کیا حق اطلاعات کا قانون بیمار پڑ گیا؟

رويش کمار

برطانیہ میں جھوٹ بولنے کی وجہ سے وہاں کی وزیر داخلہ امبیر روڈ کو استعفی دینا پڑا۔ انہوں نے پارلیمانی کمیٹی سے یہ جھوٹ بول دیا کہ ان کی حکومت کا باہر سے آکر بسنے والے امیگریٹس کو نکالنے کا کوئی مقصد نہیں طے کیا ہے لیکن جب گارڈین اخبار نے انہی کا لکھا ہوا خط چھاپ دیا، جس میں وہ وزیر اعظم تھیرسا سے کہہ رہی ہیں کہ امیگریٹس کو نکالنا مشکل نہیں ہے۔ جھوٹ پکڑا گیا تو وزیر صاحبہ کو استعفی دے دینا پڑا۔ جبکہ وہ کافی اہم کام کر رہی تھیں اور وزیر اعظم کی قریبی مانی جاتی تھیں۔ بھارت میں کیا ایسا ہوتا ہے؟ ابھی حال ہی میں آپ نے آدھار کیس میں ایک رپورٹ پڑھی ہوگی۔ سپریم کورٹ نے جب حکومت سے پوچھا کہ ہم نے کب کہا تھا کہ موبائل نمبر کو آدھار سے لنک کرنا ضروری ہے۔ جبکہ ستمبر 2017 میں مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے ٹویٹ کیا تھا کہ سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ موبائل نمبر کو آدھار سے لنک کرنا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ نے جب پوچھا کہ ٹیلی کام محکمہ کے سرکلر میں ایسا کیوں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ موبائل سم کو آدھار سے لنک کرنا ہے۔ تب حکومت کے نمائندے وکیل کچھ اور صفائی دینے لگے۔ وزیر جی نے اپنے ٹویٹ میں جو جھوٹ بولا اس پر افسوس تک ظاہر نہیں کیا۔ یہ بھارت ہے۔ یہاں جھوٹ ہی چلتا ہے۔ خدا، اللہ، گاڈ سب معاف کر دیتے ہیں۔

کرناٹک انتخابات کے آخری مرحلے میں طوفانی ریلی کا آغاز کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا ہے کہ کرناٹک میں آپ کو جو زبان پسند ہو، اس زبان میں، ہندی بول سکیں تو ہندی، انگریزی بول سکتے ہیں تو انگریزی۔ آپ مادری زبان بولتے ہیں تو مادری زبان۔ آپ 15 منٹ ہاتھ میں کاغذ لیے بغیر کرناٹک میں اپنی حکومت کے اچیومنٹ کرناٹک کی عوام کے سامنے بول دیجیے۔ 15 منٹ کی تقریر کے درمیان کم از کم 5 بار مسٹر وشوےسريا جی کے نام کا ذکر کر دیجیے۔ بس میڈیا میں ہیڈلان بچھ گئی کہ مودی نے دیا جواب راہل کو۔ بالکل دیا مگر کیا وہی کہا جو راہل نے کہا تھا۔ 23 اپریل کو راہل گاندھی نے کہا تھا کہ نیرَو مودی جی کا معاملہ ہے، للت مودی کا معاملہ ہے، وجے مالیا کا معاملہ ہے، رافیل کا معاملہ ہے، نریندر مودی پارلیمنٹ میں کھڑے ہونے سے گھبراتے ہیں۔ میں آپ کو بتا رہا ہوں 15 منٹ وہاں پر میری تقریر کرا دو، 15 منٹ وہاں مودی جی کے سامنے میری اسپیچ کرا دو، 15 منٹ میں رافیل کی بات کروں گا، نیرَو مودی کی بات کروں گا، مودی جی وہاں پر کھڑے نہیں رہ پائیں گے۔ ہم نے دونوں کے بیان قریب قریب ہو بہ ہو پڑھے ہیں۔ اب آپ فرق دیکھیے۔

راہل نے کہا کہ رافیل ، للت مودی اور نیرَو مودی کے معاملے میں مودی جی 15 منٹ بھی نہیں ٹک پائیں گے۔ وزیر اعظم نے راہل کے اس چیلنج پر کچھ نہیں بولا، 15 منٹ کو نکال کر اپنا 15 منٹ رکھ دیا اور اپنی شرطیں بھی۔ ٹی وی کے لیے اس سے اچھا مسالا کیا ہو سکتا ہے۔ دونوں کے ہی بیان آپ غور سے دیکھیں گے تو تالی بجائیں گے۔ جیسے سنیما میں پہلے فرنٹ اسٹال کے لیے کچھ سین ہوتے تھے، ایکشن سین آتے ہی تالی بج جاتی تھی۔ یہی فرق آپ کو سمجھنا ہے۔ نہ تو راہل گاندھی اپنی حکومت کی کامیابی پر 15 منٹ بولیں گے اور نہ ہی وزیر اعظم نیرَو مودی، رافیل معاہدہ پر۔ مگر میڈیا میں اور کل کے تمام ہندی اخبارات میں آپ کے سامنے 15 منٹ بمقابلہ 15 منٹ کی ہیڈلان پروس دی جائے گی۔ آپ کو بھی آئی پی ایل میچ کی طرح کھیل سے زیادہ تماشے پر مزہ آئے گا۔

