این ٹی ایس اور معذور افراد کے ساتھ زیادتی

میاں نصیراحمد

اگر اللہ تعالیٰ نے کسی کو کچھ جسمانی معذوری کی ازمائش میں مبتلا کیا ہے تو اسے اضافی طور پر کئی ذہنی صلاحیتیں بھی عطا فرمائی ہیں ۔ مغربی ممالک میں اس کا بھرپور ادراک ہے یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے وہاں معذور افراد کو ہر ممکن سہولیات مہیا کررہے ہیں جس کی بدولت ان کے معذور افراد عام لوگوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں ۔

برطانیہ اورامریکا کے علاوہ بے شمارمغربی ممالک میں معذورافراد کو نجی، سرکاری اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں فخر کے ساتھ ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔ معذور افراد ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں جو بعض اوقات لاتعداد صحتمند افراد کے بس کا روگ بھی نہیں ہے جیسا کہ دو ایسے کوہ پیمائوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی مائونٹ ایورسٹ سر کی جن میں ایک ٹانگ اور دوسرا بازو سے معذور ہے۔

پاکستان میں شرح تعلیم خوفناک حد تک گرتی جا رہی ہے جس کی ذمہ داری سو فیصد حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے، اور اِن حکمرانوں کی لاپرواہی کی وجہ سے لوگ تعلیم سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد ملک میں پہلے ہی کم ہے، اور اوپر سے جب خواندہ افراد بے روزگاری کے میدان میں دھکے کھاتے پھرتے ہیں تو دیگر لوگ اسے اپنے لئے سبق مان کر بچوں کو کام پر لگا دیتے ہیں ، جس کی وجہ سے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے ہمہ وقت کوششوں کے بعد یہ عمل مشکل بن جاتا ہے۔

ایک طالب علم جب تمام تر مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد کالج سے یونیورسٹی کی طرف سفر کا اغاز کرتا ہے تو اْس کا واسطہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) سے پڑھتا ہے۔ این ٹی ایس کا ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد ہی طالب علم یونیورسٹی میں داخلے کے قابل ہوتا ہے۔ لیکن ٹیسٹ کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے طالب علموں کو فی فارم ایک ہزار روپے میں فروخت کیے جارہے ہیں ۔ لیکن یہ ہزار روپے بدقسمتی سے عام طالب علموں کے ساتھ ساتھ معذور افراد سے بھی وصول کئے جارہے ہیں ۔ اس بے رحمانہ فیصلے کی وجہ سے بے روزگاری کی وجہ سے پریشان حال معذورافراد مزید پریشان ہوجاتے ہیں۔

طالب علموں سے کروڑوں روپے ہڑپ کرتے ہوئے این ٹی ایس کا شمار منافع بخش ادارے میں ہوتا جارہا ہے، جبکہ یہ بات یاد رہے کہ اِس ادارے کی بنیاد کا مقصد ہرگز منافع کمانا نہیں تھا۔

طالب علموں سے کروڑوں روپے ہڑپ کرتے ہوئے این ٹی ایس کا شمار منافع بخش ادارے میں ہوتا جارہا ہے، حالانکہ اِس ادارے کی بنیاد کا مقصد ہرگز منافع کمانا نہیں تھا۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک معذور نوجوان جو بیروزگار ہونے کی ہونے کی وجہ سے صرف فارم کی خریداری کے لیے ہزار روپے خرچ کرے؟ اور یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سرکاری اداروں کا خسارہ پورا کرنے کے لیے ملازمتوں کے نام پر اس کا خون نچوڑا جائے؟ اِس فیصلوں کا جائزہ لینے کے بعد گمان تو یہ ہوتا ہے کہ مملکت خداداد کے حکمران بھی ان بے کس افراد کی ذمہ داری اٹھانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کے لیے 2 فیصد کوٹہ مختص تو ہے لیکن یہ بھی غضب کیا جا رہا ہے کہ یہ کوٹہ نجی و سرکاری ملازمتوں کے لیے مخصوص ہے جن میں سول سروسز بھی شامل ہیں لیکن معزور افراد تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود سرکاری ملازمتوں سے محروم ہیں ۔

پاکستان میں کہنے کو تو عالمی تناظر اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک جامع قانون سازی کی جاتی ہے لیکن حقائق انتہائی شرمناک اور بھیانک صورتحال پیش کرتے نظر اتے ہیں ، حکمرانوں کی بے حسی کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 70 برسوں کے دوران پاکستان میں معذور افراد کے حوالے سے صرف ایک قانون ڈس ایبل پرسنز ایمپلائنمنٹ اینڈ ری ہیبلی ٹیشن ارڈیننس 1981 میں بنایا گیا اور ماہرین اس ارڈیننس کو بھی معذور ارڈیننس قرار دے کر رد کرچکے ہیں کیونکہ اس ارڈیننس میں خاصی معذوریاں ، کمزوریاں اور خامیاں ہیں جنہیں رفع کرنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے۔

بیشتر ممالک میں جسمانی معذوری کو بوجھ نہیں سمجھا جاتا بلکہ ان ممالک میں کمزور جثہ افراد کو روزگار کے تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق روزگار کے انتخاب کی مکمل ازادی ملتی ہے۔ سرکاری و سماجی بہبود کے ادارے بھی ان افراد کی معاونت میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں چنانچہ وہاں کے معذور افراد خود کو کبھی کم تر نہیں سمجھتے اور زندگی کی مسابقت میں عام صحتمند افراد سے کسی بھی طرح پیچھے نہیں جبکہ پاکستان میں ماسٹر ڈگری ہولڈر لاکھوں نوجوان صرف اِس لیے نوکری کے حصول کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں کیونکہ وہ معذور ہیں۔

امید ہے کہ این ٹی ایس کے اس اہم ترین مسئلے پر صوبائی اور وفاقی حکومت ضرور توجہ دیے گی، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو معذور نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح میں مزید اضافے کا خدشہ ہے جس کی وجہ سے خراب ہوتی معیشت کو مزید جھٹکا لگنے کا خدشہ ہے۔اس لیے ضرورت اِس امر کی ہے کہ معذور افراد سے اظہار ہمدردی ، محبت اور شفقت کیلئے جذبے کو پروان چڑھانے کیلئے مثبت اقدامات فی الفور بروئے کار لایا جائے تاکہ وہ بھی سکون کی زندگی گزار سکیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