ایک علمی ورک شاپ کا آنکھوں دیکھا حال

ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی

مدرسہ ڈسکورس کا یہ سمرانٹینسِو(intensive)اپنی نوعیت کا بڑاغیرمعمولی پروگرام تھا۔ اس کا موضوع تھا:  Theology and contingency:Morals History and Imagination  یعنی دینیات کودرپیش نئے مسائل :اخلاق، تاریخ اورتخییل کے حوالہ سے۔ اندراگاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ سے 9-40پر روانہ ہوکرہم ہندوستانی طلبہ تیس جون کی سہ پہرکواپنی قیام گاہ ڈھولی خیل رزارٹ پہنچ گئے، پاکستانی طلبہ رات کوآئے جبکہ دوسری جگہوں سے طلبہ اورمنتظمین پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔

سفرپر روانہ ہونے سے پہلے دماغ پر تھوڑاstress تھاجس کی وجہ سے رات بھرنین دنہیں آئی تھی، راستہ کی تکان الگ لہذاسہ پہرسے کمرے میں لیٹ کرسونے کی کوشش کی مگرنیندپھربھی نہیں آئی۔ رات کو۱۲بجے کے قریب دوپاکستانی ساتھی کمرے میں آگئے کچھ دیرتوان سے بات چیت ہوئی پھروہ سوگئے اورذراسی دیرمیں کمرہ ان کے خراٹوں سے گونجنے لگا۔ کسی مشین کی آوازہویاخراٹے مجھے ان سے ایسی الرجی ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے نیندکے آنے کا کوئی سوال ہی نہیں۔ یوں یہ دوسری را ت بھی نہایت بے آرامی میں گزری۔ ساڑھے چاربجے مظفرنگرکے سلیم احمد کے ساتھ فجرکی نمازپڑھی اورپھرہم تین ساتھی میں، مفتی سعدمشتاق صاحب اورسلیم بھائی سیرکے لیے نکل کھڑے ہوئے پھرتوہفتہ بھریہی معمول رہاکہ سلیم بھائی کے ساتھ فجرکی نمازکے بعدصبوحی چائے پی جاتی جس میں کبھی کبھاردوسرے احباب بھی شریک ہوجاتے۔ خوش قسمتی سے مفتی سعدمشتاق صاحب طبیب ہیں، ان سے نیندنہ آنے کا بتایاتو انہوں نے اپنابنایاہواایک تیل سرمیں لگانے کے لیے دیا۔ اس کولگانے اورسرپر مالش کرنے سے واقعی تیسری رات نیندآگئی اورپھرورکشاپ کے آخری دن کوچھوڑکرٹھیک ٹھاک آتی رہی۔

اس سمرکیمپ میں حسب روایت پروفیسرابراہیم موسیٰ (مدرسہ ڈسکورس کے بانی) اورپروفیسرماہان مرزا(لیڈفیکلٹی مدرسہ ڈسکورس) جدید دنیاکی جانب سے مذہبی فکرکودرپیش چیلنجوں کی تفہیم کرانے والے مختلف پیچیدہ اورمشکل سوال لے کرآئے جن کوپوری Intencity اورشدت کے ساتھ مسلم روایتی ذہن کے سامنے رکھنے میں ڈاکٹرسعدیہ یعقوب، پروفیسرجیرالڈمکینی، ڈاکٹرمحمدیونس، پروفیسراطالیہ عمیر، پروفیسرجیسن اے اسپرنگ اورمولاناعمارخان ناصرنے مختلف اسلوب واندازمیں حصہ ڈالا۔ ان حضرات نے اسلامک فیمنزم اور روایتی فقہی فکرکے حوالہ سے اسلام میں حقوق ِنسواں کی بحث، بایوسائنس اورجدیدٹیکنالوجی کے پیداکردہ مسائل اورابراہیمی مذاہب ؛یہودیت، مسیحیت اوراسلام کا موقف، آزادی ٔنسواں اوریہودی روایتی موقف کی تفہیم کرائی نیزاسلامی فلسفیانہ فکر(شعرانی اورملاصدراکے حوالہ سے)اورجدیدذہن کے اشکالات کا جائزہ لیا۔ پاکستان کے مولانا محمد عمار خاں ناصرنے بھی مسائل کی تفہیم میں وقتاًفوقتاًحصہ لیااوراخیرکے دودنوں میں جنوب ایشیاکی اسلامی فکر، شاہ ولی اللہ اورانورشاہ کشمیری وغیرہم کے خیالات وافکارکے جائزہ پر مبنی انہیں کے ساتھ خاص رہے۔ ان کے ساتھ ہی ہندوستانی مدرسہ ڈسکورس کے استادو گائڈ مولانا ڈاکٹروارث مظہری کوبھی لیکچردیناتھے مگربعض ضروری مجبوریوں کے تحت وہ ایک ہفتہ کی شمولیت کے بعدہندوستان واپس ہوگئے اس لیے ان سے استفادہ سے شرکاء محروم رہے۔

اس انٹینسِومیں تقریبا۲۵طلبہ پاکستان سے، ۱۹، انڈیاسے، ۵جنوبی افریقہ سے تھے جبکہ نوٹرے ڈیم یونیورسٹی امریکہ سے سات طالبات شریک تھیں۔ انٹینسِوکا شیڈول بہت ٹائٹ تھا۔ صبح نوبجے سے لیکچرز شروع ہوتے توشام پانچ بجے تک چلتے، بیچ نمازاورکھانے کا وقفہ ہوتا۔ بعدمغرب کے Cosmos دکھائی جاتی اوراس کے بعدڈنر۔ ساڑھے نوبجے رات کودوسرے دن کی ریڈنگ کی تیاری کی جاتی۔ یادرہے کہ اس انٹینسِو کی تقریبا400صفحات پر مشتمل reading book تمام شرکاء کوکوئی ایک ماہ پہلے سے فراہم کردی گئی تھی جسے سب کوپڑھ کرآناتھا۔