ٹی وی اسی طرح سے آپ کو ناظرین بناتی ہے، مسئلے کو غائب کر دیتی ہے اور مسئلے کے نام پر آپ کے سامنے تفریح پروس دیتی ہے۔ ٹی وی کا کردار صرف یہی ہے۔ یہی پہلے بھی ہوتا تھا، یہی آج بھی ہو رہا ہے اور یہی کل بھی ہوگا۔ ٹی وی کے سوال آپ کے سوال بنا دیے جائیں گے۔ آپ اپنےسوال بھول جائیں گے۔ کوئی بھی اس سوال پر بحث نہیں کرے گا کہ پینشن کو لے کر کانگریس اور بی جے پی کی کیا رائے ہے۔ ان کے درمیان کس قسم کی بحث ہے، بینک ملازمین کی سیلری کو لے کر، ان کے کام کرنے کی پوزیشن کو لے كر کانگریس اور بی جے پی میں کیسی بحث ہے، آدھار کو لے کر کانگریس اور بی جے پی کے درمیان کیا بحث ہے، دونوں کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ جب تک آپ ناظرین گروپ کا حصہ ہیں، کسی بھیڑ کا حصہ ہیں آپ واقعی لطف اندوز ہوں گے کہ راہل گاندھی نے نہلا مارا تو مودی نے بھی دہلا مار دیا۔ یہ ہوا چھکا۔ جیسے ہی آپ بھیڑ یا گروپ سے الگ ہو کر ساٹھ سال کی كنسو دیوی کی طرح الگ ہوتے ہیں، آپ اکیلے پڑ جاتے ہیں۔ نظام آپ کو اس قدر توڑ دیتا ہے کہ نہ تو کانگریس آتی ہے نہ بی جے پی آتی ہے، آپ کی مدد کے لیے۔ كنسو دیوی دور دراز کے دیہات میں نہیں رہتی ہیں بلکہ دہلی میں رہتی ہیں۔ شوہر کی موت کے بعد بیوہ پینشن مل رہی تھی لیکن اچانک بند ہو گئی۔ وہ تین سال سے یہی جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ان کی پینشن کیوں بند ہوئی۔ 1500 روپے کی پینشن کیوں بند ہوئی یہ جاننے کے لیے انہوں نے حق اطلاعات کے تحت معلومات طلب کی۔ چار سال گزر گئے تب مرکزی انفارمیشن کمشنر نے حکم دیا کہ غلطی كنسو دیوی کی نہیں ہے، حکام کی ہے۔ مگر اس کے بعد بھی كنسو دیوی کو پینشن نہیں ملی اور نہ ہی حکام پر جرمانہ لگا۔

كنسو دیوی کی یہ حالت کیوں ہوئی، کیونکہ حق اطلاعات کے تحت معلومات دلانے کی جواب دہی جن اداروں کو دی گئی ہے، ان اداروں کی عمارتیں تو ہیں مگر ان میں کمشنر نہیں ہیں۔ اسی 6 مارچ کو جنوبی دہلی کے منركا میں وزیر اعظم مودی نے مرکزی انفارمیشن کمیشن کے فائیو اسٹارنما ہیڈکوارٹر کا افتتاح کیا۔ افتتاح کے وقت میڈیا رپورٹ میں اس پانچ منزلہ عمارت کو اسٹیٹ آف دی آرٹ بلڈنگ اور ماحول دوست بتایا گیا۔ مگر 60 کروڑ کی لاگت سے بنی اسٹیٹ آف دی آرٹ بلڈنگ میں اسٹیٹ کا آرٹ دیکھیے کہ یہاں ہونے چاہئے 11 کمشنر مگر چار عہدے خالی پڑے ہیں۔ اس سال کے آخر تک چار اور ریٹائر ہو جائیں گے، جن میں چیف انفارمیشن کمشنر بھی ہیں۔ آپ وزیر اعظم کی ویب سائٹ پر جائیں گے تو وہاں ایک انتہائی خوبصورت بات لکھی ہے کہ شفافیت کے ذریعہ ہی لوگوں کو برابری کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد بھی یہاں 11 کے 11 انفارمیشن کمشنر نہیں ہیں۔ اگر یہ عمارت کچھ کم خوبصورت بھی ہوتی ہے، اسٹیٹ آف دی آرٹ نہیں بھی ہوتی اور 11 کمشنر ہوتے تو كنسو دیوی جیسی عورت کو اپنی پینشن کی اطلاع کے لیے چار سال چکر نہیں لگانے پڑتے۔

