ترقی کے ماتھے پرداغ

محمد جمیل اخترجلیلی ندوی

ہمارے ملک ہندوستان کاشمارترقی کی راہ پرگامزن ممالک میں ہوتاہے؛ لیکن زمینی حقائق کی روشنی میں اس کی ترقی کامدارہتھیاروں کے تجربے، سٹلائٹس کی اڑان، بری وبحری افواج کی تعداد،میٹروٹرینوں کی رفتارپرہے اوراب حالیہ ایام میں پلٹ ٹرین کے معاہدوں، نوٹ بندی اورجی ایس ٹی کے تانہ شاہی فرمان پرہے؛ لیکن کیاکسی ملک کی ترقی صرف انہی چیزوں کے گردگھومتی ہے؟ یا کچھ اوربھی امورایسے ہیں، جن کی رعایت ملکی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہے؟ اگرآپ غورکریں تومعلوم ہوگا کہ مذکورہ ساری چیزوں کی سوئی مادیت کے اردگردگھومتی نظرآتی ہے، اس لحاظ سے دیکھاجائے توبجا طور پرکہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک کی توجہ (اگر ان کوترقی کہہ لیاجائے تو) صرف اورصرف ایک پہلوپرہے؛ حالاں کہ ترقی کے ایک سے زائد پہلوہوتے ہیں اورجب تک ان تمام پہلوؤں میں خاطرخواہ ترقی نہ ہو، ملک کے اندرترقی ہوہی نہیں سکتی، خواہ لاکھ ترقی کاہم ڈھنڈھوراپیٹ لیں، آیئے! ہم بھی ایک نظر ترقی کے ان پہلوؤں پرڈالیں، ہوسکتاہے کہ ہم ملکی ترقی کے ماتھے پرلگے کلنگ کودھوکر حقیقی ترقی کی راہ پراسے لاکھڑاکرسکیں۔

ترقی کا ایک اہم پہلو’’اخلاقی ترقی‘‘ ہے، اخلاق، خُلق کی جمع ہے، جس کے معنی ’’عادت، طبیعت اورمروء ت‘‘ کے آتے ہیں، اصطلاح میں اخلاق ’’انسان کے اس نفسانی ملکہ کوکہاجاتاہے، جس کی وجہ سے وہ بغیرغوروفکر،بغیرتأمل وتدبراوربغیرتکلف وتصنع کے افعال واعمال بہ سہولت انجام دیدے‘‘(کشاف اصطلحات الفنون:1؍762)؛ چنانچہ کسی حلیم وبردبارشخص کاغصہ اخلاق کے دائرہ میں نہیں آتا۔

معاشرتی زندگی میں اس کی بڑی اہمیت ہے، اس کے بغیرایک اچھامعاشرہ تشکیل نہیں پاسکتا، رشتے کے تقدس، محتاجوں کی اعانت، لین دین میں شفافیت، بڑے چھوٹے کی تمیز، عورتوں کی توقیر، مہمانوں کااکرام، پڑوسیوں کالحاظ اوران سب سے بڑھ کراپنے پیداکرنے والے سے تعلق قائم کرنااخلاقی ترقی کابہترین نمونہ ہیں۔

موجودہ زمانہ میں یہ امورختم نہیں توکم ؛ بل کہ بہت ہی کم ہوکررہ گئے، ہیں، آج ماڈرن(Modern)تعلیم توبچوں کودی جارہی ہے؛ لیکن مارل(Moral)تعلیم کی طرف بالکل بھی توجہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ بچہ اپنے پڑھانے والے پربھی پتھر مارنے سے نہیں چوکتااورفیل ہونے پرخودکشی کاراستہ اپنالینے سے نہیں ہچکچاتا، اس لحاظ سے ہماراملک ترقی سے کافی دورہے۔

دوسرااہم پہلو’’روحانی ترقی‘‘ کاہے، اس کویوں سمجھاجاسکتاہے کہ انسانی جسم دوطرح کے علاج کامحتاج ہوتاہے، ایک ظاہری اوردوسراباطنی، یہی باطنی علاج روحانی کہلاتا ہے، دینامیں جتنے بھی مذاہب ہیں، سبھوں نے اس کی طرف توجہ دی ہے؛ بل کہ اس کے لئے لاکھ لاکھ جتن بھی کئے ہیں، غیروں میں رہبانیت وسنیاس اسی کانمونہ ہیں۔