طلبہ اورفیکلٹی کے قیام کا نظم ڈھولی خیل رزارٹ میں رکھاگیاتھاجوکاٹھمنڈوشہرسے ۴۰کلومیٹردورپہاڑی خطہ میں نہایت سرسبزوشاداب اورپُرفضامقام ہے۔ نیپال پہاڑوں، وادیوں، جھرنوں اورقدرتی خوبصورت مناظرکے علاوہ ماؤنٹ ایورسٹ نیز دنیاکی کئی اوربڑی پہاڑی چوٹیوں کا دیس ہے، ڈھولی خیل بھی انہیں خاص مقاموں میں سے ایک ہے۔ دہلی کی شدیدگرمی سے پندرہ دن تک کے لیے راحت مل گئی بلکہ مجھے تویہاں قدرسے سردی سی محسوس ہوتی۔ روزانہ رات کوبارش شروع ہوکردن کے دوپہرتک ہوتی رہتی۔ موسم کے لحاظ سے سب لوگ گرم کپڑے وغیرہ لیکرآئے تھے۔ قیام کا نظام بہتربنانے کی کوشش کی گئی تھی مگرایک ہی کمرہ میں تین تین طلبہ کورکھنامناسب نہ تھاکہ اکثرمزاجوں کی ناموافقت اذیت کا باعث بن جایاکرتی ہے۔ ریفریشمنٹ اورکھانے کا انتظام بہت اچھاتھااورامریکن طرزطعام اورمشرقی کھانوں کا امتزاج تھا۔

یوں توپورے انٹینسِومیں زیادہ ترانگریزی ہی لیکچراورسوال وجواب کی زبان رہی تاہم اردومیں بھی سوال وجواب کی گنجائش تھی جس کا علی الفورانگریزی ترجمہ پروفیسرماہان مرزاورکھبی کبھارپروفیسرابراہیم موسی ٰ کردیاکرتے۔ البتہ اخیرکے دودنوں میں مولاناعمارناصرکی گفتگواورسوال وجواب کی نششتوں میں اردوہی اظہارمافی الضمیرکا وسیلہ بنی رہی۔

سمرانٹینسِوکے پہلے تین دن ولیم کالج میں مذہب کی اسسٹنٹ پروفیسرڈاکٹرسعدیہ یعقوب نے فقہی متون (امام سرخسی)قدیم فقہی فتاوی اورفیصلوں کا تذکر ہ کیااورتقابل میں بتایاکہ مغربی دنیامیں متحرک اسلامی فیمنزم کی نمائیندہ لکھنے والیاں کیشیاعلی، آمنہ ودوداور حنا اعظم وغیرہ scriptural reasoning کوکس طرح برتتی ہیں یعنی وہ خواتین کے تعلق سے مذہبی متون کی ریڈنگ اورتشریح کیسے کرتی ہیں۔ اسلامی فیمنزم کا موقف اصل میں یہ ہے کہ مسلم معاشرہ بنیادی طورپر پدرسری معاشرہ ہے جس میں اسلامی دینیات کے مراجع قرآن، حدیث اورفقہی متون مردکوعورت پر ملکیت کا حق (تملیک) دیتے ہیں۔ اس فیمنزم (جس کی ایک نمائندہ خودموصوفہ بھی تھیں) کا کہناہے کہ  آج حالات بدل چکے ہیں اورنیشن اسٹیٹ کے اِس زمانہ میں جبکہ مردوعورت دونوں کماتے ہیں ہم معاشرتی طورپرزرعی دورکے اس معاشرہ کی طرح نہیں سوچ سکتے جس میں مردعورت پر ایک طرح کی ملکیت رکھتاتھا۔ ان کے مطابق فقہاکا مردوعورت کے بارے میں بنیادی تصورارسطاطالیسی ہے کہ عورت صنف نازک، ناقص العقل اورمردصنف قوی ہے۔ آج یہ تصورہی بنیادی طورپر تبدیل ہوچکاہے اس لیے اس مفروضہ( Asumption) پر مبنی احکام پر نظرثانی کی جانی چاہیے۔ فقہ اسلامی کا غالب رجحان یہ ہے کہ عورت کا بنیادی وظیفہ شوہر کی جنسی خواہش کی تکمیل ہے اوربس۔ مگرپروگریسومسلمان ان فقہی تصورات سے بیزاری کا اظہارکرتے ہیں اوروہ ایسی نئی فقہ ڈیولپ کرنے کے حق میں ہیں جومردوعورت کے درمیان مساویانہ رویہ رکھے۔ یہاں تملیک سے خودفقہاء کیامرادلیتے ہیں اوراس تعبیرکی وہ خودکیاتشریح کرتے ہیں اس سے زیادہ بحث نہیں بلکہ مسلم معاشرہ عملاًنظریہ ٔتملیک کے نتیجہ میں جورویہ خواتین کے ساتھ روارکھتاآیاہے اصلاًوہی مرکزتوجہ بن گیاہے۔ اس ضمن میں جدیدمسلم مصنفین مثلامولانامودودی وغیرہ جس طرح مردوعورت کی اس عدم مساوات کوJustify کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کوفیمنزم کے علمبرداربددیانتی  Apolojecticاورفقہ کی غلط ترجمانی سے تعبیرکرتے ہیں۔ اس پر بجاطورپر یہ سوال پیداہوتاہے کہ وللرجال علیہن درجۃ اورالرجال قوامون علی النساء جیسے قرآنی نصوص کی تفہیم پھرکس طرح ہوگی ؟فیمنزم والے کہتے ہیں کہ یہ دراصل قرآن کا کوئی ابدی حکم نہیں بلکہ نزول قرآن کے وقت انسانی معاشرے عورت کے بارے میں جوتصورات رکھتے تھے (خاص کرعرب پس منظرمیں )قرآن نے اس کوبس ویسے ہی بیان کردیاہے۔ آج ان نصوص کی نئی تفہیم درکارہے۔ یادپڑتاہے کہ معجزات کی بحث اورعیسی ٰبن مریم علیہ السلام کی پیدائش وموت وغیرہ بحثوں پر گفتگوکرتے ہوئے سرسیداحمدخان نے بھی اپنی تفسیرمیں جابجااِس طرف اشارے کیے ہیں۔

