نہیں جارہا ہے۔ آخر کب تک مسلمان یوں ہی اپنے سر کاٹتے رہیں گے، کب تک ہماری تنظیمیں ان مرحومین کے اہل خانہ سے ملاقاتیں کرتے رہیں گے، کب تک حکومتوں کے دربار پر ان کے قاتلوں پر سزا کا مطالبہ کرتے رہیں گے، کب تک قوم سے چندے لیکر ان مرحومین کے اہل خانہ کومعاوضے دیتے رہیں گے؟

 حکومتیں آج چاہتی ہی یہ ہیں کہ مسلمان اور مریں تاکہ ان کی سیاست خوب گرمائے۔ یہاں مارنے والے بھی سیاسی فائدہ اٹھا رہے ہیں او رمرنے والوں کے نا م پر سیاسی فائدے اٹھا رہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں کہ مسلمانوں کے ہر گھر میں ایسے دہشت گرد گھس جائینگے، گائے کے گوشت کی تلاشی کے نام پر ہمارے بچوں پر ظلم کرینگے اور عورتوں پر ہاتھ ڈالینگے اور ہمیں موت کے گھاٹ اتاردیا جائیگا۔ ہمارے مرنے کے بعد وہی پولیس آئیگی، ایف آئی آر در ج کریگی، ملزمین کو حراست میں لے گی اور ملزمین کی رہائی پر تہنیت وگل پوشی کرنے کیلئے ان کے سیاسی آقا پہنچ جائینگے۔ تب ہم قبروں میں رہ کر نہ اس حرکت پر مذمت کر پائینگے اور نہ ہی احتجاج کرنے کیلئے اٹھ پائینگے۔ یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گااُس وقت تک جب تک کہ اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیا جائے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