روحانی ترقی کے نتیجہ میں انسان تمام بری چیزوں کوترک کردیتاہے، جوچیزاپنے لئے پسندکرتاہے، دوسروں کے لئے بھی وہی چاہتاہے، اپنارشتہ اپنے حقیقی مالک سے جوڑتاہے اورجس شخص کارشتہ مالک حقیقی سے جڑجائے، اس کی زندگی سکھ اورشانتی سے کٹتی ہے۔

موجودہ دورمیں روحانیت مفقود الخبرہوچکی ہے، جسمانی اعتبارسے لوگ توبھلے چنگے نظرآتے ہیں ؛ لیکن روحانیت سے وہ کوسوں دورہیں اورروحانیت سے دوری عام مزدو رسے لے کرپڑھے لکھے لوگوں تک میں پھیلی ہوئی ہے، تعلیمی اداروں میں بھی اس کی طرف توجہ نہیں ہے، جس کانتیجہ یہ ہے کہ ہرشعبہ میں کھوکھلاپن اورہرشخص کے اندرذاتیت سرایت کرگئی ہے، لہٰذا (تقریباً) ہرفرد کسی بھی معاملہ میں ’’اپناکام بنتا، بھاڑمیں جائے جنتا‘‘ پرعمل پیرانظرآرہاہے اورہمارے ملک کی حالت اس سلسلہ میں کیاہے؟ وہ بتانے کی ضرورت نہیں، اس لحاظ سے بھی ہماراملک ترقی سے دورہے۔

تیسرااہم پہلو’’علمی ترقی‘‘ہے، کسی بھی قوم کے لئے علم ریڈھ کی ہڈی کادرجہ رکھتی ہے؛ چنانچہ جس طرح انسان ریڈھ کی ہڈی کے بغیرچل پھرنہیں سکتا، اسی طرح انسان آج کے دورمیں زمانہ کے شانہ بہ شانہ چل نہیں سکتا، آج ہم جس یوروپ اورامریکہ کی طرف للچائی ہوئی نگاہ سے دیکھتے ہیں، سولہویں صدی سے پہلے تک وہ بھی علم سے محروم اورنتیجتاً ترقی یافتہ نہیں تھے؛ لیکن اس کے بعدان لوگوں نے اس کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دی اورپھردیکھتے ہی دیکھتے مادیت کے لحاظ ہی سے سہی؛ لیکن ترقی یافتہ ہوگئے۔

قومی لحاظ سے ہم آج بھی علم کی طرف اس طرح توجہ نہیں دے سکے ہیں، جس توجہ کاوہ مستحق ہے، سرکاری ادارے بہت ہیں ؛ لیکن ٹیچروں کی کھیپ ضرورت کے اعتبار سے تیارنہیں ؛ اس لئے تعلیم کے بجائے ضیاع وقت کااچھاسامان اسکول بن کررہ گیاہے،نتیجۃً تعلیم صفر کے برابرہے، لہٰذا علمی میدان میں بھی ہماراپلڑا ہلکا؛ بل کہ بہت ہلکاہے۔

چوتھااہم پہلو’’اقتصادی ترقی‘‘ کا ہے، کسی بھی ملک کاوزن دوسرے ملک کے سامنے اس وقت بڑھتاہے، جب معاشی اعتبارسے وہ ملک خودکفیل ہو، وہاں کے لوگوں کی اکثریت بھی خودکفیل ہو، وہ مقروض نہ ہوں اوروہاں غربت کاخاتمہ ہوچکاہو۔

ہماراملک اس لحاظ سے بھی کافی پیچھے ہے، یہاں کے لوگ نہ صرف یہ کہ مقروض ہیں ؛ بل کہ چکتانہ کرسکنے کی وجہ سے انھیں اپنی جانیں بھی دینی پڑرہی ہیں، یہاں غربت کی لکیربھی افلاس سے نیچے جارہی ہے؛ حتی کہ آج بھی بھوک کی وجہ سے لوگوں کے مرنے کی خبریں آرہی ہیں۔