میرے کمرے کے ایک پاکستانی ساتھی بہت سوتے تھے میں نے مزاحاًان کوکہاکہ اتناکیوں سوتے ہیں ؟کہنے لگے کہ دنیامیں نیندسے زیادہ مرغوب چیز کوئی نہیں اگر۱۲گھنٹے نہ سوؤں تومزہ نہیں آتا۔ راقم کے منہ سے برجستہ نکل گیاجب اتناہی سوناتھاتوپاکستان کیوں بنایاتھا!وہ بھی کہاں چوکنے والے تھے، بولے پاکستان توبقول شخضے علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت تھی۔ ان کے بے ساختہ جواب پر قہقہ پڑا۔ راقم آج کل علی گڑھ میں برسرکارہے اس لیے تلمیح کاٹ دارتھی۔

اگلے دودن پروفیسرابراہیم موسیٰ اوران کے شاگرددکتورمحمدیونس کی گفتگوئیں رہیں جن کا موضوع امام عبدالوہاب شعرانی کی ارشادالطالبین اورملاصدراکا فلسفہ رہا۔ شعرانی محی الدین ابن عربی کے شاگردہیں۔ ان کی کتاب میں القلم الاعلی، الواح المحووالاثبات، اسبا ب الخیر، سعادت کا حصول حقیقیت محمدیہ جیسی پیچیدہ بحثوں پر بات ہوئی۔ شعرانی کا خیال ہے کہ القلم الاعلی جولکھدیتاہے اس میں کوئی تغیروتبدل نہیں ہوسکتامگراس کے علاوہ 360اقلام ہیں جوالواح المحووالاثبات میں لکھتے رہتے ہیں۔ ان میں کمی زیادتی اورحذف واضافہ ممکن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کوسفرمعراج میں ان ہی اقلام کی آواز (صریف الاقلام یاصریرالاقلام )سنائی دی تھی۔ ظاہرہے کہ یہ شعرانی کی imaginationہے۔ تاہم میرے خیال میں شعرانی یہ جوکہتے ہیں کہ علم کا حتمی اورUltimate سورس اللہ تعالی ٰہے جودوذریعوں سے انسانوں کوعلم دیتاہے :وحی کے ذریعہ اوربذریعہ الہام والقاء۔ پہلے ذریعہ علم سے سیاست شرعیہ وجودمیں آتی ہے جبکہ الہام والقاء کے ذریعہ سیاست حکمیہ۔ سیاست حکمیہ پہلے ہوتی ہے سیاست شرعیہ اس میں اصلاح پیداکرتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالاجاسکتاہے کہ انسانی تجربا ت، تہذیبی اقداراورمبنی برعقل نظریات وآراء اورمحسوسات بھی خداہی کی طرف سے ہوتے ہیں لہذاسیکولرعلوم ونظریات سے بھی بایں طوراستفادہ کرناچاہیے کہ وہ بھی خداکی طرف سے ہیں۔ شعرانی کایہ تصورعلم قدیم وجدیدکے قصہ کا خاتمہ کردیتاہے اوران کی باہمی معرکہ آرائی کوقصہ ٔکوتاہ قراردیتاہے۔ اس سے مذہب وسائنس یاعقل ونقل کے مابین تصادم کی ساری تھیوری بے معنی ہوکررہ جاتی ہے۔ تصوف اورReasonسے ہم آمیزشعرانی کے خیالات آج مذہب وسائنس کے تصادم کی بحث میں کام دیتے ہیں اوران خیالات وافکارکوبھی معنی خیزبنا دیتے ہیں جوانسان نے اپنی عقل، حس، مشاہدہ اورتجربات سے اخذکیے ہیں۔ بیسویں صدی کے سیاسی اسلام کے بعض علمبرداریاروایتی علما جس شدت سے سیکولرعلوم کی مخالفت کرتے رہے ہیں ان کے بالمقابل شعرانی کے یہ خیالات حیرت انگیز تھے۔ شاہ ولی اللہ نے بھی حجۃ اللہ البالغہ میں مفہمون یااہل عقل ونظرکی اصطلاح استعمال کی ہے جس کا سب سے اعلی طبقہ وہ انبیاء کوقراردیتے ہیں۔ اورفلاسفہ کوبھی مفہمون میں گردانتے ہیں۔ شعرانی اورشاہ ولی اللہ ان خیالات سے استفادہ کرکے سائنس ومذہب یاعقل ونقل کے مابین مفروضہ کشمکش کے خاتمہ یاکم ازکم اس کی شدت میں کمی لانے کا کام کیاجاسکتاہے۔

