اے آب رود گنگا، وہ دن ہے یاد تجھ کو

صفدر امام قادری

 آریائوں کی آمد سے لے کر اب تک ہندستان کے نام، صوبوں کے اور شہروں کے نام اتنی بار بدلے گئے جنھیں اگر تاریخ کی کتابوں سے جمع کردیے جائیں تو دنیا کے دس بیس ملکوں کے شہروں کے نام انھیں سے رکھے جاسکتے ہیں۔ یہ نام کبھی اس لیے رکھے گئے کہ وہ شہر بے نام تھے۔ کبھی اس لیے بھی رکھے گئے کہ پرانے نام نئے بادشاہ کو پسند نہیں آئے اور کبھی اس لیے بھی نئے نام کا انتخاب ہوا کیوں کہ پرانے ناموں کو مٹانے کی کوشش اصل مقصد کے طور پر روا رکھی گئی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ہر بار نئے نام چل گئے اور لوگوں کی زبان پر رائج ہوگئے۔ قدیم ہندستان کے مہا جن پدوں میں سے اب ایک ہاتھ کی انگلی میں شمار کیے جانے والے شہر ہی قابل اعتبار رہ گئے ہیں۔ مہابھارت کے زمانے کے شہر اس قدر امتیازی شان رکھتے ہوئے ا ب نظر نہیں آتے۔ پانی پت اور ترائن بھی تاریخ میں جس قدر یں شہرت رکھتے ہوں موجودہ عہد میں انھیں کون کلیدی حیثیت سے جانتا اور پہچانتا ہے۔

ایک وزیر اعلا نے مغل سرائے اور الہ آباد شہروں کے نام کیا بدلے، اسے ایک مخصوص قوم کی شکست اور ایک قوم کی فتح یابی کے طور پر پیش کرنے کا چلن قائم ہوگیا ہے۔ ابھی اس ملک میں ہزاروں کی تعداد میں گائوں اور شہر اور صوبے موجود ہیں جن کے نام بدلنے میں بعض افراد کو ثواب حاصل ہونے کی توقع ہوگی۔ سوشل میڈیا پر روز لطائف گذشت کر رہے ہیں اور پوچھنے والے اکبر الہ آبادی کے نئے نام یا الہ آبادی امرود کی نفیس قسموں کو نئے انداز سے پکارنے کی مشق کرنے میں لگ گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک وزیر اعلا یا ایک وزیر اعظم خود کو تاریخ سے بڑا کردار سمجھ کر گذشتہ زمانے میں داخل ہو کر نام نہاد اصلاح کی کوششیں کرتا ہے تو یہ بات سمجھ جانے کی ہے کہ آثار قیامت ظاہر ہو رہے ہیں اور جمہوری اصطلاحات میں کہا جائے تو سمجھنا چاہیے کہ راج پاٹ سمٹنے کا وقت قریب آگیا ہے۔ اقتدار یا قوم کا غرور اتنا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے لیے دنیا قہر آسمانی کا انتظار کرنے لگے۔

تقسیم ملک کے سلسلے سے ہندی کے مشہور افسانہ نگار اودھیش پریت کی ایک مشہور کہانی ہے۔ ’’علی منزل‘‘ تقسیم ملک کے بعد آخر کار اپنا مکان بیچ کر پاکستان لوگ رخصت ہوگئے۔ دیال بابونے وہ مکان خریدا اور اس گھر میں رہنے لگے۔ پڑوسیوں سے ملاقات کے دوران اپنے آپ یہ تعارف ابھرتا رہا کہ یہی ـ’’علی منزل‘‘ میں رہنے کے لیے آئے ہیں۔ یہ بات دیال بابو کو ناگوار گزرتی تھی۔ انھوں نے مکان پر بڑا سا تختہ ’دیال بھون‘ کا لگایا۔ دور دراز کے رشتہ داروں کو نیا پتا بھیجا گیا۔ ’دیال بھون‘ کے نام سے جب خط آیا اور ڈاکیے نے لوگوں سے اس نام کے گھر کا پتہ پوچھا تو سب نے ناواقفیت کا اظہار کیا، اسی پوچھ گچھ میں خود دیال بابو مل گئے اور انھوں نے واضح طور پر دکھایا کہ اس گھر کا نام ’دیال بھون‘ ہے مگر ڈاکیے نے انھیں مشورہ دیا کہ آپ کو صاف صاف ’’علی منزل‘‘ ہی لکھنا چاہیے تھا،ورنہ آپ کا خط کھو جائے گا۔ منٹو کے افسانے ’’نیا قانون‘‘ میں بھی منگو کوچوان کو انگریز کا جواب ملتا ہے۔ نیاقانون نیا قانون کیا بکتے ہو، قانون وہی ہے پرانا۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب ان پڑھ گنوار افراد اونچے عہدوں تک پہنچ جائیں تو انھیں ہندی اردو افسانے پڑھنے کے لیے کون مشورہ دے اور تاریخ کے عروج و زوال کے حقائق کو سمجھنے کے لیے کون آمادہ کرے؟ ہندستان کا نام بھارت شاید پہلے کبھی ہوگا مگر کیا اسے ہندستان کے مد مقابل قبول عام کا درجہ ملا؟ ’’پانچ جنیہ‘‘ میں اسی ہندستان سے پیچھا چھڑانے کے لیے ’’ہندواستھان ‘‘ لکھنے کا چلن بڑھایا گیا مگر اس کا رواج ہندی کے ان اخباروں میں بھی نہیں ہوپایا جنھیں ہم ہندو وادی کہتے ہیں۔ ہندستان کے آئین میں حقیقی انگریزی متن کا مذاق اڑایا جاتا ہے جہاں یہ لکھا ہوا ہے : ’انڈیا ڈیٹ از بھارتـ‘ یہیں سے ناموں کے جبریہ اندراج کی ایک صورت پیدا ہوتی ہے۔ وہ سلسلہ آج تک قائم ہے۔