پانچواں اہم پہلو’’معاشرتی ترقی‘‘ کاہے، معاشرہ افرادکے ایسے گروہ کانام ہے، جن کے مابین بنیادی ضروریات زندگی کی تکمیل میں ایک دوسرے کے ساتھ مشترکہ روابط موجودہوں، اگریہ رابطہ ٹوٹ جائے تومعاشرہ ترقی سے بہت دورچلاجائے گا۔

آج جب ہم اپنے ملک کے مشرقی کونہ سے لے کرمغربی کونہ تک نظرڈالتے ہیں توہمیں معاشرہ کھوکھلانظرآتاہے؛ کیوں کہ اس کی ترقی کے لئے جوآپسی رابطہ کی شرط ہے، وہ بالکل مفقودہوچکی ہے؛ بل کہ کچھ لوگ معاشرتی ترقی کے دشمن ہیں، جورابطہ کوختم کرنے کے درپے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ ترقی کے اس دورمیں بھی ہماراملک معاشرتی اعتبارسے بچھڑے پن کاشکارہے۔

یہ تمام امورترقی کے پہلوہی نہیں ؛ بل کہ اہم پہلوہیں اورکوئی بھی ملک حقیقتاً ترقی یافتہ اسی وقت کہلانے کامستحق ہے، جب کہ ان تمام میں یکساں طورپروہ ترقی کرچکاہو، کسی ایک پہلوکی ترقی کوترقی نہیں کہاجاسکتا، اس کی مثال بس ایسے ہی ہے، جیسے کسی لنگڑے آدمی کوآدمی کہاجائے؛ حالاں کہ حقیقت میں وہ ’’لنگڑاآدمی‘‘ ہے۔

اس وقت اگرپوری دنیاکے ممالک پرایک اچٹتی نگاہ ڈال کردیکھیں توان ممالک میں سب سے زیادہ ’’مادی ترقی‘‘ ہی نمایاں نظرآتی ہے اورستم ظریفی یہ کہ ہرشخص اسے ترقی یافتہ کی سنددے دیتاہے؛ حالاں کہ وہ ’’لنگڑی ترقی‘‘ ہے، لہٰذا اصولی اعتبارسے اسے ترقی نہیں کہاجاناچاہئے، یااگرترقی کہنے کاشوق ہی ہے تو’’لنگڑی ترقی‘‘ کہیں اوربس؛ لیکن تمام ترقیوں سے صرف نظرکرتے ہوئے صرف ایک پہلوکی ترقی پراس قدرڈھنڈھوراگویاحقیقی ترقی یہی ہے، باقی سب کالعدم، یہ توانصاف کے خلاف بات ہے۔

اس کے برخلاف جب ہم دورفاروقی پرنظرڈالتے ہیں تووہ ایک حقیقی ترقی یافتہ نظرآتا ہے، وہاں اخلاقی،روحانی، علمی، اقتصادی اورمعاشرتی ترقیاں زمانہ کے لحاظ سے یکساں نظرآتی ہیں، ترقی کے لئے وہ ایک آئیڈیل دورہے، جس کااعتراف ہمارے ملک کے باپویعنی گاندھی جی کوبھی تھا، لہٰذا اگرہماراملک واقعتا ترقی یافتہ کہلاناچاہتاہے تودور فاروقی کواپناآئیڈیل بنائے، آئیڈیل بنانے میں کوئی حرج بھی نہیں کہ ہرسلیم الفطرت انسان اچھے کی تلاش میں رہتاہے، وہ جہاں مل جاتاہے، اسے اپنالیتاہے؛ لیکن کسی پہلوسے ترقی کوشائنگ انڈیااورمیک اِن انڈیاکاخوش نماں نام دینا، جب کہ اسی ملک میں اخلاق بھی مفقودہو، روحانیت کا بھی فقدان ہو، علمی ترقی بھی برائے نام ہو، اقتصادی ترقی معکوسی سمت پرگامزن ہواورمعاشرتی ترقی کاجنازہ کاندھوں پرسوارہو، ترقی کے ماتھے پرداغ کے سواکچھ نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. محمد اطہر کہتے ہیں

    ماشاءاللہ بہت اچھا مضمون ہے، میں نے از اول تا آخر پڑھا، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آج دنیا مادیت کی ترقی کو ہی اصل ترقی تصور کررہی ہے جو ایک خام خیالی ہے