غالباًانٹینسِو کے چوتھے دن کی شام راقم نے اپنے ساتھی مفتی سعدمشتاق صاحب کوساتھ لیکرپاکستان کے ابھرتے نوجوان عالم و مفکر مولاناعمارخاں ناصرمدیرالشریعہ سے قریباً ایک گھنٹہ کی ملاقات کی اس ملاقات میں مختلف موضوعات زیربحث آئے اورعمارخاں صاحب سے بہت سے سوالات بھی ہم لوگوں نے کیے اوراستفادہ کیا۔

بایوسائنس، نئی ٹیکنالوجی اوردینیات:بایوسائنس، جینیٹک انجینرنگ اورنئی ٹیکنالوجی نے جوایجادات کی ہیں انہوں نے دینیاتی فکرکے لیے نئے چیلنج پیداکردیے ہیں۔ آج ارتقاء کوایک سائنسی مسلمہ ماناجاتاہے۔ انسانی کلوننگ کے عمل کے ذریعہ جیتاجاگتامصنوعی انسان (Post human)یاNew Humanپیداکرنے کی طرف آج کی سائنس بڑھ رہی ہے۔ مغرب میں کوشش ہورہی ہے کہ انسان کوابدی بنادیاجائے۔ اُسے موت نہ آئے یاوہ ہمیشہ جوان رہے، یاکم ازکم ا س کی زندگی کا دورانیہ بے حدطویل کردیاجائے۔ ایسی دوائیں بنائی جارہی ہیں جن سے اس کے جذبا ت پر کنٹرول ہوجائے۔ مثلاوہ جب چاہے خوش ہوجائے۔ وہ ناراض نہ ہو، اُسے اشتعال نہ آئے نہ کوئی رنج وغم محسوس ہو، وہ کبھی نہ اکتائے کبھی تکان محسوس نہ کرے۔ ایسے روبوٹ بنائے جارہے ہیں جن میں ارادہ وشعورانسان کی طرح ہو۔ روبوٹک بیویوں کا تصورکبھی فکشن کی کتابوں میں ملتاتھا اب پوراہونے جارہاہے۔ جینیٹک انجینرنگ کے ذریعہ اپنی مرضی کے انسان پیداکیے جانے کی بات ہورہی ہے۔ جن کی ذہانت اورعقل وشعورڈرگس اورمشینوں کے تابع ہوں گے۔ سوچیے کیاہوگاجب آپ کا امام وخطیب کوئی روبوٹ ہوگا۔ امامت اورمؤذنی، لیکچراورتعلیم کے اعمال روبوٹ انجام دیاکریں گے!!اس میں تعجب کی بات نہیں کہ جرمنی میں کئی سال سے روبوٹ چرچ میں پادری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ جاپان میں مرد ہ کی آخری رسومات ایک روبوٹک پروہت انجام دے رہاہے !!

بایوسائنس سے پیداشدہ ان سوالوں اورچیلنجوں سے زیادہ سابقہ یہودی اورعیسائی دینیات کوپڑرہاہے۔ مسلمان علما اوراہل فقہ بوجوہ ابھی اس سے دورہیں لیکن بہرحال یہ اشکالات ان کے سامنے بھی آئیں گے۔ یہودی اورعیسائی مذہبی روایات نے ان چیلنجوں کا سامناکس طرح کیااس کی ایک جھلک مورل تھیولوجی کے ماہر پروفیسرمکینی اورپروفیسرجیسن اسپرنگ کی گفتگوؤں میں دکھائی دی۔ پروفیسرجیرالڈمکینی پاکستان کے مشہوراسلامی اسکالرفضل الرحمان کے شاگردبھی رہے ہیں۔ مغربی دنیامیں اسلام پر سب سے قابل اعتباراورسب سے زیادہ پڑھے جانے والے اسکالرفضل الرحمان ہیں جوصدرایوب کے زمانہ میں پاکستان میں ایک کلیدی عہدہ پرفائزکیے گئے تھے مگرقدامت پسندوں کی شدیدمخالفت کی وجہ سے پھروہ ملک چھوڑگئے اورامریکہ چلے گئے تھے وہیں ان کی وفات ہوئی۔ راقم نے ادھرفضل الرحمان کی کئی کتابیں پڑھی ہیں۔

پروفیسرمکینی نے سائنس وٹیکنالوجی کے ذریعہ آرہے ان چیلنجوں کی تین تقسمیں کیں۔ (۱) سائنسی عقلیت پسندی evedentialism جس میں ہرچیز کا محسوس ثبوت مانگاجاتاہے اورتجربہ وتصدیق کے تجزیہ کاحق بھی لوگوں کودیاجاتاہے۔

(۲) انفرادیت پسندیIndividualism یعنی فردخوداپنی عقل کا استعمال کرکے معاشرتی حدودوقیودسے آزادہوخودفیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہووہ دوسروں پر انحصارنہ کرے۔ وہ خوداپنی پسندناپسندکا معیارطے کرے۔

(۳) مذہبی تکثیریت

مقررنے بتایاکہ بائبل کے علمانے اس چیلنج کے جواب میں تین طرح کے رویوں کوڈیولپ کیا:

