دشمنوں کے ساتھ حسنِ سلوک (آخری قسط)

تحریر: عبدالرب کریمی… ترتیب: عبدالعزیز

بنو قینقاع: مدینہ میں یہود کے تین بڑے قبائل، بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ آباد تھے۔ ان میں بنو قینقاع بہادر، جفا کش اور مال و ثروت میں سب سے آگے تھے۔ ان کے پاس جدید جنگی اسلحوں کا ذخیرہ بھی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کی خلاف ورزی سب سے پہلے انھوں نے کی۔ اتفاق سے جنگ بدر کے بعد مدینہ میں ایک ایسا واقعہ پیش آگیا جس کی وجہ سے یہ آگ مزید بھڑک اٹھی۔ قبیلہ بنو قینقاع کے علاقے میں ایک انصاری خاتون کوئی سامان لینے گئی، وہاں ایک یہودی نے اس کی توہین کر دی۔ خاتون کی چیخ و پکار سن کر ایک انصاری مسلمان موقعہ واردات پر پہنچے اور طیش میں آکر مجرم یہودی پر حملہ کر دیا جس کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی۔ یہودیوں نے رد عمل میں اس مسلمان کو بھی قتل کرکے ایک ہنگامہ برپا کردیا۔ مقتول انصاری کے خاندان والے انتقام لینا چاہتے تھے۔ غلطی دونوں طرف سے ہوئی تھی۔ یہود اگر معاہدہ کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم (فیصل) بنا لیتے تو معاملہ بہ آسانی حل ہوجاتا، لیکن انھوں نے ایسا نہ کرکے ایک غلط راہ اختیار کی اور جنگ کی کیفیت پیدا کردی۔

 ان حالات کی خبر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپؐ قبیلہ بنو قینقاع کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا کہ معاہدہ کی خلاف ورزی نہ کرو۔ اللہ سے ڈرو، اس کی غضب کو دعوت نہ دو، لیکن انھوں نے بڑے تکبر کے ساتھ کہاکہ اے محمد! آپ جنگ بدر کے نتیجہ سے خوش نہ ہوں ۔ آپؐ کا معاملہ ان لوگوں سے تھا جو جنگی حکمت عملیوں سے ناواقف تھے۔ ہمارے ساتھ جنگ کا موقع آئے گا تو ہم اس کا جواب بہتر طور پر دیں گے۔ یہ کہہ کر بنو قینقاع نے علی الاعلان معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اعلان جنگ کر دیا۔ آپؐ نے ان کی تنبیہ کرنے کیلئے ضروری اقدام کیا۔ شروع میں وہ قلعہ بند ہوگئے۔ پندرہ دنوں تک محاصرہ جاری رہا۔ آخری میں وہ اس بات پر راضی ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو فیصلہ کر دیں وہ انھیں منظور ہوگا۔ ان کی عہد شکنی اور مسلسل سازشوں کی وجہ سے آپؐ انھیں سخت سزا دینا چاہتے تھے لیکن عبداللہ بن اُبَی کی سفارش اور اس کی منت و سماجت پر آپؐ نے بطور سزا ان کو مدینہ سے جلا وطن کرنے کا فیصلہ کیا۔

بنو نضیر: یہود کا دوسرا قبیلہ بنو نضیر تھا۔ اس معاہدے میں وہ بھی برابر کے شریک تھے۔ جنگ بدر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ان کی سازشیں بھی تیز ہوگئیں ۔ قریش نے انھیں ایک دھمکی آمیز خط بھیجا تھا کہ تم صاحب حیثیت ہو، جائدادوں اور قلعوں کے مالک ہو، اس لئے محمد اور ان کے ساتھیوں سے جنگ کرو۔ ورنہ ہم تمہارے ساتھ برا سلوک کریں گے۔ بنو نضیر کے دلوں میں دھوکہ تو پہلے سے ہی تھا۔ قریش کے خط کے بعد عہد شکنی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فریب دینے کا پختہ ارادہ کر لیا۔