  2. آصف علی کہتے ہیں

    جاپان کا ٹوکیو شہر آج کل ایمانداری میں ساری دنیا میں ٹاپ کر گیا ھے اورجاپانی اقوام عالم میں نمبر ون کیسے ہیں …..
    یہ کچھ حقائق آپ کو وجہ بتائیں گے۔

    1- جاپان میں پہلی جماعت سے لےکر تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ایسا مضمون بھی پڑھاتے ہیں جس میں انہیں روزمرہ کے معاملات اور لوگوں کے ساتھ برتاؤ کی اخلاقیات کے بارے میں سمجھایا اور بتایا جاتا ہے۔

    2- جاپان میں پہلی جماعت سے تیسری تک بچوں کو فیل کرنے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ کیونکہ ان چھوٹے بچوں کی تعلیم کا مقصد ان کی تربیت اور ان کی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے ناکہ ان کو تلقین اور روایتی تعلیم۔

    3- چہ جائیکہ جاپانی دنیا کی امیر ترین قوموں میں شمار ہوتے ہیں مگر ان کے گھر میں کام کاج کے لیے نوکر اور خادم کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ ماں باپ ہی بچوں اور گھر کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

    4- جاپانی بچے روزانہ اپنے اساتذہ کے ساتھ مل کر 15 منٹ کیلئے اپنے سکول کی جھاڑ پھونک اور صفائی ستھرائی کرتے ہیں، اس مشق کا مقصد انہیں اخلاقی طور پر متواضع بنانا اور عملی طور پر صفائی پسند بنانا ہوتا ہے۔

    5- جاپان میں ہر بچہ اپنا دانت صاف کرنے والا برش بھی سکول ساتھ لےکر جاتا ہے،ا سکول میں کھانے پینے کے بعد ان سے دانت صاف کرائے جاتے ہیں، اپنے بچپن سے ہی ان کو اپنی صحت کا خیال رکھنے والا بنایا جاتا ہے۔

    6- اسکولوں میں اساتذہ اور منتظمین کھانے کا معیار جانچنے اور بچوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے طلباء سے آدھا گھنٹہ پہلے کھانا کھاتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہی بچے جاپان کا مستقبل ہیں اور ان کی حفاظت کا یقینی بنایا جانا کتنا اہم ہے۔

    7- جاپان میں صفائی کا کام کرنے والے کو ایک خاص نام سے پکارا جاتا ہے جس کا مطلب ہیلتھ انجینئر بنتا ہے۔ اس کی تنخواہ امریکی ڈالر میں 5000 سے 8000 کے درمیان رہتی ہے۔ اس ملازمت کیلئے امیدوارکو باقاعدہ زبانی اور تحریری امتحان پاس کرناہوتاہے..

    8- جاپان میں گاڑیوں، ریسٹورنٹس اور بند مقامات پر موبائل فون استعمال نہیں کیا جاتا۔ جاپان میں سائلنٹ موڈ پر لگے موبائل کو ایک خاص نام دیا جاتا ہے جس کا مطلب اخلاق پر لگا ہونا بنتا ہے۔

    9- جاپان میں اگر آپ کسی کھلی دعوت یا بوفیہ ڈنر پر چلے جائیں وہاں پر بھی یہی دیکھیں گے کہ لوگ اپنی پلیٹوں میں ضرورت کے مطابق ہی کھانا ڈالتے ہیں۔ پلیٹوں میں کھانا بچا چھوڑنا جاپانیوں کی عادت نہیں ہے۔

    10- جاپان میں سال بھر گاڑیوں کی اوسطاتاخیر 7 سیکنڈ تک ہوتی ہے۔ جاپانی وقت کے قدردان لوگ ہیں اور منٹوں سیکنڈوں کی بھی قیمت جانتے ہیں…..
    11- بہت خوب لیکن ایک ضروری بات وہ یہ کہ۰۰ جاپانی امیر نہیں ہیں ۰۰ دنیا کے 100 امیر لوگوں میں ایک بھی جاپانی نہیں ہے۰۰زندگی بہت سمپل ہے۰۰

    اور ٹیلی فون سائلنٹ موڈ کو جاپانی میں "Manner mode”کہتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