۱۔ معذرت خواہانہ رویہ کہ بائبل کوجدیددورکے مطابق سمجھاجائے اوراس کی تعبیرکی جائے۔ ۲:بائبل کا تاریخیت پر مبنی مطالعہ یعنی تاریخی شہادت اوردرایت کوکام میں لاتے ہوئے بائبل کے ان نصوص کومستردکردیاجائے جن کوتاریخ ثابت نہیں کرتی، اوربقیہ نصوص کی درایت پر مبنی تعبیرکرنا۔ ۳:یہ موقف کہ بائبل کی کہانیاں اصل میں تمثیل واستعارہ کی زبان میں انسانی تجربات کا بیان ہیں اس لیے ان کوAs it isمانناچاہیے، اس میں تاریخی ثبوت ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔ مؤخرالذکررویہ کی ترجمانی پروفیسرہنس فرائے اورپروفیسرمیکنٹائرکرتے ہیں۔

جدید سائنس سے قبل پوری دنیامیں انسان کے نیچرکا وہی تصوررائج تھاجوارسطونے دیاتھایہاں تک کہ مسلمان حکماء وفلاسفہ نے بھی اسی کی پیروی کی۔ اس لیے کہاجاتاہے کہ وحی کے مقابلہ میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑاآدمی ارسطوہے۔ آج کا مسئلہ یہ ہے کہ بایوسائنس کے ذریعہ کیافطرت انسانی میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے ؟اس بارے میں مذہبی مسلمہ روایت (کیتھولک، اسلام اوریہودیت )یہ ہے کہ کائنات کا نیچرایک بار بنادیاگیاہے (ارسطواورسینٹ آگسٹائن یہی کہتے ہیں )اس لیے فطرت میں کوئی بھی تبدیلی تغییرخلق اللہ ہوگی۔ دوسراموقف یہ ہے کہ تخلیق کا کام مکمل نہیں ہوااوروہ جاری ہے اورانسان بھی اس میں حصہ لے رہاہے اس لیے کائنات کے نیچرکوتبدیل کیاجاسکتاہے اوراس پر تغییرخلق اللہ کی وعیدکا اطلاق نہ ہوگا۔ (خیال رہے کہ بائبل کے بعض نصوص سے بھی اس کی تائیدہوتی ہے اورقرآن بھی اسی کا قائل ہے جس کواقبال نے یوں تعبیرکیاہے۔   ؎  یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید      آرہی دم بدم  صدائے کن فیکون

لیکچرمیں یہ بات بھی سامنے آئی کہ نان ہیومن agents کے ذریعہ بھی انسانی فطرت تبدیلی کوقبول کرتی ہے تاہم اگرانسانی فطرت میں ایسی تبدیلی لادی جائے کہ تمییزخوب وناخوب کا معیارہی بدل جائے توکیاایساکرناچاہیے ؟اس سوال پر دینیات کے علما کو سوچناچاہیے۔

سمرکیمپ میں کھیل کی اورصحت سے متعلق سہولیات فراہم کی گئی تھیں بعض طلبہ کھیلتے بھی تھے مگرماحول اتنامسحورکن تھاکہ زیادہ ترشام میں گھومنے اورٹہلنے کوترجیح دیتے۔ پاکستانی احباب فوٹوکھینچنے کے بڑے شائق نظرآئے حالانکہ ہندوپاک میں تصویراورفوٹوکے معاملہ میں علما کے مابین جوازوعدم جواز کی بحث ابھی بھی چھڑی ہوئی ہے، تاہم فوٹوکلچرکے جنون نے کیاعلماکیاغیرعلماسب کوبری طرح متاثر کرڈالا ہے۔

پروفیسراطالیہ عمیر(اسرائیل) نے اپنے لیکچرمیں وضاحت کی کہ ابراہیمی مذاہب یہودیت، مسیحیت اوراسلام کے درمیان مذاکرات کے کیاامکانات ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ امریکہ میں عرب، مسلمان اوریہودی حقوق انسانی کے کارکنان کس طرح مل جل کرکام کرتے ہیں۔ اورخوداسرائیل کے مظالم کے خلاف یہودی گروپ فلسطینیوں کے ساتھ مل کرکام کرتے ہیں۔ اسرائیل کے خلاف مظاہرے کرتے، لٹریچرتقسیم کرتے اوررائے عامہ کوبیدارکرتے ہیں۔ یہودیوں، عربوں اورمسلمانوں کے مابین گہری ہوتی خلیج کے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایاکہ تاریخ میں دونوں قوموں کے مابین خوش گوارتعلقات رہے ہیں اورموجودہ کشیدگی ایک نیاظاہرہ ہے جس کواسرائیل کے قیام اورصہیونی تحریک سے زیادہ بڑھاواملاہے۔ انہوں نے تحریک استشراق کا ذکرکرتے ہوئے معروف عرب اسکالرایڈورڈ سعیدکی استشراق پر تنقیدکے حوالہ سے مستشرقین کے رجحانات اورمغربی استعمارکے لیے ان کی خدمات کا تذکرہ کیا۔

