رائیگاں کی ریت پر محنت نہ کر

ڈاکٹر شکیل احمد خان

امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ماوئنٹیسری علاقہ کے مغربی ساحل پر پائے جانے والے پیلیکن پرند وں کے بارے میں ایک دلچسپ حقیقت سامنے آئی ہے جو حیرت انگیز بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ جان پا رنکی مالل نے  اپنی کتاب میںذکر کیا ہے کہ یہ علاقہ پیلیکن پرندوںلئے کسی جنت سے کم نہ تھا۔ کیونکہ یہاں کے مچھیروں کا معمول تھا کہ مچھلیوں کی صفائی کے بعد ان کی آنتیں کنارے پر پھینک دیا کرتے۔ بعد ازاں مچھلیوں کی آنتوں کا بھی تجارتی مصرف نکل آیااور مچھیروں کے آنتیں کناروں پر پھینکنا بند کر دیا۔ پیلی کن  پرندے حسبِ معمول کھانے کا انتظار کرتے رہے، لیکن وہ پھر کبھی نہیں آیا۔ انتظار کرتے کرتے وہ دبلے اور کمزور ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کی وہ بھوک سے پاگل ہونے لگے۔ مگر بغیر کسی جدوجہد اور محنت و مشقت کے آسانی سے ملنے والی غذا نے انھیں آرام طلب بنا دیا تھا۔ مزید یہ کہ مفت غذا کی فراہمی کے باعث وہ  شکار کرنا اور تلاش کرنا بھی بھول  چکے تھے۔ وہ صرف انتظار کرتے رہے اور دبلے اور کمزور ہوتے رہے۔ بالٓاخر وہ فاقوں سے مرتے گئے کیونکہ وہ اپنے لئے شکار کرنا بھول چکے تھے۔

کیا پیلی کن پرندوںکا  یہ رویہ اور انجام کسی چیز کی طرف متوجہ کرتا ہے ؟ کیا یہ ا متِ مسلمہ کی تاریخِ قریب کی صورتِ حال پر لاگو نہیں آتا۔ تیل کی دولت سے مالا مال حاکموں نے عوام کو ہر طرح کی سہولتیں، وظیفے اور عیش و آرام مہیا کروا کر انھیں آرام طلب بنادیا۔ ان کی اکثریت لہو و لعب میںمشغول و مبتلا ہو گئی کیونکہ انھیں زندگی بسر کرنے کے لئے خود کوئی جد و جہد کرنے کے ضرورت ہی نہیں رہی۔ مغربی ممالک سے ماہرین اور مشرقی ممالک سے ’خادمین‘  کو بلواکر ان کی صلاحیت اور مشقت پر ’پدرم سلطان بود ‘ بنے رہے۔ برصغیر میںبھی  ممالک، سلطنتیں، ریاستیں اور جاگیریں ملنے کے بعد جو جاگیردارانہ اور نوبی مزاج پیدا ہوا اس کے اثرات آج تک محسوس ہوتے ہیں۔ حاکموں نے کارخانوں اور یونیورسٹیوں کے قیام پر توجہ کرنے کی بجائے خو بصورت و عالیشان محلوں، مقبروں، امام باڑوں اور مساجد کی تعمیر پر اپنے وسائل لٹائے تو عوام میں قصیدہ خوانی کے ذریعہ آسانی سے روزی حا صل کرنے کا رجحان پروان چڑھا۔ بقول کوثر نیازی

کوچہِ یار کی  گدائی کی  

  بس یہی کام کی کمائی کی

 لیکن پھر ایک دن وہ آیا کہ نہ ممالک رہے نہ سلطنتیں، نہ ریاستیں رہی نہ جاگیریں !  یہ صورتِ حال ہوئی کہ نہ سر پر آسمان ہے اور نہ پیروں تلے زمین۔ ہم آج بھی صرف انتظار کرتے رہتے ہیں۔ بقولِ شاعر ’’ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِفردا ہیں‘‘۔ ہمیں اس مثال کی معنویت کو سمجھنا ہوگا۔ کتب خانوں، تجربہ گاہوں اور تیکنیکی درسگاہوں کے بند دروازوں کوپھر سے کھولنا ہوگا۔ سستی، کاہلی، تن آسانی، بیزارگی، بیچارگی اور خود ترحمی سے پیچھا چھڑانا ہوگا۔ ا پنا شکار یعنی روزی کو خود تلاش کرنے کی توفیق، ذہنیت اور صلاحیت کو  پھر سے پروان چڑھانا ہوگا ۔ ایک مقبول فلمی گیت ہوا کرتا تھا ’  سب کچھ سیکھا ہم نے، نہ سیکھی ہوشیاری :  سچ ہے دنیا والوں کہ ہم ہیں اناڑی ‘۔ یوں لگتا ہے یہ من حیثیتِ القوم ہماری تفسیر ہے۔ بلا شبہ ہم نے بہت کچھ سیکھا جیسے کبوتر و بٹیر پالنا، پتنگ اڑانا، عشق لڑانا، قسم قسم کے پکوان بنانا، پان کھانا، مجرے کروانا وغیرہ۔ ان چیزوں میں نہ کبی کوئی ہمارا مقابلہ کر سکا نہ آج کر سکتا ہے۔

