ایک شام عاصم اسعدی کے نام

عالمی اردو مجلس اور شیخ العالم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی، جموں و کشمیر کے باہمی اشتراک سے ۸؍فروری ۲۰۱۸ کو پرساد کمپلکس، بٹلہ ہاؤس،نئی دہلی میں کشمیر کے نوجوان اور نئے لب و لہجے کے منفرد شاعر عاصم اسعدی کے نام ایک شام کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں دہلی اور ریاست جموں وکشمیر کی کئی معزز شخصیات نے شرکت کی۔ مجلس کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے کیا گیا۔ اس کے بعد مہمان کا تعارف بشیر چراغ نے کرایا، جنھوں نے کہا کہ عاصم اسعدی ایک دہائی قبل کشمیر سے ایک ہفت روزہ ’’احوالِ کشمیر‘‘ شائع کرتے تھے جس پر بعد میں وہاں کی سرکار نے پابندی عائد کر دی۔ تعارف کے بعد منتظمین نے عاصم اسعدی کا گلدستہ دے کر استقبال کیا اور پھر ان کی شال پوشی کی گئی۔ اس مجلس کی نظامت کا فریضہ ڈاکٹر حنیف ترین نے انجام دیا۔ جنھوں نے مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا۔

شاعری کے لیے مزاحمت ضروری ہے، بغیر مزاحمت شاعری کا ر آمد نہیں ہوسکتی(عاصم اسعدی)

اس مشاعرے کی صدارت عاصم اسعدی کر رہے تھے جب کہ چشمہ فاروقی مہمانِ خصوصی اور خدیجہ کشمیری نے مہمانِ اعزازی کے بطور شرکت کی۔ عاسم اسعدی نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ میری شاعری اسی عہد کی شاعری ہے اور جس پر اسی ماحول کا اثر ہے،ہم اس سے اپنے آپ کو قطعی الگ نہیں کر سکتے۔ ہمارے جو حالات ہیں وہ سب پر عیاں ہیں۔ انھوں نے کہا ہماری شاعری مزاحمتی ہے اور کار آمد شاعری کے لیے مزاحمت ضرور ہے۔ شیخ العالم سوسائٹی کے صدرغلام نبی کمار نے کہا کہ ہم اردو زبان کی نئی نسل کے شعرا و ادبا کا ہمیشہ استقبال کرتے رہیں گے۔ اس مجلس میں جن شعرا ئے کرام نے اپنا کلام پڑھا۔ ان میں ڈاکٹر حنیف ترین، بشیر چراغ، معین قریشی، وحید عازم، فرحین اقبال، بسمل عارفی،عرفان احمد،خدیجہ کشمیری،احمد علی برقی اعظمی، ساز دہلوی، اور عاصم اسعدی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ چند شعرا کا نمونۂ کلام ملاحظہ ہو:

بڑے محفلوں میں رہتے ہیں اسیروں کی طرح
سکونِ دل کہاں حاصل فقیروں کی طرح

(عاصم اسعدی)

فارس کی نئی تھاپ پہ اب ریختی کی دھن میں
کیوں زمزمہ پرداز جہانِ عربی ہے

(حنیف ترین)

ہمیں گنواؤ نہ صاحب کہ چند ہیں ہم بھی
کسی نظر کی جہاں میں پسند ہیں ہم بھی

(بشیر چراغ)

جب تقدیر نے سکندری کرنا چاہی
زمانے نے مٹی کی خوشبو سے آشنائی کروائی

(خدیجہ کشمیری)

کچھ روز ٹھہر جاؤ فلیٹوں کے مکینو
کچھ دن میں یہاں دھوپ کرائے پہ ملے گی

(معین قریشی)

مانا روش روش پر چرچے ہیں گل رخی کے
کانٹوں میں بھی ہیں لیکن انداز دلکشی کے

(فرحین اقبال)

طے شدہ جملے ہمارے درمیاں تھے ورنہ دوست
گفتگو نے شوق میں کل زیر لب کچھ اور تھا

(عرفان احمد)

نفرت ہی نفرت ہو جس میں ایسا محل مسمار کرو
دنیا کو پیغامِ وفا دو کل چمن گلزار کرو

(چشمہ فاروقی)

بہت دنوں سے لبوں پر جمود طاری ہے
کبھی خیال میں آؤ تو سلسلہ ٹوٹے

(ڈاکٹر بسمل عارفی)

بہت بے چین ہے مٹی لحد کی 
تری جانب تو سب ہی چل رہے ہیں

(وحید عازم)

اس مشاعرے میں جن معزز حضرات نے شرکت کی ان میں سلمان عبد الصمد،مرزا ذکی احمد بیگ، محمد رمضان، محمد امین سرور،عبد اللہ نعمانی، سعید احمد، ارشید حسین آہنگر، سمیرا بشیر، عائشہ تنویر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