ابھی سوچیے مرکزی انفارمیشن کمیشن کے ہیڈ کوارٹر کا یہ حال ہے تو ریاستوں میں کیا حال ہوگا۔ هرديش جوشی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک کی کئی ریاستیں ایسے ہیں جہاں انفارمیشن کمیشن کے دفتر میں ایک بھی کمشنر نہیں ہے۔ کیا یہ دیش کی جنتا کے ساتھ مذاق نہیں ہے۔ اصول کے مطابق آبادی اور زیر التوا معاملوں کو دیکھتے ہوئے ہر ریاست میں 11 انفارمیشن کمشنروں کی تقرری کی جا سکتی ہے۔ آندھرا پردیش کو بنے ہوئے چار سال ہو گئے مگر یہاں ایک بھی کمشنر نہیں ہے۔ کیرالہ اور شمال مشرق کی کئی ریاستوں میں صرف ایک ہی کمشنر ہے۔ ہماچل پردیش اور جھارکھنڈ میں تو صرف دو ہی انفارمیشن کمشنر ہیں۔ گجرات، گوا اور آسام میں تین انفارمیشن کمشنر ہیں۔ یہاں بھی 8 عہدے خالی ہیں۔ بہار میں صرف 4 انفارمیشن کمشنر ہیں، یہاں بھی 7 عہدے خالی ہیں۔

حق اطلاعات کوئی عام حق نہیں ہے۔ افسر جب بغیر بات کے عوام کے کام نہیں کرتے ہیں تو عوام اسی قانون کا سہارا لے کر اپنا دفاع کرتی ہے۔ لیکن اگر ریاستوں سے لے کر دہلی تک کمشنر ہی نہیں ہوں گے تو اس غریب عوام کا کیا ہوگا جو پینشن، راشن یا دیگر طرح کی سرکاری مدد کے لیے یہاں سے وہاں گھوم رہی ہوتی ہے۔

35 سال کی رینا طلاق شدہ ہیں۔ تین بچے ساتھ ہیں۔ انہیں اسکول بھیجنا ہے۔ فیس کم ہو اس کے لیے کاسٹ سرٹیفکیٹ چاہیے۔ دہلی کے دکشن پوری کی ہیں۔ آمدنی محکمہ نے کہہ دیا کہ بچوں کے والد کا بھی کاسٹ سرٹیفکیٹ چاہیے۔ وہ سی آئی سی گئیں۔ آر ٹی آئی لگائی۔ دو سال ہو گئے، ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ معاملہ کیا ہے۔ حق اطلاعات کے تحت معلومات مانگی تو دو سال سے معلومات نہیں دے رہے ہیں۔

جب سیاسی پارٹیاں، میڈیا کوئی ساتھ نہیں دیتا ہے تب اسی آر ٹی آئی کے سہارے یہ عام عوام اپنے حق کی لڑائی لڑ رہی ہوتی ہے۔ سترک ناگرک سنگھٹن کی رپورٹ کے مطابق صرف معلومات کمیشن میں قریب 2 لاکھ سے زیادہ اپیل زیر التوا ہے۔ اس کی بنیاد پر اندازہ لگایا گیا کہ ملک کے تمام محکموں میں 50 لاکھ سے زیادہ معاملے زیر التوا ہو سکتے ہیں۔ مطلب اطلاعات نہیں دی جا رہی ہیں یا پھر دینے میں تاخیر کی جا رہی ہے۔ سترک ناگرک سنگھٹن کا اندازہ ہے کہ بنگال کی حالت یہ ہے کہ وہاں اگر آپ آج آر ٹی آئی لگائیں گے تو چالیس سال بعد آپ کی اپیل کا نمٹارا ہوگا۔

6 مارچ کو جب دہلی میں مرکزی انفارمیشن کمیشن کے ہیڈ کوارٹر کا افتتاح کیا گیا تھا تب دی پرنٹ نام کی ویب سائٹ نے ایک رپورٹ شائع کی تھی کہ دو سال سے کمشنروں کی بھرتی نہیں ہوئی ہے۔ ستمبر 2016 میں دو عہدوں کے لیے اشتہار نکلا تھا مگر کسی کی تقرری نہیں ہوئی۔ 6 مارچ کو ہیڈ کوارٹر کے افتتاح کے وقت وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ ‘نظام میں جتنی زیادہ شفافیت بڑھتی ہے، معلومات کا بہاؤ اتنا ہی آسان ہوتا ہے، اتنا ہی لوگوں کا حکومت پر اعتماد بڑھتا ہے۔ یقینی طور پر معلومات کے اس بہاؤ میں قومی انفارمیشن کمیشن کا بھی اہم کردار رہا ہے۔

جب وزیر اعظم بھی مانتے ہیں کہ معلومات کا بہاؤ آسان ہو جائے گا تو لوگوں کا حکومت پر اعتماد بڑھے گا پھر كنسو دیوی جیسی عورت کو اطلاع حاصل کرنے میں چار سال کیوں لگ رہے ہیں۔ کیوں دو سال سے سی آئی سی کے ہیڈ کوارٹر میں کمشنروں کے چار چار عہدے خالی ہیں۔ یہی نہیں، میڈیا رپورٹ پڑھیں گے تو وزیر اعظم کے دفتر سے آر ٹی آئی کے تحت جو معلومات مانگی جاتی ہے اس میں سے بڑی تعداد میں جواب نہیں ملتا ہے، یہی جواب ملتا ہے کہ معلومات جمع کی جا رہی ہے۔

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