جب ملک کی حکومت نفرت کے اصولوں سے چلے گی تو اس کے نتائج اسی انداز سے ہوں گے۔ مغل سرائے کا نام تبدیل ہوا مگر پورا علاقہ جس انداز سے گندی اور غلاظت کا ڈھیر ہے، اس کی صفائی کے لیے تو مرکز اور ریاست دونوں میں حکومت تبدیل کرنی ہوگی۔ بنارس کو وزیراعظم کا پارلیمانی حلقہ کا فخر حاصل ہے، مگر ہندستان کے پس ماندہ علاقوں میں سے نمایاں مقام ہونے کی ذلت سے اسے ہٹانے کے لیے پھر کسی نئے وزیر اعظم یا نئی حکومت کا ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔ وہاں بھی بنارس کے مقابلے دہائیوں سے کاشی اور وارانسی الفاظ رائج کرنے کی مہم چھڑی ہوئی ہے، مگر سنسکرت کے مقابلے پراکرت اور ہندو واد کے مقابلے غیر فرقہ واریت اب بھی اس قدر مستحکم ہے کہ کاشی اور وارانسی کبھی کبھی یاد آنے و الے الفاظ ثابت ہوتے ہیں۔ کلکتہ، بمبئی اور مدراس سب کے نام مقامیت کے جبرمیں بدلے گئے۔ ایک حلقے میں یہ نام رائج بھی ہوئے مگر کوئی بتائے کہ تاریخ کے دفینوں میں اور عالمی برادری میں پرانے نام ہی چل رہے ہیں یا حال کے بدلے ہوئے نام؟دنیا کے قدیم شہروں میں سے ایک روم میں جب پچھلے مہینوں مجھے جانا ہوا تو وہاں یہ لفظ Roma لکھا ملا۔ تب اقبال بہت یاد آئے: ’’یونان و مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے‘‘۔ روم اور روما سے وہاں کوئی خون کی ندی نہیں بہی۔

عظیم آبادمغلوں کے زمانے کا نام ہے اور پاٹلی پتر آجات شترو کے دور میں قائم ہوا مگر شہرت تو پٹنہ کو ہی نصیب ہوئی۔ بودھوں نے وہار اور مہاوہار بنائے مگر صوبے کا نام بہار بن گیا اور وہی مشہور ہوا۔ ’ہند‘ کے ساتھ ’ستاں ‘ لاحقہ لگا اور ’ہندستاں ‘ بنا، جیسے ’گل ستاں ‘ اور ’بوستاں ‘۔ ظاہر ہے اسے سنسکرت کے عالموں نے نہیں بنایا ہوگا اور لازمی طور پر فارسی جاننے والوں نے ہی ایسے نام دیے ہوں گے۔ گائوں گائوں میں آپ چلے جائیے، جہاں جہاں انگریزوں کی کوٹھیاں تھیں ان کے نام کچھ انوکھے مل جائیں گے۔ ہمارے آبائی ضلع چمپارن میں پرسادی انگلش اور جگدیش پور انگلش گائوں کے نام ہیں۔ دلی شہر سے لے کر ملک کے گوشے گوشے میں بہت ساری سڑکیں اور عمارتیں انگریزوں کے نام سے موسوم ہیں۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنھیں ظالموں کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ مگر کیا تاریخ کے ایک دور سے دوسرے دور میں پہنچنے کا یہ معنی ہوتا ہے کہ پچھلے باب کو کھرچ کر ختم کردینا۔ دنیا کے دو تہائی حصے میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کی حکومت تھی۔ کیا ان تمام ملکوں سے ان کے آثار مٹا دیے گئے ؟

