اے ایم یو میں جناح کی تصویر کیوں ہے؟

نایاب حسن

پہلے حیدرآبادیونیورسٹی کولپیٹا، پھرجے این یوکوسبوتاژکرنے کی کوشش کی، ڈی یوکے رامجس کالج میں طوفان اٹھایا، اب سنگھیوں کی نگاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر ہے، وجہ سیم ہے، جوپہلے سانحات میں تھی، وہی ’’اینٹی نیشنل ‘‘والا چونچلا، مگر دوسری جگہوں پراس کاصرف سیاسی اینگل تھا، اے ایم یومیں مذہبی رنگ بھی ہے، فی الحال کرناٹک میں انتخابات ہونے ہیں، اگلے سال اِنہی دنوں میں عام انتخابات ہونے ہیں، سوتیاری توکرنی پڑے گی؛ لہذاساورکرکی ذریت اس کی تیاری میں لگ چکی ہے، اے ایم یوپراشکال واعتراض کے کئی دورگزرچکے ہیں، ایک دورتووہ بھی گزراہے، جب اس کے وجودپرہی سوالیہ نشان لگ گیاتھا، وہ دورمابعدآزادی یاتقسیمِ ہندکے فوراً بعدکادورتھا، اس وقت ابوالکلام آزادنے سینہ سپرہوکراس کے وقارواعتبارکوبرقرارکھنے کی جاں کاہ کوششیں کیں اوربالآخریونیورسٹی کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے تھے، آزادی کے کچھ دنوں بعدیہ شوشہ بھی چھوڑاگیاتھاکہ یونیورسٹی کے نام سے ’’مسلم ‘‘کالفظ ہٹایاجائے، مگریہ ہنگامہ بھی جلدہی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ابھی تازہ بی جے پی حکومت میں بھی کبھی لائبریری میں لڑکیوں کے عدمِ داخلہ،کبھی بیف کھانے کھلانے ،توکبھی اقلیتی کردار وغیرہ کے حوالے سے یہ ادارہ قومی ڈسکشن کا موضوع رہ چکاہے۔

فی الحال چنددن قبل ایک خبرمیڈیامیں یہ آئی تھی کہ آرایس ایس نے یونیورسٹی انتظامیہ سے ادارے کے کیمپس میں شاکھالگانے کی اجازت مانگی ہے، بات اُتنی گمبھیرتونہیں تھی، مگرمیڈیاکی ’’عنایت‘‘سے یہ گمبھیرترین ہوگئی اورقومی سطح پراس کی چرچاہوئی، اس کے دوچاردن بعدہی یعنی کل پرسوں یہ خبرآئی کہ علی گڑھ سے بی جے پی کے ایم پی ستیش گوتم نے اے ایم یوکے وی سی طارق منصورکوایک خط لکھاہے، جس میں یہ تحریرکیا کہ انھیں بعض ذرائع سے یہ اطلاع ملی ہے کہ اے ایم یو کے سٹوڈینٹس یونین ہال میں مسلم لیگ کے سربراہ اور بانیِ پاکستان محمدعلی جناح کی تصویرلگی ہوئی ہے، خبروں کے مطابق ممبرپارلیمنٹ صاحب نے وی سی سے اس کی وجہ دریافت کی تھی اوراس کے لیے دودن کی مہلت دی گئی تھی، یعنی یہ خط پیرکوبھیجاگیا اوروی سی کوبدھ تک جواب دینے کوکہاگیا، چوں کہ وی سی نے بدھ تک جواب نہیں دیاتھا؛ اس لیے پچیس تیس بھگوائیوں کے ذریعے اے ایم یوپر’’پرہار‘‘کردیاگیا، یہ بھی اتفاق ہی کہاجائے گاکہ بدھ کے دن ہی سابق نائب صدرجمہوریہ حامدانصاری یونیورسٹی میں مدعوتھے اور انھیں اے ایم یوکی تاحیات ممبرشپ پیش کی جانی تھی، حامدانصاری سے توویسے بھی سنگھی ٹولہ بیزارہے، کچھ ہی دنوں قبل ان کے ایک بیان پرقیامت اٹھاچکاہے؛ اسی وجہ سے بعض لوگ تویہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہونہ ہو یہ پوری شرانگیزی حامدانصاری کو ’’لپیٹنے ‘‘کی کسی سازش کاحصہ ہو،جوبالآخرناکام ہوگئی۔ایک لطیفہ یوگی کابینہ کے وزیر سوامی پرساد موریہ کے بیان پربھی رونما ہوچکاہے،جس میں انھوں نے جناح کوایک عظیم مجاہد آزادی کہا تھا،بعدمیں وہ بے چارے صفائی دیتے پھررہے ہیں اور ان کے پیچھے ہندومہاسبھاکے صدرسوامی چکرپانی سمیت بی جے پی کے کئی نیتالٹھ لے کر دوڑرہے ہیں۔

