ایڈوانی گروپ کی سزا میں دو سال کا اضافہ

حفیظ نعمانی

سپریم کورپ کے محترم جج صاحبان نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ہندو نواز فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ ایل کے ایڈوانی سے لے کر ونے کٹیار تک بی جے پی کے ان تمام لیڈروں پر مقدمہ چلتا رہے گا جن پر 6 دسمبر 1992کو مسجد کو منہدم کرنے کی سازش کا مقدمہ 25 برس سے رائے بریلی کی عدالت میں چل رہا تھا۔ اور ان کے ماتھے پر جو اپرادھی لکھ دیا گیا تھا وہ اتنے ہی روشن الفاظ میں لکھا رہے گا جو مقدمہ قائم کرتے وقت لکھ دیا گیا تھا۔

دن کی روشنی میں انجام دیا جانے والا شرم ناک واقعہ اور 1995ء سے رتھ یاترا کے ذ ریعہ ملک کی فضا کو زہر آلود کرنے کی ایڈوانی جی کی جد و جہد کو معمولی بات ثابت کرنے میں 25 برس لگ گئے اور پھر وہ کرالیا گیا تھا جو کرانے کے لیے 25 برس تک ہر برس نیا بہانہ تراشا جاتا تھا اور پھر ہائی کورٹ سے وہ فیصلہ کرالیا جس کے لیے کروڑوں روپے اور حکومت کی طاقت سب دائو پر لگا دی گئی تھی کہ ملک کے محترم لیڈروں کو ذلیل نہ کیا جائے۔

یہ حیرت کی نہیں عبرت کی بات تھی کہ مالک الملک کی عبادت کے لیے بنائے گئے گھر کو انتہائی شرم ناک طریقہ سے منہدم کرنے والے اس دنیا میں معزز بن کر رہیں اور جہاں کھڑے ہو کر کہا جاتا تھا کہ ’’اللہ اکبر‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے وہاں کسی اور کی کبریائی کا اعلان کیا جائے اور اتنا بڑا جرم کرنے والے ملک کے سب سے معزز منصب پر بٹھائے جائیں ؟ جہاں تک سی بی آئی کا تعلق ہے اس کے بارے میں آج کے حکمراں عمر بھر یہ کہتے رہے کہ وہ مرکزی حکومت کا کھلونا ہوتی ہے۔ اور اب تین برس سے سابق حکمراں کہہ رہے ہیں کہ سی بی آئی مودی سرکار کے اشاروں پر چلتی ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ قادر مطلق نے ان کے ہاتھوں سے ہی پھر سب کی پیشانیوں پر اپرادھی لکھوادیا جو ان کے ا شاروں پر ناچا کرتے تھے۔عام بول چال میں اس اپرادھ کو زیر سماعت کہا جاتا ہے۔ لیکن عام آدمی کے لیے بے شک یہ زیر سماعت ہے لیکن حقیقت میں یہ سزا ہے جو دو سال تک ہر دن ٹی وی اور اخبار کے ذریعہ یاد دلاتی رہے گی کہ یہ سپریم کورٹ کی نظر میں اپرادھی ہیں ۔

یہ بھی خدا کی شان ہے کہ مسجد کی شہادت کے مقدمہ میں شرد پردھان نام کے ایک صحافی کی گواہی 104صفحات کی ہے۔ اور قادر و مالک نے اس کے دل پر ایسا اثر کیا ہے کہ وہ کل جب ٹی وی کے نمائندوں سے بات کررہے تھے تب بھی ان کا لہجہ ایسا تھا جیسا پہلے دن رہا ہوگا۔ یہ اس بہادر صحافی کی شہادت ہی تھی جس نے بتایا کہ دو ڈھائی فٹ موٹی موٹی دیواروں کو گرانے اور گنبد کے پلاسٹر کو توڑنے کے لیے کوئی اوزار کام نہیں کرپارہا تھا۔ بعد میں ان دیواروں میں کسی انجینئر یا تعمیرات کے ماہر کے مشورہ سے بڑے بڑے سوراخ کیے گئے اور ان میں بہت موٹے رسے ڈالے گئے اور ہر رسہ کو سیکڑوں آدمیوں نے مل کر گھسیٹا اور جھٹکے دئے تب وہ دیواریں پھٹیں اور ملک کی نہ جانے کتنی زبانوں میں اعلان کیا جانے لگا کہ سب اوپر سے نیچے اور اندر سے باہر آجائو ڈھانچہ گرنے والا ہے۔شرد پردھان کا بیان ہے کہ اس وقت ہم نے دیکھا کہ ونے کٹیار ایک پوٹلی سینے لگائے بھاگے جارہے ہیں ہم سمجھے کہ اس میں ہیرے جواہرات ہوں گے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس میں رام للا کی مورتی تھی جس کے بارے میں 1949سے ہندو کہہ رہے ہیں کہ رام چندر جی پرکٹ ہوئے یعنی مندر سے نکل کر خود مسجد میں آئے۔ لیکن حیرت ہے کہ جب جان خطرہ میں ہوئی تو ونے کٹیار کی گود ہی سہارا بنی۔ اس وقت وہ کسی محفوظ جگہ پرکٹ نہیں ہوگئے۔

