اے اہل مرکز تم سے تو یہ امید نا تھی

مھدی حسن عینی رائے بریلی

  گزشتہ ایک عرصہ سے عالم اسلام کی عظیم ترین تحریک دعوت وتبلیغ کے ہیڈ کوارٹر مرکز نظام الدین المعروف بنگلہ والی مسجد میں چل ہی رسہ کشی کے حوالہ سے قلم اٹھانا چاہتا تھا پرانتشار کے خوف سے ہمت ناہوتی تھی ،کیونکہ جس تحریک کا دائرہ کار پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہو اور ایک آواز پر پوری دنیا جس پر لبیک کہتی ہو وہاں کے چھوٹے موٹے معاملات پر خامہ فرسائی انگشت نمائی کے مرادف ہوتا ہے، لیکن چونکہ اب پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے،بات اب دفاع کی نہیں بلکہ اس تحریک کو بچانے کی ہےاس لئےاب  چند سطور لکھنا ہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کے قائدین و مخلص علماء نیز بہی خواہان ملت تک پہونچانا بھی ہے۔
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ بنگلہ والی مسجد کانظام پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے،وہاں کے ارباب حل وعقد کون ہیں،اور کیا چاہتے ہیں؟؟؟
مرکز نظام الدین میں  امارت و شورائیت کا مسئلہ کوئی نیانہیں بلکہ دور ثانی یعنی مولانا یوسف کاندھلوی کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا.حضرت جی مولانا یوسف کاندھلوی کو بانئی تبلیغ مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے اپنا جانشین منتخب کردیا تھا،
یہ انتخاب بظاہر اختلاف سے پاک تھا،اندرون خانہ چی میگوئیاں ہوئی تھیں،پر اکابرین امت نے معاملہ سنبھال لیاتھا،اس کے بعد جب  مولانا انعام الحسن کاندھلوی حضرت جی بنے،اس وقت مولانا ہارون کاندھلوی اور ان کے مابین جوکچھ اختلاف و انتشار ہواوہ سبھی جانتے ہیں، بعدہ مرکز میں شورائی نظام نافذ ہوا اور جمیع ارباب حل وعقد نے اسے قبول کیا البتہ عملاً مولانا زبیر  الحسن صاحب "حضرت جی”کے فرائض انجام دیتے رہے،لیکن مولانا زبیر الحسن صاحب کے انتقال کے بعد جب ان کے فرزند مولانا زہیر الحسن کاندھلوی کو شوری میں داخل کیا گیا تو یہیں سے اختلاف شروع ہوگیا،دیکھتے دیکھتے عالم اسلام کا یہ عظیم سرمایہ ایک خاندانی ورثہ بن گیا جس پر اجارہ داری کے لئے پگڑیاں اچھلنے لگیں،گریبان پکڑے جانے لگے،ہاتھا پائی سے آگے بڑھ کر بات زدوکوب تک  آگئی،بنگلہ والی مسجد کو جمناپار ومیواتیوں اور بستی نظام الدین والوں کے بیچ میدان جنگ بنادیاگیا،حد تو جب ہوگئی کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں افطار کے دسترخوان پر دھینگامشتی ہوئی اور لوگ زخمی ہوئے، جس مرکز میں کبھی ایک سانس کی آواز بھی باہر ناآئی آج وہاں چاروں طرف پولیس پڑی ہوئی ہے،ایسے نازک ترین حالات میں جبکہ امت مسلمہ کاکوئی بھی ادارہ انتشار و تقسیم سے بچ نہیں سکاہے،ہرجگہ عہدہ طلبی ،مفاد پرستی،اورحب جاہ نے اتحاد کا شیرازہ بکھیر دیاہے،ایسے میں پوری دنیا کے مسلمانوں کا مرجع اورتحریک  دعوت تبلیغ کا اٹوٹ ہیڈ کوارٹر جو دنیا کے۳۰ کروڑ مسلمانوں کو ہینڈل کررہا ہو اسے بھی نظر بد لگ رہی ہے،گروپ بازیوں کے سبب دنیا بھر سے آنے والی جماعتیں ایک منفی اثر لےرہی ہیں،دہلی پولیس اور مرکزی حکومت کسی بھی وقت مرکزکے معاملات میں مداخلت کرسکتی ہے،جس مرکز کی بڑی بڑی باتیں چہار دیواری سے باہر نہیں آتی تھیں آج وہاں کی ہر آہٹ اخباروں کی زینت بن رہی ہے،
ایثار و قربانی ،خود پر دوسروں کو ترجیح دینا جس تحریک کاشعار ہو،آج اسےخود غرضی،اناپرستی،اور ذاتی فائدے کی بھٹی میں جھونکا جارہاہے،مرکزیت،وحدت،اور باہمی مفاہمت کے لئے جو تحریک ضرب المثل ہو آج اسی تحریک کے کمانڈر و سپہ سالار باہمی وحدت کو پارہ پارہ کر تحریک کی جڑیں خود ہی کھوکھلی کرنے پر تلے ہوئے ہیں،یقینی طور پر ان حالات کے ذمہ دار ہمارے دونوں ہی بڑے ہیں،مولانا سعد صاحب امارت پربضد ہیں،مولانا زہیر الحسن صاحب شورائیت پر بضد ہیں،اور دونوں کے حامیان آپس میں دست و گریباں ہیں،ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دونوں اپنے ذاتی مفاد کی وجہ سے امت کے اس عظیم سرمایہ کو تباہ کرنے پر اڑے ہوئے