اے بے کسی سنبھال اٹھا تا ہوں سر کو میں 

حفیظ نعمانی
گجرات کے اوٹا میں مردہ گائے کی کھال اتارنے والے دلت لڑکوں کے ساتھ جو کچھ اونچی ذات کے ہندؤں نے کیا۔  اور جس بے رحمی کے ساتھ انہیں باندھ کر اور ننگا کرکے دیر تک مارا اور پھر وہ منظر پورے ملک کے ٹی وی چینلوں پر دکھایا گیا۔  اگر سکھوں کے لڑکوں کے ساتھ کیا گیا ہوتا تو صرف گجرات نہیں دہلی پنجاب ہی نہیں آدھا ہندوستان پھونک دیا گیا ہوتا۔ یہ صرف اتفاق تھا کہ پارلیمنٹ کے اجلاس چل رہے تھے اور وزیر داخلہ شری راج ناتھ سنگھ کٹہرے میں تھے۔  اس لئے انھوں نے ایک جملہ تو یہ کہا کہ وزیر اعظم اس خبر سے بہت دکھی ہیں۔  اور اپنے بیان میں ہر طرح کی صفائی دینے کے بعد کہا کہ ان کو مارنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔  اور جانچ سی آئی ڈی کے سپر د کر دی گئی ہے۔  اور گجرات حکومت نے متاثرین کو2-2لاکھ روپے دینے کا اعلان کردیا ہے۔
کوئی کیا کرے کہ ملک کا جو قانون ہے اسی کے حساب سے سزا دی جائے گی ورنہ جو کچھ ہوا اور جس طرح ہوا اسکا انصاف تو دنیا کو بنانے والے اور اسے چلانے والے پاک پروردگار کے بتائے قانون سے ہی ہو سکتا کہ’’ان النفس بالنفس والعین بالعین الخ‘‘جان کے بدلے جان ،آنکھ کے بدلے آنکھ،ناک کے بدلے ناک،اور کان کے بدلے کان۔ اگر خدا کا بتا یا ہوا انصاف دیا جاتا تو جنہوں نے انہیں مارا تھا ان سب کو اس طرح ننگا کرکے باندھا جاتا۔  اور ان مظلوم لڑکوں کو وہی ڈنڈے دئے جاتے اور کہا جاتاکہ جتنا مار سکتے ہو مارو اور جتنی طاقت سے مار سکتے ہو مارو۔  اور جاؤ عیش کرو۔  دادری کے اخلاق کے قتل میں جو ہو رہا ہے۔  وہ اپنی جگہ۔  جو گجرات میں ہوا وہ تو سب کو معلوم ہے کہ مری ہوئی گائے تھی۔  اور انکا پیشہ ہی مری ہوئی گائے اوربیل کا چمڑا اتارنا ہے۔
ڈاکٹر امبیڈکر کہہ چکے ہیں کہ اگر برہمن اور ٹھاکر کھال اتارنے کی وجہ سے اور اسے کاندھے پر لاد کر لانے کی وجہ سے تمہیں اچھوت سمجھتے ہیں تو تم یہ کام چھوڑ دو او ر کہہ دو جس کی گائے ہے وہ اسکے آخر رسو م ادا کرے۔  جن لوگوں نے ان دلت لڑکوں کومارا ہے وہ اپنے آپ کو گؤ رکشکھ کہتے ہیں۔  اور ہر ہندو گائے کھانے والوں سے اس لئے لڑنے مرنے پر تیار ہے کہ گائے ان کی ماں ہے۔  اگر اس میں ذرا بھی سچائی ہے تو کیا ہندو ماں کو مرنے کے بعد مہتروں اور چماروں کے سپرد کردیتے ہیں کہ اسے گھسیٹتے ہوئے لے جاؤ۔ اور اسکا جو حشر کرنا چاہو وہ کرو۔  رات ایک آچاریہ ونو با بھاوے کے چیلے ٹی وی پر بات کررہے تھے کہ گاندھی جی اور ونو باجی کہا کرتے تھے مردہ گائے بیل کی کھال ہندوؤں کو خود اتارنا چاہئے۔  وہ برسوں سے یہ کام کررہے ہیں۔
