ایگزٹ پول: ذہنوں کو اغواکرنے کی کوشش

صادق رضامصباحی

گجرات اسمبلی کے الیکشن میں جیت حاصل کرنے کے لیے بی جے پی نے پوری طاقت جھونک دی ہے اوراس کے لیے اس نے اپنے اقتدارکے ’’سائے ‘‘بھی چاروں طرف پھیلا دیےہیں ۔ گجرات اسمبلی اورہماچل پردیش اسمبلی کی مدت کارتقریباًایک ہی وقت پرختم ہورہی ہے مگر چند دنوں قبل الیکشن کمیشن نے صرف ہماچل پردیش کے الیکشن کااعلان کیاتھااورگجرات الیکشن کی تاریخوں کااعلان گول کردیا تھا لیکن جب چاروں طرف سے الیکشن کمیشن کوزبردست تنقیدوں کاسامناکرناپڑاتوپھر کمیشن تاریخوں کااعلان کرنے پرمجبورہوئی۔ اس بات کو ذہن میں رکھیے کہ یہ اعلان ایسے وقت میں ہواہے جب بی جے پی نے اپنے ’’من کی مراد‘‘کی حاصل کرلی ہے۔

’’من کی مراد‘‘کامطلب یہ ہے کہ بی جے پی نے انڈیاٹوڈے کے ذریعے دونوں ریاستوں کاسروے کراکردونوں جگہوں پربی جےپی کی شاندارفتح اورکانگریس کی ’’شاندار‘‘ شکست کی پیش گوئی کرادی ہے۔ ہم چوں کہ ’’پڑھے لکھے‘‘لوگ ہیں اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایگزٹ پول سے کوئی فرق نہیں پڑتامگرجو بے چارے عوام ہیں ، جو’’اندھیرے ‘‘میں رہتے ہیں ،جن کے دماغ کی بجلی ہمیشہ گل رہتی ہے، وہ اس طرح کے ایگزٹ پول سے ضرور’’اغوا‘‘کرلیے جاتے ہیں ۔ دراصل ایگزٹ پول ایسے ہی لوگوں کے لیے کرائے جاتے ہیں کیوں کہ اس کے ذریعے سے لوگوں کو  ذہنی طورپرکسی بھی پارٹی کے لیے ہموار کیا جاسکتاہے۔

انڈیاٹوڈے کے ایگزٹ پول نے بھی کچھ ایساہی ماحول بنانے کی کوشش کی ہے۔ انڈیاٹوڈے کے سروے کے ایک دن بعدہی الیکشن کمیشن نے گجرات الیکشن کی تاریخوں کااعلان کیاہے۔ ایسالگتاہے کہ سب کچھ طے شدہ تھا کیوں کہ اگرتاریخوں کااعلان پہلے ہوجاتا تو الیکشن کی اخلاقیات کے مطابق کسی کوبھی سروے کرنے کاکوئی حق حاصل نہیں ہوتا مگر چوں کہ ہمارے معززوزیراعظم نریندرمودی صاحب کوگجراتیوں کو ’’ورغلانا‘‘بھی تھا اسی لیے یہ پوراگیم پلان کیاگیا۔ اس تناظرمیں ہم اپنے ہی مذکورہ خیال کی ’’تصحیح ‘‘ ضروری سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے کسی کے دبائو میں تاریخوں کااعلان نہیں کیاکیوں کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے کسی سے دبناسیکھاہی نہیں ہے۔ ان پر اگرکسی کادبائواثراندازہوتاتونجیب کی گم شدگی کوایک سال سے زیادہ عرصہ گزچکاہے، اس کی تلاش کے لیے ملک کے امن پسندطبقے بیانات جاری کررہے ہیں ، حکومت سے مطالبات کیے جارہے ہیں ،نجیب کی والدہ اپنے بیٹے کو واپس کرنے کے لیے احتجاج کرتے کرتے اوربیٹے کے غم میں روتے روتے ادھ مری ہوگئی ہے مگرمجال ہے کہ مودی صاحب پرجوں بھی رینگی ہو۔

 اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتاکہ الیکشن کمیشن نے دبائوکے تحت ایساکیاہے بلکہ صرف اورصرف اس لیے کیاہے کہ اب بی جے پی کی گجرات الیکشن کی ’’تیاری‘‘مکمل ہوچکی ہے۔ اگریہ’’ تیاری‘‘ ابھی تک مکمل نہ ہوتی توکمیشن ابھی بھی اعلان نہ کرتا۔
دونوں ریاستوں کے الیکشن نتائج کااونٹ کس کروٹ بیٹھے گا،یہ ابھی نہیں کہاجاسکتا لیکن ایگزٹ پول سے بی جے پی کی مرکزی قیادت  نے یہ کوشش ضرورکرلی ہے کہ نتائج اس کے حق میں آسکیں ۔ اس کی جہاں اور بھی بہت ساری وجوہ ہیں ، وہیں ایک سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ جی ایس ٹی اورنوٹوں پرپابندی کے غلط فیصلے سے پورے ملک کوسب سےزیادہ نقصان ہوا اورخاص طور پر جی ایس ٹی کے نفاذ نے تاجروں کی کمرتوڑدی۔ ملک کے بڑے بڑے تاجرزیادہ ترگجراتی ہیں ، دراصل گجرات تاجروں کی ہی ریاست ہے، تجارت یہا ں کے شہریوں کی گھٹی میں پڑی ہے۔ گجرات کے تاجربھی جی ایس ٹی کے نفاذسے پریشان ہیں اس لیے گجرات اسمبلی کاالیکشن مودی کے لیے وقارکی جنگ ہےاسی لیے وہ کئی ہفتوں سے گجرات میں ڈیرہ جمائے بیٹھے ہیں ، مگرہماچل پردیش میں الیکشن مہم کے لیے ابھی تک نہیں گئے ہیں ۔ ا س کے کیامعنی ہیں ؟

مودی جی  اپنے لمبے چوڑے دعووں میں اکثریہ کہتے رہے ہیں کہ جی ایس ٹی سے ملک کی معیشت مضبوط ہوئی ہے، معیشت کا ان کے نزدیک کیامطلب ہے، یہ تونریندرمودی ہی بتائیں گے لیکن اس سے پہلے کہ گجرات کی تاجرذہنیت معیشت کے صحیح ’’خال وخط‘‘سے انہیں واضح کرے، انہیں گجرات سب سے بڑی امتحان گاہ نظرآیااوروہ اس سے چپک کر بیٹھ گئے کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ ہماچل پردیش میں اگر بی جے پی کامیاب نہ ہوئی تواس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گالیکن اگرگجرات ان کے ہاتھ سے پھسل گیا تو پھرشایدان کی پگڑی بھی سلامت نہیں رہے گی۔

گجرات میں وہ 12سال تک وزیراعلیٰ رہے ہیں اوراب تین سال سے ملک کے وزیراعظم ہیں اس لیے وہ اپنے سارے اختیارات استعمال کرلیناچاہتے ہیں اورپھرانڈیاٹوڈے کے ایگزٹ پول نے بھی ذہنوں کو’’اغوا‘‘کرنے کی کوشش میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیادونوں ریاستوں کے عوام کے

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