صحیح عقل و ہوش کی حکومتیں یا قومیں یہ بات جانتی ہیں کہ تاریخ نے انھیں یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنے حصے کا کر گزریں، کیوں کہ ان سے پہلے بھی وہاں کوئی حاکم تھا اور ان کے بعد بھی کوئی دوسرا وہاں حکمراں ہوگا۔ جو عقل سے پیدل ہوتے ہیں انھیں ہی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ جمہوریت میں کسی کے پاس اتنا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ جو چاہے کر گزرے، مگر حکومت کرنے والے اپنی حد سے بڑھنے میں ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں۔ انھیں ہٹلر اور مسولینی یا دوسرے جابر حکمرانوں کے انجام کی واقفیت نہیں۔ ہندستان اب بھی امن پسند ملک ہے اور سب کے دلوں میں ایک دوسرے سے نفرت پیدا نہیں ہوئی ہے۔ سائنسی اور جمہوری عہد میں مذہبی اصولوں سے ایک انسان تو زندگی بسر کر ہی نہیں سکتا، پورے ملک کے بارے میں سوچنا خواب غفلت میں رہنا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس مرکز سے لے کر صوبوں تک ایسے مداری نما لوگ موجود ہیں جن کا یہ کام ہے کہ حکومت کی ناکارکردگی اور ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے غیرضروری اور نقلی یا اشتعال انگیز سوالوں کو سامنے لائیں اور سماج میں افرا تفری کا ماحول قائم رہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ابھی صوبائی انتخابات میں راجستھان سے لے کر مدھیہ پردیش تک پسپائی کا سامنا کرنے کا مسئلہ درپیش ہے، یہیں سے الٹی گنتی شروع ہوگی جسے اپریل ۲۰۱۹ تک پایۂ تکمیل تک پہنچا ہے۔ اس کے بعد ہی ایسے مداریوں کا کھیل ختم ہوگا۔ ورنہ علی گڑھ، آگرہ، لکھنؤ، فرخ آباد، شاہجہاں پور، غازی آباد، صاحب آباد جیسے شہر تو سب کے سب اترپردیش میں ہی آتے ہیں اور ان کے نام بھی ویسے لوگوں کو کھٹکتے ہوں گے۔ جسٹس کاٹجو نے تو کئی درجن شہروں کے نام پیش کردیے جن پر نام تبدیلی کی گنجائشیں قائم ہوسکتی ہیں۔ خدا کرے اترپردیش کی حکومت کو ہوش آجائے اور دوسرے ترقیاتی کاموں میں وہ مستعد ہو، نفرت کے اصولوں سے چلنے کی مہم پر وہ خود ہی بریک لگائے۔ نہیں تو آنے والا وقت بقول اقبال یہی سلوک کرے گا : تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


2 تبصرے
  1. alhilal کہتے ہیں

    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    خدا کرے مزاج گرامی بعافیت ہو۔
    الہلال میڈیا ایک نیوز پورٹل ہے جو حیدآباد دکن سے شائع ہورہا ہے۔
    مضامین ڈاٹ کام شروع سے مطالعہ میں رہا ہے، اسکے مضامین کا انتخاب بھی معیاری اور بہت خوب ہے۔
    الہلال میڈیا ایک نیوز پورٹل ہے جو حیدآباد دکن سے شائع ہورہا ہے۔
    مضامین ڈاٹ کام سے مضامین کی اشاعت اپنے ویپ سائٹ پر لگانا ہے تو کیا شرائط ہیں ان سے مطلع فرمائیں
    آپ سے گذارش ہے کہ ’’ اخبارات کی ڈائری ‘‘ زیر عنوان نیوز پورٹلس کے کالم میںہماری ویپ سائٹ کی لنک بھی لگائیں۔
    برائے مہربانی مطلع فرمائیں،عین کرم ہوگا
    جزاک اللہ خیرا
    مولانامقصود یمانی حیدرآباد
    +91 9848013781

  2. Iqbal Bokda کہتے ہیں

    عمدہ اور معلومات افزا!

تبصرے بند ہیں۔