لیکن ہم تھوڑی ہوشیاری بھی سیکھ لیتے،  بین الاقوامی سیاست بھی سیکھ لیتے، مصنوی سیاروں کا علم بھی سیکھ لیتے، رافیل و ایف  ۱۶  طیارے بنانے کی تیکنک بھی سیکھ لیتے تو آج ہماری وہ حالت نہ ہوتی جس کا اظہار میر تقی میرنے یوں کیا ہے کہ ’’منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا‘‘۔ نامی گرامی ادیب ومقررڈینس پریگر Dennis Prager  نے انسانی نفسیات کا بالکل درست تجزیہ کیا تھا کہ ’’  جب لوگوں کوبغیر محنت اور کمائی کے کچھ  دیا جانے لگتا ہے تو وہ  احسان فراموش اور کاہل ہو جاتے ہیں۔ اور وہ ناخوش بھی رہنے لگتے ہیں  ‘‘۔ طاہرہ کوکب کے الفاظ میں، ’’  محنت کے ذریعہ کما کر کھانا انسانی حمیتّ و خوداری کا تقاضہ ہے۔ ۔ ۔ اسلام اُن لوگوں کو ناپسند کرتا ہے جوبغیر محنت کے دوسروں کے سہارے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ نبی کریم کی سیرت میں یہ واقعہ بھی ملتا ہے کہ وہ مزدوری کرنے والوں کے ہاتھوں کے گٹھے کو خوش ہو کربوسہ دیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ارشاد نبی ہے کہ ’  اِس سے بہتر کوئی کھانا نہیں جو آدمی اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتا ہے۔ ۔ ۔ صحابہ کرام بھی  رزق ِ حلال کے لئے ہر قسم کی محنت و مشقت کیا کرتے تھے۔ ۔ ۔ کوئی لوہار تھے، کوئی چرواہے، کوئی تیز ساز، کوئی درزی، کوئی گھیریلوں نوکر، کوئی حجام،  تو کوئی قصائی۔ ۔ ۔ اِزواج  مطہرات  اور دیگر خواتین میں بھی کوئی کھالوں کی دباغت کرتی، کوئی جانوروں کی خدمت کرتی اور جنگل سے لکڑیا چرا کر لانے کام کرتی کچھ کھانا بنا کر فروخت کرتی، کچھ دودھ نکال کر فروخت کرتی، کچھ دایا کا کام کرتی، کچھ ذراعت کرتی، کچھ خوشبو فروخت کرتی، کچھ کپڑے بنتی اور کچھ بڑھئی کا کام کرتی تھی۔ ‘‘

 پس، ماضی کی کوتاہیوں کو بھلا کر ہمیں ایک نئے عزم کے ساتھ کائنات میں اپنا حصہ حاصل کرنے اور اپنے خود کے بل بوتے پر باوقار مقام حاصل کرنے کی جد و جہد کا آغاز کرنا ہوگا تاکہ ہمارا حال بھی ماوئنٹسری کے پیلی کن پرندوں کی مانند نہ ہونے پائے۔ یہ بہت مشکل بھی نہیں اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ عزت ووقار، دولت و کامیابی کا پھول پسینے سے آبیاری کیے ہوئے ’محنت کے درخت‘ پر ہی کھل سکتا ہے۔ ہر پھول اپنے مخصوص درخت پر ہی کھلتا ہے۔ جو یہ نہ سمجھے اسے مبارک حیدر کے الفاظ میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ

رونے والے  رائیگاں کی ریت پر محنت نہ کر

نرم رت کا پھول ہے دل، آگ میں کھلتا نہیں 

تبصرے بند ہیں۔