ہیں،بلکہ ہوسکتا ہے دونوں کا موقف اپنی جگہ درست ہو،پر سب سے بڑی ضلالت کی بات ہے کہ دونوں کو سامنے رکھ کر بہت سارے غیر مرکزی عناصر اپنی اپنی روٹیاں سینک رہی ہیں،مرکز نظام الدین چونکہ اب سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے،کروڑوں روپئے کے عطایا و ہدایا نے بہت سارے مفاد پرستوں کے کان کھڑے کررکھے ہیں،اس پر مستزاد مولانا سعد صاحب کی علمی غلطیوں اور تقریری خطاؤوں نے ان عناصر کو مزید سر ابھارنے کا موقعہ دیا ہے، اس لئے اب علماء امت و زعماء ملت کا دینی و ملی فریضہ ھیکہ فوری طور پر اس مسئلہ میں مداخلت کریں اور اس امانت کو لٹنے سے بچائیں،دنیا بھر کے مسلمانوں کو ہزار ٹکڑوں میں بٹنے سے محفوظ رکھیں،جہاں تک بات طریقہ کار کی ہے تو سب سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خاندان کاندھلہ نے ایک صدی سے اس تحریک کو اپنے خون پسینہ سےسینچا ہے اس لئے مفاہمت کے وقت ان کی موجودگی بہت ضروری ہے،تبلیغی خانوادہ کی اگر بات کریں تو اسوقت ماشاءاللہ بانئی تبلیغ حضرت مولانا الیاس صاحب کاندهلوی رحمه اللہ کے خاندان کے بڑے افراد میں سے حضرت مولانا افتخار الحسن کاندهلوی دامت برکاتہم  باحیات هیں اور آپ اس وقت  کاندھلہ خاندان بڑے بزرگ و سرپرست ہونے کے ساتھ ساتھ مولانااظہار الحسن کاندهلوی رحمه اللہ کے چهوٹے بهائ بهی ہیں،دوسری اور حضرت مولانا شیخزکریاصاحب کاندهلوی رحمه اللہ کےصاحبزادے، مولانا سعد صاحب کاندهلوی کے ماموں اور مولانا افتخار الحسن کاندهلوی دامت برکاتہم کے داماد پیر طریقت حضرت مولانا طلحہ صاحب کاندهلوی دامت برکاتہم بھی باحیات ہیں.نیز عالمی شوری کے رکن وسرپرست، مرکز نظام الدین کے صدر اور بانئی تبلیغ کے رفیق حاجی عبد الوہاب بھی بحمد للہ ابھی موجود ہیں،ان کے علاوہ خاندان میں ہی مولانا سلمان صاحب مظاہر العلوم  اور مولانا شاھد الحسینی صاحب مظاہر العلوم بھی ہیں۔ علاوہ ازیں برصغیر کی  بااثرو فیصلہ کن  شخصیات میں سےشیخ الاسلام مفتی تقی صاحب عثمانی،مبلغ اسلام مولاناطارق جمیل صاحب،قائد ملت مولانا سید ارشد مدنی،عالمی رکن شوری مولانا عبد الرزاق صاحب بنگلہ دیشی،مفکر ملت مولانا رابع صاحب حسنی ، مہتمم دارالعلوم دیوبند مفتی ابو القاسم صاحب نعمانی،مولانا سالم صاحب قاسمی.مولانااحمد لاٹ صاحب مرکز نظام الدین .مولانا ابراہیم دیولہ صاحب مرکز نظام الدین .مولانا یعقوب صاحب مرکز نظام الدین،کے علاوہ مولانا سجاد نعمانی صاحب،مولانا محمود مدنی صاحب ، مولانا بدرالدین اجمل صاحب،مولانا ولی رحمانی صاحب جیسے مؤقر علماء و زعماء نیز ہمدردان قوم و ملت موجود ہیں۔ اب ان سبھی کی ذمہ داری بنتی ھیکہ نہایت  مخلصانہ و دردمندانہ طور پرسر جوڑ کر بیٹھیں،اور اس مسئلہ کا مفید حل نکالیں،اس اختلاف کی بنیادی وجہ دونوں ذمہ داروں کا اپنا وجود اور تسلط جمانا ہے۔ اس لئے یا تودونوں کو ایک طرف کرکے امارت پاکستان منتقل کردی جائے، اوریا مرکز میں ہی شوری بناکر مولانا زهیر الحسن  اور مولانا سعد صاحب  دونوں کو فقط رکن شوری اور مبلغ بنادیا جائے. اور سرپرستی و "حضرت جی”کادرجہ مولانا ابراھیم دیولہ کو دے دی جائے،اور مرکز و کاشف العلوم کے انتظام و انصرام کو علیحدہ کرکے دونوں اداروں کو متملقین و چاپلوسوں سے پاک کردیا جائے،نیز مرکز میں ملک بھر کے ان فعال علماء کی نمائندگی بڑھائی جائے جنہوں نے عرصہ سے اپنا سب کچھ دعوت و تبلیغ کے لئے قربان کررکھا ہے،اور ایسا اس لئے ضروری ھیکہ تبلیغ سے مستقل جڑے افراد کے علاوہ علماء کو ذمہ دار یا سرپرست بنانا مسئلہ کاحل نہیں بلکہ اختلاف کا ایک نیا دروازہ کھولنے کے مترادف ہوگا،پھر شاید بات اتنی آگےبڑھ جائیگی کہ  ایک اور وقف یاحروف تہجی کا لیبل لگائے بغیر مرکز کا امتیاز مشکل ہوجائےگا۔
بہرکیف اب تک جو کچھ ہوا وہ سبھی کلمہ گو مسلمان کے لئے بالخصوص علمائے دیوبند کے لئے ایک بدترین و سیاہ ترین داغ ہے،لیکن مستقبل میں ایسا نا ہو اور گھر کی بات گھر میں ہی رہے اس لئے فوری طور پر اقدام کرنا ہی اس کاعلاج ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