انٹینسِوکے آخری دودنوں میں مولاناعمارخاں ناصرنے اپنے مخصوص اسلو ب میں پورے sense of humar کوکام میں لاتے ہوئے شاطبی، شاہ ولی اللہ اورشعرانی کی فکرکے حوالہ سے گفتگوکی جس کا عنوان تھاکہ انبیائی دعوت اورغیرانبیائی خطاب میں فرق۔ نئے مسائل کے جواب میں اس سلسلہ میں انہوں نے فکراسلامی کی دوپوزیشنوں کا ذکرکیا۔ پہلی پوزیشن فقہاء کی ہے جواسلام کے لیگل فریم ورک میں رہ کرکام کرتے ہیں اوراس کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ دوسری پوزیشن Historicism والوں کی ہے جن کے نمائندہ کے طورپرمولانانے مولاناشاہ جعفرپھلواروی ندوی کی ایک کتاب مقام سنت کا حوالہ دیا۔ مقام سنت میں ندوی صاحب نے اس خیال کا اظہارکیاہے کہ عبادات میں تعبدمطلوب ہے مگرمعاملات میں تعبداصل نہیں اس لیے اشکال بدل سکتی ہیں۔ مولاناعمارخاں نے فرمایاکہ تاریخیت کی اس پوزیشن پرکئی اشکالا ت پیداہوتے ہیں جن کا جواب یہ لوگ لیگل فریم ورک میں نہیں دیتے۔ یہ سوال بھی زیربحث آیاکہ موجودہ زمانہ تھیوری آف اجتہادکیاہوگی ؟عملی اصول پر مبنی علمیات کیاہیں ؟شریعت اورمتغیرات کے مابین کیارشتہ ہے ؟ مولانا عمار خاں صاحب نے جہاداوراس کی نئی تفسیرات پر بحث کرتے ہوئے بتایاکہ جہادکی جدیدتشریحات نئے زمانہ اورجدیدذہن کوتوایڈریس کرتی ہیں مگروہ فقہاء اورکلاسیکل جہادکی تعبیرکا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیتیں مثال کے طورپرکہاجاتاہے کہ اسلام میں جہادصرف دفاعی ہے۔ پھران مہموں کا کیاجوازہوگاجونبی اکرم ﷺ نے یاخلافت راشدہ کے عہدمیں روم وشام مصراورایران وعراق کے خلاف چھیڑی گئیں ان کوجہادِدفاع کس اصول کے تحت ثابت کیاجائے گا؟

ایک مسئلہ یہ زیربحث آیاکہ قرآن میں جوسائنسی معلومات ہیں وہ ضروری نہیں کہ Exact سمجھی جائیں بلکہ اس زمانہ کے ذہن کوسامنے رکھ کرقرآن نے اس انداز میں بات کہ دی کہ اس وقت کے مخاطب بات سمجھ جائیں۔ اسی طرح خرق عادت جوامورہیں وہ شریعت کا موضوع نہیں بلکہ شریعت کا موضوع امورمعتادہ ہیں۔ شاہ ولی اللہ کہتے ہیں کہ تفصیلات میں عرب کلچرکوگرچہ لیڈنگ کرداردیاگیاہے مگریہ مطلوب نہیں کہ دوسرے معاشروں کے فروق، اعراف ومالوفات کوختم کردیاجائے۔

ایک سوال یہ اٹھاکہ اگرعلل واسباب اورمصالح وحکم کے حوالہ سے اصول ہی بدل جائیں توشریعت universal کیسے رہ پائے گی ؟یہ بھی پوچھاگیاکہ جب اس سے قبل کی شریعتیں مختلف رہی ہیں توآج شریعت اسلامیہ کوفائنل کیوں کہاجاتاہے؟ ایک سوال یہ آیاکہ اصل دین اوردین کے Contingent حصہ میں فرق کرنے کی وجہ وعلت کیاہے؟ اقبال ؒ نے اپنے خطبات میں اس رائے کا اظہارکیاہے کہ روایت کا احترام کرتے ہوئے ہرنئی generation کوخداکی منشاء جاننے اوراس کے لیے کوشش کرنے کا حق ہے۔ جہاداورغلبہ ٔدین اورآخری زمانہ کے بارے میں ظہورِمہدی ویاجوج وماجوج کے حوالہ سے مولاناعمارناصرصاحب نے علامہ انورشاہ کشمیری کی اس رائے کا ذکرکیاکہ اس سلسلہ کی احادیث سے جوکچھ معلوم ہوتاہے وہ پوری دنیاپر اسلام کا غلبہ نہیں بلکہ ملک شام اوراطراف کا علاقہ مرادہے۔ اسی طرح یاجوج وماجوج کا خروج ایک لمبازمانی مرحلہ ہے۔ آج ترک(مسلمان) اورمغربی قومیں یاجوج وماجوج کی اولادہیں اورہم انہیں کے زمانہ میں جی رہے ہیں۔

سمرانٹینسِومیں ۱۲جولائی کواسلامی فقہ اکیڈمی کے روح رواں مولاناامین عثمانی ندوی کا خطاب بھی ہواجس میں انہوں نے ہندوستان میں فقہ، نئے مسائل اوراجتہادکے سلسلہ میں اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے کیے گئے اپنے تجربات سے شرکاء کوآگاہ کیا۔ حالات کی نزاکت، نئے مسائل اورتحدیات کا ذکرکیااورشرکاء کواکیسویس صدی کا عالم کیساہوناچاہیے اس پر غوروفکراورتیاری کے لیے مہمیز کیا۔ ان کی گفتگوفکرانگیز، معلوماتی اورمؤثررہی۔

