ایک مجلس میں تین طلاق کا مسئلہ اور مسلم پرسنل لاء بورڈ

عبدالعزیز

مسلم پرسنل لاء بورڈ نے تین طلاق بیک وقت غلط طریقہ سے دینے والوں کے خلاف سماجی بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھی کہا ہے کہ ایک وقت میں تین طلاق دینا صحیح نہیں ہے۔ بورڈ کے علماء کو ایسا فیصلہ کرنے میں تقریباً43سال تک لگ گئے۔ اگر موجودہ حکومت تین طلاق کو ظلم نہیں کہتی اور اسے سپریم کورٹ سے ختم کرانے کا عزم و ارادہ بار بار نہ دہراتی تو شاید یہ فیصلہ بھی نہیں ہوتا جو جبراً اور قہراً ہوا ہے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے آج سے ستر اسی سال پہلے علماء کرام کو اس مسئلہ کی طرف توجہ دلایا تھا مگر علماء ٹس سے مس نہیں ہوئے اور نہ ہی کوئی اجتماع اور اتحاد کرنے کی کوشش کی تاکہ مسئلہ حل کیا جاسکے۔

 مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے 1935 میں اپنے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں اس سلسلہ میں جو کچھ لکھا ملاحظہ فرمائیں :

 ’’تطلیقاتِ ثلاثہ در مجلس واحد: بیک وقت تین طلاق دے کر عورت کو جدا کر دینا نصوصِ صریحہ کی بنا پر معصیت ہے۔ علمائے امت کے درمیان اس مسئلے میں جو کچھ اختلاف ہے وہ صرف اس امر میں ہے کہ ایسی تین طلاقیں ایک طلاق رجعی کے حکم میں ہیں یا تین طلاق مغلظ کے حکم میں ۔ لیکن اس کے بدعت اور معصیت ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ سب تسلیم کرتے ہیں کہ یہ فعل اس طریقے کے خلاف ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق کیلئے مقرر فرمایا ہے اور اس سے شریعت کی مصلحتیں فوت ہوجاتی ہیں ۔

حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دیں تو حضورؐ غصے میں آکر کھڑے ہوگئے اور فرمایا: ایلعب بکتاب اللہ وعز و جل و انابین اظہرکم کیا اللہ عز و جل کی کتاب سے کھیل کیا جاتا ہے؛ حالانکہ ابھی میں تمہارے درمیان موجود ہوں ‘‘۔ بعض دوسری احادیث میں تصریح ہے کہ حضورؐ نے اس فعل کو معصیت فرمایا اور حضرت عمررضی اللہ عنہ کے متعلق تو روایات میں یہاں تک آیا ہے کہ جو شخص ان کے پاس مجلس واحد میں تین طلاق دینے والا آتا تو اس کو درّے لگاتے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس فعل پر سزا بھی دی جاسکتی ہے۔

 ہمارے زمانے میں یہ طریقہ عام ہوگیا ہے کہ لوگ فوری جذبے کے تحت اپنی بیویوں کو جھٹ تین طلاقیں دے ڈالتے ہیں ، پھر نادم ہوتے ہیں اور شرعی حیلے تلاش کرتے ہیں ۔

 کوئی جھوٹی قسمیں کھاکر طلاق سے انکار کرتا ہے، کوئی حلالہ کرانے کی کوشش کرتا ہے اور کوئی طلاق کو مخفی رکھ کر اپنی بیوی کے ساتھ بہ دستور تعلقات باقی رکھتا ہے۔ اس طرح ایک گناہ کے خمیازے سے بچنے کیلئے متعدد دوسرے گناہوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے، ان خرابیوں کا سدباب کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے کر عورت کو جدا کرنے پر ایسی پابندیاں عائد کردی جائیں جن کی وجہ سے لوگ اس فعل کا ارتکاب نہ کرسکیں ۔ مثال کے طور پر اس کی ایک صورت یہ ہے کہ مطلقہ عورت کو جسے بیک وقت تین طلاقیں دی گئی ہوں ، عدالت میں ہرجانے کا دعویٰ کرنے کا حق دیا جائے اور ہرجانہ کی مقدار کو کم از کم مہر کی نصف مقدار تک مقرر کی جائے۔ اس کے علاوہ اور صورتیں بھی روک تھام کی نکل سکتی ہیں جن کو ہمارے علماء اور ماہرین قانون غور و خوض کے بعد تجویز کرسکتے ہیں ۔ علاوہ بریں اس مسئلے کو کثرت سے لوگوں میں شائع کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ فعل ناجائز ہے تاکہ جو لوگ ناواقفیت کی وجہ سے اس میں مبتلا ہوتے ہیں وہ آگاہ ہوجائیں ‘‘۔

مولانا مودودیؒ اپنی کتاب ’’حقوق الزوجین‘‘ کے دیباچہ میں رقمطراز ہیں :

 ’’1933-34ء کی بات ہے۔ حیدر آباد دکن ، بھوپال او ربرطانوی ہند میں یہ مسئلہ زور و شور کے ساتھ اٹھا تھا کہ مسلمانوں کے ازدواجی معاملات میں جو خرابیاں رائج الوقت قانون کے نقائص کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہیں ان کو دور کرنے اور شرعِ اسلامی کے احکام کو صحیح طورپر نافذ کرنے کیلئے کوئی نتیجہ خیز سعی ہونی چاہئے۔ چنانچہ اس سلسلے میں بہت سے مسوداتِ قانون ہندستان کے مختلف گوشوں میں مرتب کئے گئے اور کئی سال تک ان کی باز گشت سنی جاتی رہی۔ اس زمانے میں مجھے محسوس ہوا کہ اس مسئلے کے بہت سے پہلو اور نہایت اہم پہلو ایسے ہیں جن پر کماحقہ توجہ نہیں کی جارہی ہے۔ چنانچہ میں نے 1354ہجری 1935ء) میں ’’حقوق الزوجین‘‘ کے عنوان سے ایک طویل سلسلۂ مضامین ’’ترجمان القرآن‘‘ میں لکھا اور اس میں اسلام کے قانونِ ازدواج کی روح اور اس کے اصول کی وضاحت کرنے کے ساتھ ان احکام کی تشریح کی جو معاملاتِ زن و شو اصلاح کیلئے ہم کو قرآن و حدیث میں ملتے ہیں اور چند ایسی تجاویز پیش کیں جن سے مسلمانوں کی موجودہ قانونی مشکلات صحیح طریقے سے حل ہوسکتی ہیں ۔ اگر چہ یہ سلسلہ علماء کرام کی توجہ منعطف کرانے کیلئے لکھا گیا تھا مگر اس میں بہت سے ایسے مباحث بھی آگئے تھے جن کا مطالعہ عام ناظرین کیلئے بھی مفید ہوسکتا ہے۔ خصوصاً جن لوگوں نے میری کتاب ’’پردہ‘‘ ملاحظہ فرمائی ہے، وہ خود بخود اس کی ضرورت محسوس کرتے تھے کہ تعلقاتِ زن و مرد کو منضبط کرنے کیلئے اسلام نے جو قوانین مقرر کئے ہیں ان سے واقفیت حاصل کریں تاکہ اس دین کا پورا نظامِ معاشرت ان کی سمجھ میں آسکے۔ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس سلسلۂ مضامین کو بعض ضروری اضافوں کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کیا جارہا ہے‘‘۔  (5مارچ 1943ء)

  مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داروں نے پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہاہے کہ خط، فون اور واٹس اَیپ وغیرہ جیسے جدید ذرائع طلاق کیلئے استعمال کرنا درست ہے جس طرح دیگر کاموں کیلئے استعمال کرنا درست ہوتا ہے۔ علماء کرام یہ بھی کہتے ہیں کہ طلاق کا صحیح طریقہ ہے کہ میاں بیوی میں اگر ایک ساتھ زندگی گزارنا دو بھر ہوجائے تو پہلے آپس میں بیٹھ کر معاملے کو نمٹانے کی بھر پور کوشش کریں ۔ اگر آپس کی بات چیت سے معاملہ طے نہ ہو تو دونوں اپنے اپنے خاندان سے ایک دو آدمی کو ثالث بناکر اپنے معاملہ کو طے کریں اور اگر طلاق دینا ناگزیر ہوجائے تو دو صاحب عدل کی موجودگی میں طلاق دیں ۔

 خط، فون، اور واٹس ایپ وغیرہ کا جس طرح غیر ضروری طور پر استعمال ہوتا ہے اگر طلاق کے معاملہ میں بھی اس کا استعمال بغیر سوچے سمجھے سارے پروسس کو نظر انداز کرکے کیا جائے تو میرے خیال سے غیر سنجیدہ عمل ہے۔ جو طلاق کیلئے کسی حال میں درست نہیں ۔ دیگر باتوں یا دیگر کاموں کی طرح طلاق کو بھی ایک معمولی چیز سمجھ لینا غلط سوچ کی غمازی کرتا ہے۔ بورڈ کے ذمہ داروں کو اس طرح کی غیر ذمہ دارانہ باتیں کرنا کسی طرح بھی زیب نہیں دیتا۔ امید ہے بورڈ کے ذمہ داران طلاق یا کسی بھی گمبھیر مسئلہ میں اس طرح کی رائے دینے سے پرہیز کریں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