ایک مجلس میں تین طلاق!

مفتی شکیل منصور القاسمی 

جمہور صحابہ وتابعین اور اہل سنت والجماعت کے چاروں فقہی مذاہب کا اتفاق ہے تین بار طلاق کا لفظ کہنے سے تین طلاقیں ہوجاتی ہیں ۔میاں بیوی کا رشتہ یکسر ختم ہوجاتا ہے ۔اس کے بعد دونوں کا میاں بیوی کی حیثیت سے رہنا بدکاری اور زناکاری کے زمرے میں آتا ہے۔جمہور صحابہ وتابعین اور ائمہ اربعہ کا اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ۔جو لوگ اس کے خلاف رائے رکھتے ہیں ان کی رائے کا کوئی اعتبار نہیں ۔وہ شاذ اور خلاف اہل سنت والجماعت عقیدہ ہے۔

سورہ البقرہ کی آیت نمبر 229 میں صرف دو بار طلاق دینے پر روکے رکھنے  یا چھوڑ دینےکا اختیار دیا گیا ہے ۔تو دو طلاق واقع ہوجائے اور تین نہ ہو ، یہ بے معنی بات ہوگی !
امام المحدثین امام بخاری نے اس آیت سے یہی سمجھتے ہوئے باب قائم کیا ہے "باب من أجاز الطلاق الثلاث لقوله تعالى الطلاق مرتان الخ……”بخاری کتاب الطلاق باب نمبر 4۔
سنن ابی داود حدیث نمبر 2250 میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یکبارگی دیجانے والی تین طلاقیں نافذ فرمائی ہیں ۔

ابوداءد کی حدیث نمبر 2309 میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طلاقوں کے  بعد زوجین کے اجتماع کو ناجائز قرار دیا۔بخاری کتاب الطلاق کے باب نمبر 37 میں اسی حدیث سے وقوع ثلاث پہ استدلال فرمایا ہے۔اسی طرح ابوداءود حدیث نمبر 2206۔ترمذی حدیث نمبر 1177۔۔۔دار قطنی حدیث نمبر 3929۔مجمع الزوائد 338/4۔۔۔میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین طلاقیں تین قرار دی ہیں ۔مصنف ابن ابی شیبہ جلد 5۔اور ہیتمی کی مجمع الزوائد جلد 4۔میں تفصیل کے ساتھ متعدد صحابہ کے آثار ذکر کئے گئے ہیں جو ایک مجلس کی تین طلاقوں کے وقوع کے قائل ہیں ۔جن میں بطور خاص عمران بن حصین ۔عمر ۔عبد اللہ بن عباس۔عبد اللہ بن مسعود ۔علی۔عثمان۔مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم اجمعین قابل ذکر ہیں ۔

علامہ عینی لکھتے ہیں :
ذهب جماهير العلماء من التابعين ومن بعدهم منهم الأوزاعي والنخعي والثوري وابوحنيفة وأصحابه الشافعي وأصحابه وأحمد وأصحابه وإسحاق والثوري وابوعبيده وأخرون كثيرون على أن من طلق امرأته ثلاثا وقعن.ولكنه يأثم. عمدة القاري كتاب الطلاق .باب من أجاز الطلاق الثلاث .جلد 20.صفحه 233. ط دار الفكر بيروت.
شامي كتاب الطلاق 233/3.

امام ابوبکر جصاص احکام القرآن میں لکھتے ہیں:
فالكتاب والسنة وإجماع السلف الصالحين يوجب إيقاع الثلاث معا وان كان معصية.أحكام القرآن 388/1…
مرقات المفاتيح  میں ملاعلی قاری لکھتے ہیں وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من ائمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث.مرقات مرقات المفاتيح 484/3.باب الخلع الفصل الثالث.

علامه نووي  لکھتے ہیں "وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته انت طالق ثلاثا فقال الشافعي ومالك وابوحنيفة وأحمد وجماهير العلماء من السلف والخلف يقع الثلاث .نووي على صحيح مسلم .باب طلاق الثلاث.478/1…
علامہ ابن القیم الجوزیہ اسی طرح کی بات لکھے ہیں ۔دیکھئے زاد المعاد 247/5۔۔
مزید تفصیل کے لئے دیکھیں روح المعانی للآلوسی البقرہ آیت نمبر 229۔

فقہ مالکی کی انتہائی معتبر کتاب الفواکہ الدوانی میں ہے "وطلاق الثلاث من كلمة واحدة بدعة.ويلزمه ان وقع.49/2…
اسی طرح بدایة المجتهد میں ہے:
جمہور فقہاء الامصار علی ان الطلاق بلفظ الثلاث حکمہ حکم الطلقة الثالثة. بدایة المجتہد 61/2۔۔
دلیل السالک لمذھب مالک میں ہے:
ومن طلق امرأته ثلاثا ولو في كلمة واحدة لاتحل له حتى تنكح زوجا غيره….صفحة 84..