سمرانٹینسِوکا مقصدصرف متعینہ موضوعات پر شرکاء کولیکچرپلانانہ تھابلکہ مشرق کی عام روایت سے ہٹ کرہرلیکچرکے بعداورلیکچرکے دوران بھی طلبہ کوسوال وجواب کرنے کی بھرپورآزادی تھی۔ ا س کے علاوہ روزانہ دوپہرکی نششت میں طلبہ کوایک متعین سوال دیاجاتا، بعدازاں شرکاء کے کئی گروپ بنادیے جاتے، ہرگروپ میں ہندوستانی پاکستانی جنوبی افریقہ اورنوٹرے ڈیم ہرجگہ کے طلبہ کورکھاجاتا۔ گروپ اس سوال پرباہمی ڈسکشن کے بعدکسی رائے تک پہنچتایااختلاف ِرائے بھی رہتاپھرہرگروپ سے ایک ایک نمائندہ انگریزی یااردومیں گروپ کی بات پیش کرتا۔ پھراس کے بعدلیکچرراس پر تبصرہ کرتا۔ ہرروزاس کا بھی التزام کیاجاتاکہ طلبہ اپناگروپ بدلتے رہیں تاکہ ہرطالب علم بحث ومباحثہ اوراظہارخیال کے اس عمل کاحصہ بن جائے۔ نیز کھانے کی میز اورچائے کے وقفوں میں بھی گفتگواورسوال وجواب کا سلسلہ جاری رہتا۔ کہیں طلبہ پروفیسرابراہیم موسیٰ کوگھیرے ہوتے کہیں وہ عمارناصرصاحب سے بحث کررہے ہوتے اورکہیں ڈاکٹرسعدیہ، جیسون اسپرینگ اورمحمدیونس وغیرہم سے بات ہورہی ہوتی۔

صبح میں توباہرنکلنے کا موقع کم ملتاچونکہ صبح کے وقت اکثربارش ہورہی ہوتی۔ مگرشام کوروزانہ بعض رفقاء کے ساتھ گھومنے کے لیے ضرورنکلتے، جن میں مفتی سعدمشتاق توضرورہی ہوتے۔ کبھی پہاڑوں پر چڑھتے کبھی گہری کھاہیوں میں اترتے۔ نہایت گہری کھائیوں اوراونچی چوٹیوں پرہرکہیں لوگوں نے گھربنارکھے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگوں سے ملاقات اوربات چیت بھی ہوئی۔ نیپال میں عام طورپر ہندی بولی اورسمجی جاتی ہے بعض نیپالی ہندوہونے کے باوجودانڈیاسے ناراض نظرآئے کیونکہ ان کے بقول انڈیاکی پالیسیاں بڑے بھائی والی فراخدلانہ نہیں بلکہ بنیاگردی پرمبنی ہیں۔ بالمقابل انڈیاکے نیپالیوں کا جھکاؤچین اورجاپان کی طرف زیادہ ہے۔ نیپالیوں میں مذہب کی طرف رجحان بہت کم ہے، مندرتوچھوٹے بڑے بہت ہیں اوربعض تاریخی بھی ہیں مگراکثرغیرآبادہیں۔ نیپال میں کئی سال پہلے جوزلزلہ آیاتھااس نے کاٹھمانڈواوراس کے مضافات کوزبردست نقصان پہنچایاتھا۔ بعض تاریخی عمارات اورمنادرومحلات وغیرہ کوpreserve اورRehabilitate کرنے کا کام اب جاپان اورچین کی بعض تنظیمیں یونیسکوکے ساتھ مل کرکررہی ہیں۔ نیپالی زبان، لب ولہجہ اوررویہ میں بڑے نرم خواورنرم مزاج ہیں۔ صحت اچھی، قداکثرچھوٹااورناک چپٹی ہوتی ہے۔ فی الحال مغرب زدگی بہت ہے اس لیے بے پردگی عام ہے۔ غربت درودیوارسے ٹپکتی ہے کیونکہ ملک قدرتی وسائل سے تقریباتہی دست ہے اورزراعت بھی اس لیے نہیں ہے کہ پہاڑی ملک ہے۔ لے دے کرکاٹھمانڈواوربعـض دوسرے مقامات سیاحتی زمرہ میں آتے ہیں جوآمدن کا بڑاذریعہ ہیں۔ کاٹھمانڈو اورمضافات میں گندگی نظرآئی، روشنی اوربجلی کا معقول نظم نہیں تھاٹرانسپورٹ بھی اچھانہیں۔ لیکن ایک چیز نیپال میں بہت خاص نظرآئی کہ کہیں مردوں یاعورتوں میں لڑائی جھگڑاتوتومیں حالت نہیں دکھائی دی نہ ہی کوئی آدمی کھلے میں کہیں پیشاب کرتاہواملا۔

انٹینسِوکے درمیان دوجمعے پڑے تھے۔ پہلاجمعہ کاٹھمنڈوکی جامع مسجدمیں پڑھاگیاجوایک بڑی اورکشادہ مسجدہے اس کے پا س ہی ایک کشمیری مسجدبھی ہے جس میں مزارات ہیں ان کوخاصاپررونق بناکررکھاگیاہے۔ یہ بریلوی حضرات کے زیرانتظام ہے۔ جامع مسجدجس میں ہم نے نماز پڑھی ا س کے امام ایک ندوی فاضل ہیں انہوں نے عربی خطبے سے پہلے ایک چھوڑدودوتقریریں اردومیں کیں، بات توعجیب سی لگی مگرحکمت شایدیہ تھی کہ بعدمیں آنے والے نمازی بھی اردوخطاب سے مستفیدہوسکیں۔ نماز جمعہ کے بعدتاریخی منادراورعمارتیں دیکھی گئیں اورپھرشاپنگ کی گئی۔ ڈنرایک ہوٹل میں تھاجہاں سے قریبانوبجے رات کوڈھولی خیل رزارٹ کو واپسی ہوئی۔

