کبھی حیات کی زنجیر سا لگے ہے مجھے

احمد نثارؔ

کبھی وہ عکس کبھی آئنہ لگے ہے مجھے

جنون عشق کا چہرہ بھی کیا لگے ہے مجھے

۔

کبھی امید کبھی حوصلہ لگے ہے مجھے

کبھی حیات کی زنجیر سا لگے ہے مجھے

۔

میں تیرے در پہ جبیں کیا جھکا لیا تب سے

زمیں زمان سبھی زیرِ پا لگے ہے مجھے

۔

جو کل تلک مرے دل کی دعا سا لگتا تھا

وہ شخص آج محض بد دعا لگے ہے مجھے

۔

وہ ہنس رہے ہیں مگر طنز لے کے باتوں میں

دلوں کے بیچ یہاں فاصلہ لگے ہے مجھے

۔

جو میرے اشک پہ روتا رہا کئی برسوں

نہ جانے رشتئہ انساں میں کیا لگے ہے مجھے

۔

یہ زندگی بھی جو پائی تو چند لمحوں کی

یہ ہلکے پانی پہ اک بلبلہ لگے ہے مجھے

۔

میری ہنسی کو جو لْوٹا ہے زندگی کے لیے

ہنسے وہ شخص تو کیوں ضرب سا لگے ہیں مجھے

۔

نثارؔ آپ کا لہجہ قسم خدا کی یہاں

کسی غریب کے دل کی صدا لگے ہے مجھے

تبصرے بند ہیں۔