ویسے یہ بات کتنی حیرت ناک؛ بلکہ صحیح لفظوں میں شرم ناک ہے کہ یوپی کے وزیرِ اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی تیارکردہ ٹیم ’’ہندویواواہنی‘‘ کے پچیس تیس بندوق بردارغنڈے یونیورسٹی کے مرکزی دروازے سے اندرگھسنے میں کامیاب ہوگئے اوران کے ساتھ پولیس بھی تھی، جوگویاانھیں’’پروٹیکشن‘‘فراہم کرنے کے لیے تعینات کی گئی تھی،جبکہ یہی پولیس اُس وقت فل فارم میں آگئی، جب اے ایم یوکے طلبہ ان سنگھی غنڈوں کی شرانگیزی کے خلاف احتجاج کرنے لگے اورمارمارکرانھیں لہولہان کردیا، مطلب یوگی کی شیطان صفتی پورے سسٹم اورپولیس نظام میں بھی سرایت کرچکی ہے، سب وہی کریں گے، جو ’’مہاراج‘‘چاہتے ہیں:

تفوبرتواے چرخِ گردوں تفو!

جہاں تک سٹوڈینٹ یونین ہال میں محمد علی جناح کی تصویر کا معاملہ ہے،توجاننے والے جانتے ہیں کہ یہ تصویر ۱۹۳۸ء سے لگی ہوئی ہے اوراس کا ایک تاریخی پس منظر ہے،اُس سال جناح کویونیورسٹی یونین کی لائف ٹائم ممبرشپ دی گئی تھی،اس سے پہلے گاندھی جی کو یہ ممبر شپ مل چکی تھی اوراب تک یونین کی جانب سے بھیم راؤ امیڈکر،مولاناابوالکلام آزاد،جواہر لال نہرو،سی وی رمن،جے پرکاش نرائن وغیرہ کوبھی یہ ممبر شپ دی گئی ہے اور اسی ہال میں ان لوگوں کی تصویریں بھی آویزاں ہے؛لہذاجناح کی تصویرکوہٹانے کامطالبہ اوراس پر اصرارکرنا بے جااور تاریخی جہالت پر مبنی ہے،چاہے یہ مطالبہ کسی کی جانب سے بھی ہو۔ معاملہ یہاں یہ نہیں ہے کہ اے ایم یووالے جناح کے سیاسی نظریے کی حمایت کرتے ہیں،معاملہ تاریخ کے تحفظ کاہے اور بی جے پی پلس آرایس ایس تاریخ کی حفاظت نہیں،تاریخ کی’’ری رائٹنگ‘‘میں وشواس رکھتے ہیں؛لہذا انھیں جب پتاچلاکہ اے ایم یومیں جناح کی تصویر لگی ہوئی ہے،توان کا اُچھلنا یقینی تھا۔اس سلسلے میں یونیورسٹی کے ترجمان شافع قدوائی ، تاریخ کے پروفیسرمحمد سجاد اور موجودہ یونین صدرمشکورعثمانی نے ایک دوسری بات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے ،وہ یہ کہ اے ایم یوکی سٹوڈینٹ یونین ایک خود مختار باڈی ہے،اس کے فیصلے،اس کی پالیسیاں،اس کے منصوبے وہ خود طے کرتی ہے؛لہذا جس بی جے پی کے بندے نے اس سلسلے میں خط لکھاہے،اسے یونین کے ذمے داروں کوخط لکھنا چاہیے تھااور ان سے جواب مانگنا چاہیے تھا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