کنواری دیوی :شہرکے شیومندرمیں ایک پرانی رسم یہ چلی آرہی ہے کہ کسی منتخب خاندان کی کمسن لڑکی کومندرکے لیے خاص کرلیاجاتاہے، اُس سے کوئی مل نہیں سکتا، کوئی بات نہیں کرسکتا، والدین بھی سال میں ایک آدہ بارہی اس سے ملاقا ت کرسکتے ہیں۔ اس کوتعلیم بھی وہیں دلائی جاتی ہے۔ جیساکہ قدیم ہندمیں دیوداسی ہواکرتی تھیں۔ مگرفرق یہ ہے کہ یہ کنواری دیوی بلوغت تک ہی دیوی رہتی ہے، بالغ ہوتے ہی اس کا یہ منصب بھی ختم ہوجاتاہے اوراس کوسرکاری اخراجات پر بیرون ملک اعلی تعلیم کے لیے بھیج دیاجاتاہے اوراس کی جگہ کسی دوسری کم سن لڑکی کومنتخب کرلیاجاتاہے۔ کنواری دیوی ہفتہ میں ایک دن ۴ بجے دن کوآنے والوں کوبالاخانہ سے ایک جھلک دکھلاتی ہے جس میں فوٹولیناممنوع ہوتاہے۔ روزانہ اُسے دیکھنے کے لیے آنے والوں کا ہجوم ہوتاہے، وہ کھڑکی میں کھڑی ہوکرہجوم کی طرف جھانکتی اورپھرفوراً غائب ہوجاتی ہے۔ جس دن دن ہم وہاں پہنچے تھے اس کے نظرآنے کا وقت ہواچاہتاتھا۔ لوگ دم بخودتھے اچانک ایک چھوٹی سی لڑکی کنگورہ میں نمودارہوئی، اُسے دیکھ کرلوگوں میں ہلاگلاہوااوروہ فوراًہی واپس ہوگئی۔ لوگوں کے ہجوم اوران کے اشتیاق کودیکھ کریقین ساآگیاکہ عام لوگوں کے لیے مذہب واقعی افیون ہی ہوتاہے جس کی بنیادپر ان سے کچھ بھی کروایاجاسکتاہے۔

دوسرے جمعہ کونماز کلاس ہال میں ہی پڑھی گئی۔ خطبہ اورامامت کے فرائض پروفیسرماہان مرزانے انجام دیے جوایک نہایت متحرک، فعال اورپُرمزاح وشگفتہ انسان ہیں۔ ان کی باڈی لنگنویج اورپُرمزاح اسلوب تقریرنہایت دل کش ہوتاہے۔ ساتھ ہی وہ گہرے روحانی آدمی بھی ہیں۔ روزانہ شرکاء کوبڑی محبت سے Cosmose  دکھاتے اورکلاسوں میں بھی اپنےinterventions  سے رہنمائی کرتے رہتے۔ جمعہ کی نماز کے بعدسیرکے لیے کاٹھمنڈوشہرکی طرف نکلے۔ پہلے پشوپتی ناتھ مندرگئے جس کے Sanctum Sanctorum کے دروازے غیرہندوؤں کے لیے بندہیں۔ باقی وسیع وعریض احاطہ میں گھوم پھرسکتے ہیں۔ اس کے کنارے چھوٹی سی ندی بہتی ہے جس کا نام بھاگ متی ہے۔ جگہ جگہ شمشان گھاٹ بنے ہوئے ہیں جن میں سے بعض پر لوگ چتاجلارہے تھے۔ احاطہ میں چھوٹے چھوٹے بیسیوں مندروں کا سلسلہ دورتک چلاگیاہے۔ مین مندرکوچھوڑکربقیہ بوسیدہ اورغیرآراستہ ہے مگردیکھنے والوں کا تانتالگاہواتھا۔

وہاں سے نکل کربودھ استوپابودھاناتھ گئے جہاں پر ایک وسیع چبوترااورگنبدبناہواتھااس کے احاطہ کا بودھ بھکشواورشردھالورات دن طواف  کرتے ہیں۔ ساتھ ہی منتروں کا جاپ کرتے اورتسبیح پڑھتے جاتے ہیں۔ ساتھ کے کمرے میں بڑے بڑے گول ڈمروبنے ہوئے تھے جن کولوگ گھماتے ہیں یہ بھی ان دعاکاایک حصہ ہے۔ استوپادیکھنے کے بعدشاپنگ کی گئی اورمغرب بعداسی بودھ استوپاکے ایک ریستوراں میں ڈنرکا اہتمام تھا۔ نوبجے رات کوواپسی ہوئی۔

ذہنوں میں مختلف نئے سوالوں کواٹھاتاہوااورازسرنوغوروفکرپر آمادہ کرتاہوا یہ انٹینسِو۱۵دن بعدخیروخوبی سے ختم ہوا۔ آخری دن تما م شرکا ء کے تاثرات سنے گئے۔ جس میں پہلے انڈیاکی ٹیم نے اظہارخیال کیا، اس کے بعدپاک شرکاء نے پھرجنوبی افریقہ اورپھرنوٹرے ڈیم کی طالبات نے۔ آخری ڈنرمیں کلمات تشکراداکیے گئے اوراس کے بعدپروفیسرابراہیم موسیٰ کا الوداعی خطاب ہوا۔

سمرانٹینسِوکی کامیابی دراصل اسی میں مضمرتھی کہ اس نے ذہنوں کونئے انداز سے سوچنے پر مجبورکردیااورنئے نئے سوال مختلف حوالوں سے اٹھادیے۔ نئے سوال اٹھانااوران پر غوروفکرکرناہی دراصل کسی قوم کے ارتقاء کا پہلاقدم ہوتاہے۔ مدرسہ ڈسکورس اپنے طلبہ کوسوال کرنے، نئے مباحث پر سوچنے اوران کا جواب ڈھونڈنے کا فن سکھارہاہے یہی اس کورس کی خوبصورتی اورکامیابی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