آج جو سب سے بڑے کہے جانے والوں کے ماتھے پر اپرادھ کھودا گیا ہے وہ اس جھوٹ کی سزا ہے کہ ہر کسی کے منہ پر ڈھانچہ تھا۔ جس عمارت کی دیواریں دو دو فٹ چوڑی ہوں جس کا پلاسٹر سیکڑوں برسوں کے بعد بھی اوزاروں سے نہ کھرچا جائے اسے ڈھانچہ کہہ کر دل ا چھا کرنے والوں کو یہ صرف اشارہ ہے۔ سزا تو وہاں ہوگی جہاں صرف یا آگ دہک رہی ہوگی یا باغ کی ٹھنڈی ہوائیں آرہی ہوں گی۔

شرد پردھان سے جب یہ کہلانا چاہا کہ 25 سال کے بعد اب پھر رام مند ر کی سیاست ابھر رہی ہے تو انھوں نے جھڑک دیا اور کہا کہ6 دسمبر 92  کے بعد چار سال تک ہر 6 دسمبر کو ایودھیا میں یوم فتح منایا جاتا تھا اور کوئی ایک بڑا لیڈر آجاتا تھا۔ مجمع جب کم ہونے لگا تو 1997میں اعلان ہوا کہ اس سال ایڈوانی جی آرہے ہیں ۔ سارے علاقہ میں خوب چرچا کیا گیا۔ اور جب ایڈوانی جی آئے تو شردھالو کم تھے میڈیا اور پولیس والے زیادہ تھے ۔ ایڈوانی جی غصہ میں پھٹ پڑے اور اس کے بعد سے یوم فتح بند ہوگیا۔ اب عام آدمی کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ،وہ عقیدت میں آتا ہے، پوجا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ اس کی بلا سے مندر مٹی کا ہے، سنگ مرمر کا یا سونے کا؟ وہ تو رام للا کے درشن کرکے چلا جاتا ہے۔

یہ بھی شرد پردھان نے بتایا کہ 4؍ دسمبر کو ایودھیا سے تمام مسلمانوں کو ہٹادیا گیا تھا۔ اور انھوں نے ہی کہا کہ پہلے تو ہم میڈیا والے روز آتے اور چلے جاتے تھے لیکن 4؍ دسمبر کو ہم وہیں رُک گئے اور یہ ان کی بھی گواہی میں ہے کہ فلاں کے ٹیلی فون سے فلاں آدمی نے دو سو بیلچے دو سو چھینی ہتھوڑیاں پھاوڑے اور رسے منگوائے تھے۔

مسٹر پردھان نے ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ دہلی جو بڑے بڑے تیس مار خا ں وکیل آتے تھے وہ سوال کے بجائے مذاق کرتے تھے اور ایسے سوال کرتے تھے جن سے مقدمہ کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ ہمیں پردھان کی اس بات سے شبہ ہوتا ہے کہ دو سال کا حکم بس کاغذ پر ہی رہ جائے گا۔ ہمارے ملک کی عدلیہ اور وکیل شطرنج کے ماہر کھلاڑی ہیں ۔ یہ تو بہت بڑے آدمیوں کا مقدمہ ہے۔ ہم جیسے چھوٹے آدمیوں کا یہ سچا واقعہ ہے کہ ندائے ملت کے جو مقدمات ہمارے اوپر لاد دئے گئے۔ ان کے بارے میں ہمارے دوست اور وکیل عبدالمنان نے کہا کہ جس جج کی عدالت میں یہ مقدمے ہیں اس کی سیرت بہت خراب ہے۔ وہ اور کچھ نہ کریگا تب بھی ’’تابرخاست عدالت‘‘ سزا یا ایک روپیہ جرمانہ کردے گا۔

 وہ جہاں سے آیا ہے وہاں اس کا تعصب مشہور تھا۔ ہم کیا کہتے سوائے اس کے کہ یہ آپ فیصلہ کریں کہ کیا کیا جائے؟ منان صاحب نے بتایا کہ دو سال میں اس کا تبادلہ ہوجائے گا اور ہم کسی مقدمہ کا فیصلہ نہیں ہونے دیں گے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ دوسال تک وہ ہر مقدمہ میں کوئی نیا شوشہ چھوڑ دیتے تھے اور دو سال میں ایک مقدمہ کا فیصلہ بھی نہیں ہونے دیا۔ اب سپریم کورٹ کچھ کہے۔ اگر وکیل چاہیں گے تو اس وقت تک مقدمہ چلتا رہے گا جب تک زندگی ہے۔

سیاسی حلقوں میں ایک بات یہ بھی گشت کررہی ہے کہ صدر جمہوریہ کی خالی ہونے والی کرسی پر مودی جی اپنے کسی آدمی کو بٹھانا چاہتے ہیں ۔ بی جے پی میں آج بھی سب بڑے کہے جانے والے ایڈوانی اور جوشی ہیں ، ان کو نظر انداز کرکے کسی کو لانا آسان تو تھا لیکن بہت خطرناک بھی تھا۔ اس لیے ان کے ماتھے پر پھر اپرادھی لکھوانے میں خفیہ ہاتھ بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن ہمیں اس سے کیا ؟ہم تو اسے عذاب الٰہی مانتے ہیں کہ دو برس  اور اپرادھی بن کر زندہ رہیں اور جو گردنیں پچیس برس سے جھکی ہوئی ہیں وہ ابھی اور جھکی رہیں ۔اس لیے کہ دنیا دیکھتی رہے کہ وہ جارہے ہیں ڈھائی فٹ موٹی دیوار والی عمارت کو ڈھانچہ کہنے والے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