گجرات میں اس واقعہ کے بعد پورا دلت سماج باغی بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔  سب سے بڑا کام تو یہ کیا کہ مری ہوئی گایوں سے ٹرک بھر کر حکومت کے افسروں کی کوٹھیوں میں لاکر الٹ دئے۔  اور کہا کہ لو یہ ہیں تمہاری مائیں اب اطمینان سے ان کی پوجا کرتے رہو۔  اور اسکے بعد سرکاری گاڑیوں کو پھونکنا شروع کیا تو درجنوں بسیں اور کاریں پھونک دیں۔  تھانوں میں آگ لگادی اور کئی جگہ دور تک آگ لگا دی۔  اور جگہ جگہ راستے جام کر دئے۔
وہ گجرات جسکے بارے میں سنا ہے کہ جب اسمبلی کا اجلاس نریندر مودی کے زمانے میں ہوا کرتا تھا تو حزب مخالف کوکوئی الزام لگا کر اجلاس کے خاتمہ تک ہاؤس سے باہر کر دیا جاتا تھا۔  اور سارا کام ایسے ہوتا تھا جیسے یہ اسمبلی نہیں مودی جی کا کاروبار ی ادارہ ہے۔ لیکن ہر کسی کو ہمیشہ نہیں رہنا ہے۔  مودی جی اب وزیر اعظم ہیں اور وہ دنیا کے چپہ چپہ پر اپنا نام لکھوادینا چاہتے ہیں۔  انکی سب سے بڑی تمنا یہ ہے کہ دنیا انہیں نہرو سے بڑا لیڈر کہنے لگے۔  اس لئے وہ جو کام بھی کرتے ہیں اسکے بارے میںیہ ضرور کہہ دیتے ہیں کہ گذشتہ 70سال میں یہ کام کسی نے نہیں کیا۔
آج گجرات کا جو حال ہے ایسا حال بھی کبھی نہیں ہوا کہ ایک بہت بڑ ا پٹیلوں کا طبقہ انکا مخالف ہو گیا ہے۔  اسکی وجہ جو بھی بیان کی جارہی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایڈوانی جی نے ایک پٹیل وزیر اعلیٰ کو بے وجہ ہٹاکر اور یہ کہہ کر نریندر مودی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا کہ ہمیں ان سے کچھ اہم کا م لینا ہیں۔  یہ تو ایڈوانی جی ہی جانتے ہو نگے کہ وہ کام ہوئے یا نہیں۔  ؟لیکن ایک کام سب نے دیکھا کہ سابق وزیر اعلیٰ کیشو بھائی پٹیل کی آہیں اپنا اثر کر گئیں۔  اور ایڈوانی جی نے جو کام مودی جی سے کرایاتھا کہ پٹیل کو گھر بٹھا دیا وہی کام پٹیل کی آہوں نے کیا کہ مودی نے ایڈوانی جی کو گھر بٹھا دیا۔  اب پٹیل سامنے کھڑے ہیں۔  اور اتنی ہی تعداد میں دلت بھی سامنے آگئے ہیں جو ایک بوڑھی خاتون وزیر اعلیٰ کو اتنا بدنام کریں گے کہ وہ خود چھوڑ کر چلی جائیں گی۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ جب ان لڑکوں کو دشمنوں کی طرح باندھ کرمارا جارہا تھا تو بلا مبالغہ ڈھائی سو چوٹی اور جنیو والے ہندو گھیرا بنائے اس تماشہ کو دیکھ رہے تھے۔  اور جب انھیں ننگا کرکے بازار میں گھمایا تو وہ شریف زادے پیچھے پیچھے چل رہے تھے ایسا لگتا تھا کہ ان میں ایک بھی مرد نہیں ہے سب نامرد ہیں۔  اور ان سے بڑی مجرم پولیس اور حکومت ہے جس نے کہہ دیا کہ نو کو گرفتار کرلیا۔ یعنی عیش کرنے کے لئے جیل بھیج دیا۔  یعنی دلتوں سے بچالیا۔