امام شافعی کی طرف تین طلاق کا ایک ہونے کی نسبت غلط ہے ۔شافعیہ کی معتبر کتاب رحمة الأمة میں لکھا ہوا ہے :اتفقت الأئمة الأربعة على أن الطلاق في الحيض لمدخول بها او في طهر جامع فيه محرم.إلا أنه يقع.وكذا جميع الطلاق في الثلاث أيضا. رحمة الأمة 180/2 ط مصطفى البابي مصر.

حنابلہ کی مشہور کتاب "کشاف القناع” میں ہے "وان طلقها أي طلق رجل زوجته ثلاثا بكلمة واحدة حرمت نصا ووقعت.ويروى ذا لك عن عمر وعلي وابن مسعود وابن عباس وابن عمر وعن مالك بن الحارث.212/4..
هكذا في الميزان للشعراني 120/2..

سعودی حکومت نے اس مسئلہ پر تفصیلی غور وفکر اور اس کی روشنی میں فیصلہ کے لئے حرمین شریفین اور سعودی علماء کی ایک کمیٹی مقرر کی تھی جو تیرہ ارکان پر مشتمل تھی اور شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز اس کے صدر تھے ۔کمیٹی نے موضوع سے متعلق تمام اقوال ۔دلائل ۔اور دلائل پر تنقیدات کا احاطہ کرتے ہوئے یہی فیصلہ کیا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں ۔اس تجویز کی دفعہ 5 حسب ذیل ہے۔:

"تین طلاقوں کا واقع ہوجانا اکثر اہل علم کی رائے یے۔حضرت عمر۔عثمان علی ابن عباس ابن مسعود ابن عمر وغیرہ صحابہ نیز امام ابو حنیفہ ۔مالک شافعی احمد بن حنبل ابن ابی لیلی اوزاعی اسی کے قائل ہیں ۔ابن عبد الہادی نے ابن رجب حنبلی سے نقل کیا ہے کسی صحابی۔تابعی اور ایسے امام وعالم سے جن کا فتوی حرام حلال میں قابل ذکر ہے ،مدخول بہا عورت کو ایک لفظ میں دی گئی تین طلاقوں کے ایک شمار کئے جانے کی بابت کوئی صریح قول منقول نہیں ہے”۔

ابن تیمیہ رح نے اس ذیل میں اقوال نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ حرام ہے۔لیکن واقع ہوجاتی ہے۔اور یہی امام مالک ،ابو حنیفہ اور احمد کا آخری قول ہے۔نیز اسی کو اکثر سلف، صحابہ اور تابعین نے اختیار کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ابن عربی نے اپنی کتاب "الناسخ والمنسوخ” میں لکھا ہے کہ اس  آخری دور میں کچھ لوگوں سے لغزش ہوئی ہے جنہوں نے کہا کہ ایک کلمہ سے تین طلاق واقع نہیں ہوگی۔ان حضرات نے اس کو ایک ہی طلاق شمار کیا ۔اور اس کو سلف اول کی طرف منسوب کیا اور حضرت علی ۔زبیر۔عبد الرحمن بن عوف۔ابن مسعود ابن عباس رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے۔اور حدیث میں ایک کم درجہ اور غیر مستند شخصیت حجاج بن ارطاة کی طرف اس روایت کی نسبت کی ہے۔اور اس بابت ایسی حدیث نقل کی ہے جس کی کوئی اصل نہیں ۔حالانکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف جن کوگوں نے نسبت کی ہے وہ خالص جھوٹ ہے ۔نہ کسی کتاب میں اس کی کوئی اصل ہے اور نہ کسی سے اس سلسلہ میں کچھ مروی ہے۔نیز حجاج بن ارطاة کی حدیث دین میں غیر مقبول ہے اور کسی امام کے نزدیک معتبر نہیں ۔(مجلة البحوث الإسلامية ۔جلد 1،شمارہ 3، 1397۔صفحہ 145۔حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد۔۔۔بحوالہ قاموس الفقہ 349/4۔۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