 ایک موقع پر آپؐ چند صحابہ کرامؓ کے ساتھ بنو نضیر کی آبادی میں تشریف لے گئے۔ ضیافت کے بہانے انھوں نے آپؐ کو اونچی دیوارکے سائے میں بٹھا دیا۔ ان کا منصوبہ تھا کہ اوپر سے کوئی بھاری پتھر گرادیں جس سے (نعوذ باللہ) آپ شہید ہوجائیں ۔ یہودی سردار ایک ایک کرکے وہاں سے رخصت ہوگئے۔ صرف صحابہ کرامؓ اور آپؐ وہاں تشریف فرما تھے۔ اللہ نے وحی کے ذریعہ آپؐ کو ان کی شرارتوں سے با خبر کر دیا۔ آپؐ وہاں سے بڑی تیزی کے ساتھ نکلے اور بہ حفاظت مدینہ واپس آگئے۔ جب بنو نضیر کو اس میں کامیابی نہیں ملی تو انھوں نے ایک نئی سازش شروع کر دی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ آپؐ اپنے تیس ساتھیوں کو لے کر آئیں اور ہمارے مذہبی علماء سے اسلام کی حقانیت پر بات کریں ۔ اگر وہ آپ کی باتوں سے مطمئن ہوں گے تو ہم لوگ ایمان لے آئیں گے۔ چوں کہ ماضی میں بنو نضیر نے رسول اللہ کے ساتھ بدعہدی کی تھی، اعتماد کو مجروح کیا تھا، اس لئے آپؐ نے انھیں پیغام دیا کہ تحریری معاہدہ کے بغیر ہم نہیں آسکتے ہیں ۔ بنو نضیر کسی طور بھی معاہدہ کیلئے تیار نہیں تھے۔ کچھ دن گزرنے کے بعد انھوں نے دوبارہ پیغام دیا کہ ہمارے تین علماء ہوں گے۔ آپ بھی اپنے ساتھ تین لوگوں کو لے کر آئیں ۔ اس بار انھوں نے اطمینان دلایا کہ اگر وہ آپ کی نبوت کی تصدیق کرتے ہیں تو ہم بھی آپ کے ساتھ ہوں گے۔ جب ان کا اصرار بہت بڑھا تو آپؐ ان کے علماء سے تبادلہ خیال کیلئے تیار ہوگئے۔

یہاں بھی بنو نضیر کے دلوں میں کھوٹ تھی، ان کی نیت تھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو کیلئے ان کی آبادی میں داخل ہوں گے تو پہلے سے گھات میں بیٹھے لوگ آپؐ کو قتل کر دیں گے۔ اس سازش کی اطلاع بھی آپؐ کو مل چکی تھی، اس لئے آپؐ وہاں نہیں گئے۔ آپؐ نے ان کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ وہ بھی اپنے قلعوں میں بند ہوگئے۔ یہ محاصرہ دس بارہ دنوں تک جاری رہا۔ اس کے بعد انھوں نے صلح کرکے مدینہ سے نکل جانے کی اجازت مانگی۔ آپؐ نے انھیں اس شرط پر اجازت دے دی کہ وہ ہتھیاروں اور اسلحوں کے علاوہ جو چاہیں لے جاسکتے ہیں ۔ بنو نضیر صاحب ثروت و دولت اور قلعوں کے مالک تھے۔ انھوں نے چھ سو اونٹوں پر اپنے مال و اسباب کو باندھا یہاں تک کہ گھروں کی کھڑکیاں ، دروازے بھی نکال لئے اور اپنے ہاتھوں سے گھروں کو مسمار کرکے خیبر کی طرف چلے گئے۔

 بنو قریظہ: یہود کا تیسرا قبیلہ بنو قریظہ تھا۔ یہ مال و دولت اور سماجی حیثیت میں بنو نضیر سے بہت کم تھے، لیکن انھوں نے بھی معاہدہ کی خلاف ورزی کی۔ جنگ بدر کے موقع پر انھوں نے اسلحوں اور ہتھیاروں سے مسلمانوں کے خلاف قریش کی مدد کی تھی، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قصور کو نہ صرف نظر انداز کیا تھا بلکہ انھیں معاف بھی کر دیا۔ بہت جلد انھیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوا اور انھوں نے دوبارہ معاہدہ کی تجدید کرلی، لیکن جنگ احزاب میں انھوں نے مسلمانوں کی جان و مال کو خطرے میں ڈال کر باہر والوں کی مدد کرکے معاہدہ کو دوبارہ توڑا۔ مجبوراً ان کے خلاف بھی کارروائی کی گئی۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جب اسلامی فوج ان کے قلعوں کی طرف بڑھی تو ندامت اور شرمندگی کے بجائے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں ۔ یہ بھی اپنے قلعوں میں محصور ہوگئے۔ 25 دنوں کے محاصرے کے بعد ہتھیار ڈالتے ہوئے، انھوں نے قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ کو حکم بنایا کہ وہ جو فیصلہ کریں گے انھیں منظور ہوگا۔ حضرت سعد اور ان کا قبیلہ اوس بنو قریظہ کا حلیف تھا۔ حضرت سعد بن معاذؓ نے وہی فیصلہ کیا جو یہود اپنے دشمنوں سے کیا کرتے تھے۔ ان کی گزشتہ اسلام مخالف کارروائیوں کی بنیاد پر ان کے مردوں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ یہود اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حکم بناتے تو آپ وہی کرتے جو اس سے پہلے بنو قینقاع اور بنو نضیر کے ساتھ کیا تھا۔ زیادہ سے زیادہ مدینہ سے جلا وطنی کی سزا دیتے لیکن انھوں نے یہ سزا از خود پسند کیا، لیکن اس کے باوجود آپؐ نے بنو قریظہ میں سے بھی ان کی درخواست پر سعاد بن معاذ کے فیصلے سے کچھ لوگوں کو مستثنیٰ کر دیا۔ مثلاً زہیر کیلئے مع اہل و عیال اور مال و دولت رہائی کا حکم دیا۔ اسی طرح رفاع بن شمویل کو بھی ان کی درخواست پر جاں بخشی فرمائی۔

  یہاں بعض معترضین کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے دو قبائل بنو قینقاع اور بنو نضیر کے مقابلے میں بنو قریظہ کو سخت سزا دی۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ اگر بنو قریظہ رسولؐ اللہ کو حکم (ثالث) بناتے تو آپؐ ان کے بھی وہی سلوک کرتے جو اس سے پیش تر قبائل کے ساتھ کیا ہے، لیکن انھوں نے حضرت سعد بن معاذؓ کو حکم بنایا اور سعد بن معاذ نے ان کی مذہبی کتاب تورات کے مطابق ہی فیصلہ کیا۔ اس بابت علامہ شبلی نعمانیؒ تحریر فرماتے ہیں :

 (1  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ آکر ان کے ساتھ دوستانہ معاہدہ کیا، جس میں ان کے مذہب کی پوری آزادی دی گئی اور جان و مال کی حفاظت کا اقرار کیا گیا۔ (2  بنو قریظہ مرتبہ میں بنو نضیر سے کم تھے؛ یعنی بنو نضیر کا کوئی آدمی قریظہ کے کسی آدمی کو قتل کر دیتا تھا تو اس کو صرف آدھا خون بہا دینا پڑتا تھا۔ بخلاف اس کے بنو قریظہ پورا خون بہا ادا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ پر یہ احسان کیا کہ ان کا درجہ بنو نضیر کے برابر کردیا۔

(3  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی جلا وطنی کے وقت بنو قریظہ سے دوبارہ تجدید معاہدہ کی۔

 (4  باوجود ان باتوں کے عہد شکنی کی اور جنگ احزاب میں شریک ہوئے۔

(5  ازواج مطہرات قلعہ میں حفاظت کیلئے بھیج دی گئی تھیں ، ان پر حملہ کرنا چاہا ۔

 (6  حی بن اخطب جو بغاوت کے جرم میں جلا وطن کر دیا گیا تھا، جس نے تمام عرب کو برانگیختہ کرکے جنگ احزاب قائم کر دی تھی۔ اس کو اپنے ساتھ لائے جو آتش جنگ کے اشتعال کا دیباچہ تھا۔ ان حالات میں بنو قریظہ کے ساتھ کیا سلوک کیا جاسکتا تھا۔  (سیرت النبیؐ، جلد اول، ص:262)

تبصرے بند ہیں۔