گجرات میں دلتوں کی لگائی ہوئی آگ کے شعلے ابھی دھواں بننے ہی نہ پائے تھے کہ اتر پردیش بی جے پی کے نائب صدر دیا شنکر سنگھ نے سابق وزیر اعلیٰ مس مایاوتی کو ایسی گالی دیدی کہ انھوں نے راجیہ سبھاکو سر پر اٹھا لیا۔  انکے گندے الفاظ اور کہیں پڑھ لیجئے گا لیکن الزام یہ تھا کہ وہ پیسے لیکر ٹکٹ دیتی ہیں۔  کیا دیا شنکر بی جے پی میں نئے نئے آئے ہیں ؟اگر پہلے سے ہیں تو کیا بہار کے الیکشن کے وقت انہوں نے نہیں سنا تھا کہ بہار سے ممبر پارلیمنٹ بی کے سنگھ اور شترو گھن سنہا بہاری بابو نے الزام لگایا تھا کہ پارٹی کے ٹکٹ مافیا ڈان اور کرپٹ سرمایہ داروں کو پیسے لیکر دئے ہیں اور پرانے کا رکنوں کو نظر انداز کیا گیا ہے ؟اس وقت دیا شنکر سنگھ نے اپنی پارٹی کے گجراتی صدر کو وہ نام کیوں نہیں دیا جو پیسے لیکر کا م کرنے والوں کو دیا جاتا ہے ؟آج کوئی پارٹی پاک صاف نہیں ہے۔  صرف اسے ایک ہاتھ اٹھانے والا چاہئے۔  اسکے لئے دونوں کام ہوتے ہیں۔  کسی کو ٹکٹ دیکر پیسے بھی دئے جاتے ہیں کیوں کہ وہ جیتنے والا گھوڑا ہوتا ہے۔  اور کسی سے پیسے لیکر ٹکٹ دیا جا تا ہے کیوں کہ اسکے گودام میں ردی کاغذ کی طرح نوٹ پڑے ہوتے ہیں۔  بات صرف اتنی ہے کہ جن ہاتھوں میں حکومت ہے ان کے بڑ ے لیڈر(ہم نہیں)یہ کہتے ہیں کہ ایک ہزار سال کی غلامی کے بعد ہمیں حکومت ملی ہے۔  جبکہ ہم اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم سو برس انگریزوں کے غلام رہے ہیں جسکی وجہ سے ذہنیت میں اتنی غلامی باقی ہے کہ کبھی کہیں سننے کو مل جاتا ہے کہ اس سے تو اچھا ہے کہ انگریز پھر آجائیں۔  جب سو سال والوں کا یہ حال ہے تو اپنے نزدیک ایک ہزار سال والوں کا کیا حال ہوگا ؟یہ گجرات اتر پردیش دادری ،میرٹھ اور ہر اس جگہ نظر آرہا ہے کہ ہر جانے والی گائے کٹنے کے لئے جاتی دکھائی دے رہی ہے اور گو شت کی ہر بوٹی گائے کے گوشت کی کہی جارہی ہے۔  اور بس ٹرک میں جانور فروخت ہونے کے لئے بازار جارہے ہوتے ہیں وہ بنگلہ دیش کو اسمگل ہوتے نظر آتے ہیں۔  یعنی ہرطرف بھو ت ہی بھوت ہیں اس کے لئے 70برس نہیں 170برس کی ضرورت ہے تب سمجھ میں آئے گا کہ حکومت کرنا ہنسی کھیل نہیں ہے۔  اور یہ نااہلی ہی ہے کہ پہلے پٹیل اٹھے اور اب دلت سینہ تان کر سامنے کھڑے ہیں کہ کب تک ملوں جبیں سے اس سنگ در کو میں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