شام کی جنگ اور ترکی- امریکہ تعلقات

ڈاکٹر صلاح الدین ایوب

ملک شام کی جنگ اب صرف شام کی نہیں رہی؛ دنیا بھر کی مضبوط ترین فوجی طاقتوں نے اس تاریخی سرزمین کو تختہ مشق بنا کر رکھ دیا ہے۔ نئی نئی تباہ کن جنگی ایجادات کی نمائش کی جارہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اسلحوں کی صنعت زوروں پر ہے۔ پٹرول کی کالا بازاری بڑھتی جارہی ہے۔ عوام کو ایسی صورت حال میں ڈھکیل دیا گیا ہے کہ وہ اسلحوں کی خریداری اور اس کے استعمال پر مجبور ہیں۔

ڈھائی لاکھ سے زائد انسانوں کے قتل، پچاس لاکھ سے زائد انسانوں کی ہجرت اور لاکھوں عمارتوں کے کھنڈر ہوجانے کے بعد بھی جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ البتہ جنگ کا رخ بار بار بدل رہا ہے۔ اتحاد بن رہے ہیں بن کر ٹوٹ رہے ہیں۔ دشمنیاں اس قدر آگے نکل چکی ہیں کہ ایک دشمن کا سامنا کرنے کے لیے دوسرے دشمن سے ہاتھ ملایا جارہا ہے۔ جنگی ڈپلومیسی اپنے عروج پر ہے، خفیہ ملاقاتوں اور معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے، ہر اتحادی دوسرے اتحادی پر شک میں مبتلا ہے۔ بہرحال جنگ جاری ہے۔

جنگ کی شروعات کچھ اس طرح ہوئی تھی کہ عرب انقلابات کی لہر شام میں پہنچی اور عوام نے برسوں سے چلی آرہی بادشاہی حکومت کے خلاف پرامن احتجاج شروع کردیا۔ شامی فوج نے احتجاج دبانے کے لیے عوام کا قتل عام شروع کیا۔ عوام نے اپنی حکومت کے خلاف اسلحے اٹھا لیے اور خانہ جنگی کی شروعات ہوئی۔ اب چونکہ شام کا بادشاہ شیعہ تھا، عرب سنی ممالک اس کے خلاف کھڑے ہوگئے اور شیعہ ممالک اس کی مدد کے لیے اتر آئے۔ خارجی مداخلت کے نتیجے میں جنگ سخت ہوتی چلی گئی، مختلف ملکی و غیرملکی گروہ مختلف مقاصد کے ساتھ اس جنگ میں کود پڑے۔
عوام کا مطالبہ تو بادشاہ کی معزولی اور متبادل نظام حکومت کا قیام تھا لیکن اب جنگ بہت دور نکل چکی تھی۔ کسی کو تیل چاہیے تھا، کسی کو اسلحے بیچنے تھے، کسی کو شیعہ سنی دشمنی کی آگ بھڑکانی تھی، کسی کو عرب انقلابات کے سامنے دیوار کھڑی کرنی تھی، کسی کو حکومت چاہئیے تھی، کسی کو اثر رسوخ بڑھانا تھا، کسی کو اپنی طاقت منوانی تھی۔

جنگ کی شروعات عوام اور حکومت کے بیچ ہوئی، شیعہ ممالک کی مداخلت نے اسے شیعہ سنی جنگ بنا دیا، پھر عراق کی القاعدہ سے ٹوٹ کر داعش کے شام میں داخل ہوتے ہی جنگ میں دھشت گردی کا ہنگامہ ہوا، جب فتوحات کے بعد ‘الله اکبر’ کے نعرے بلند ہوئے تو حکومت مخالف گروہوں کی اسلام پسند اور سیکولر کے بیچ درجہ بندی ہوئی۔ جیسے جیسے اپوزیشن کی درجہ بندی ہوتی گئی، اتحاد بنتے اور ٹوٹتے گئے۔

ابتدائی دور میں شام کی حکومت کو روس، ایران اور لبنان کی پشت پناہی حاصل تھی اور باغیوں کو سنی عرب ممالک، ترکی، یوروپ اور امریکہ کی تائید حاصل تھی۔ باغی مختلف علاقوں میں الگ الگ گروہ بنا کر حکومت کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہے تھے، ان سب کا بنیادی مقصد ایک ہی تھا لیکن آپس میں اتحاد نہیں تھا۔ عراق کے شہر موسل سے اسلحوں کا ذخیرہ لوٹ کر داعش نے جب شام کی جنگ میں حصہ لینا شروع کیا تو حکومت سے لڑنے کے ساتھ ساتھ وہ علاقوں پر قبضہ کرنے کی ہوڑ میں حکومت کے باغی گروہوں سے بھی جنگ کرنے لگے اور جنگ کو مختلف محاذوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا۔

داعش کی مداخلت سے قبل ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دمشق بری طرح پیچھے ہٹنے لگا اور عوام کو فتح بہت قریب نظر آنے لگی۔ ملک کے تاناشاہ بادشاہ، بشار کے ملک چھوڑ کر بھاگ جانے تک کی خبریں میڈیا میں آنے لگیں۔ داعش کی مداخلت نے جنگ کو صرف مختلف محاذوں پر تقسیم ہی نہیں کیا بلکہ چھوٹے چھوٹے گروہوں سے ٹکرا کر انہیں کمزور کر ڈالا۔ داعش کی مداخلت سے بشار کی حکومت کو بے پناہ فوائد حاصل ہوئے۔

اب صورت حال ایسی ہوچلی کہ چھوٹے چھوٹے گروہوں کے نوجوان اپنی بقاء کے خاطر داعش میں شامل ہونے لگے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ داعش حکومت کے بعد سب سے بڑی طاقت بن چکی ہے اور شام کی حکومت داعش اور دھشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر عوامی بغاوت کو روس اور ایران کی مدد سے کچل دے گی اور کوئی آواز بھی نہیں اٹھا سکے گا۔ روس کی جانب سے کسی بھی خارجی مداخلت کی صورت میں فوجی کارروائی کی دھمکیاں تیز ہوچکی تھیں۔

اب شام کی عوام کو حکومت کے ساتھ ساتھ داعش کا بھی سامنا کرنا تھا۔ امریکہ نے باغیوں کو داعش اور حکومت شام کے خلاف لڑنے کے لیے فوجی ٹریننگ دینے کا وعدہ کیا اور داعش پر ہوائی حملے کرنے کے لیے ترکی سے ہوائی اڈے کے استعمال کی اجازت کا مطالبہ کیا۔ ترکی نے شام کی عوام کے حق میں امریکہ کو ۲۰۱۵ میں انکرلک کا ائیر بیس استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔

ساتھ میں ترکی نے شام میں اتحاد قائم کرنے کے لیے فوری اقدامات کئے اور شام کے چھوٹے چھوٹے گروہوں کو متحد کرکے جیش الفتح کی تشکیل دی۔ چند ہی دنوں میں جیش الفتح نے شام کا ایک اہم شہر فتح کرلیا۔ جیش الفتح کی اس زوردار پیش قدمی کو دیکھ کر شام کی حکومت بوکھلا گئی۔ اس فتح کے کچھ ہی روز بعد روس نے باقاعدہ شام میں جنگی کاروائی شروع کردی اور داعش کا نام لے کر جیش الفتح کے علاقوں پر جم کر بم اور میزائل مارے۔

ادھر ٹریننگ دینے کے لیے امریکہ نے جب باغیوں کا انتخاب شروع کیا تو وہ یہ دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے کہ یہ باغی تو اسلام پسند ہیں اور فتح حاصل ہوجانے کی صورت میں یہ اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کریں گے۔

اب امریکہ کے سامنے سوال یہ کھڑا تھا کہ آخر شام کے سلسلے میں اس کا کیا لائحہ عمل ہو؟ کس گروپ کی پشت پناہی کی جائے؟ داعش کو پوری دنیا دھشت گرد شمار کرتی ہے، حکومت شام روس کی حمایتی ہے، باغی گروہ اسلام پسند ہیں۔ ایسے میں امریکہ نے کردوں کا انتخاب کیا جوکہ عمومی طور پر یاتو کمیونسٹ ہیں یا سیکولر ہیں۔

ترکی بالکل نہیں چاہتا تھا کہ امریکہ شام میں کردوں کی مدد کرے اس کی وجہ یہ تھی کہ شام اور ترکی کے کردوں کے آپسی روابط بہت مضبوط ہیں اور ترکی کے کرد علیحدگی پسند ہیں اور ترکی کی حکومت سے برسرپیکار ہیں۔ شام کے کردوں کے مضبوط ہونے سے ترکی کی پریشانیاں بڑھ سکتی ہیں۔ البتہ ابھی حال میں امریکہ نے ترکی کو اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ شام کے کرد ترکی کی سرحدوں سے دور رہیں گے اور شام و ترکی کے بیچ کسی طرح کی نقل و حرکت نہیں کریں گے۔

فی الحال شام میں ترکی، امریکہ اور روس الگ الگ گروہوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ امریکہ نے ترکی سے بگڑتے ہوئے تعلقات کو دیکھتے ہوئے شام میں کردوں کے علاقے میں ہوائی پٹیاں بنالیں ہیں البتہ ابھی ترکی نے امریکہ کو اپنے ائیر بیس سے بے دخل تو نہیں کیا ہے البتہ فوجی بغاوت کی کوشش کے وقت اس ائیر بیس کی بجلی ضرور کاٹ دی تھی تاکہ رن وے نظر نہ آنے کی وجہ سے امریکی طیارے اڑان نہ بھر سکیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شام کے سلسلے میں ترکی اور امریکہ کے اختلافات کے باوجود امریکہ کب تک انکرلک کے ائیربیس کو استعمال کرسکے گا۔

حال میں ہونے والے کچھ واقعات امریکہ اور ترکی کے تعلقات کے لیے بہت اہم ہوجاتے ہیں۔ ایک طرف تو ترکی نے امریکہ سے اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ حالیہ فوجی بغاوت کی رہنمائی کرنے والے ترکی کے سابق شہری فتح الله گولن کو ترکی کے حوالے کردیا جائے گولن اب امریکہ کی شہریت حاصل کرچکے ہیں اور ترکی کی سیاست میں ان کا گہرا عمل دخل رہا ہے۔

دوسری طرف امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے ترکی کے صدر اردوغان کے اس منصوبے کی مخالفت کی ہے کہ فوجی باغیوں کو موت کی سزا دی جائےگی اور ترکی سے ناٹو کی ممبرشپ چھین لینے کی دھمکی دی ہے۔

اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ترکی کے تعلقات دنیا کے کئی مضبوط ممالک سے بیک وقت بہت خراب ہو چکے ہیں اور سبب ترکی کا اسلام پسندوں کی پشت پناہی رہا ہے۔ غزہ کی مدد کے خاطر اسرائیل سے تعلقات خراب ہوئے، شام کے اسلام پسندوں کی مدد کے خاطر روس سے تعلقات خراب ہوئے، اور اب کمیونسٹ کردوں کی مخالفت میں امریکہ سے تعلقات خراب ہورہے ہیں۔

بہرحال ترکی کے اگلے اقدامات اور گولن کے سلسلے میں امریکہ کا فیصلہ امریکہ اور ترکی کے تعلقات کی سمت طے کریں گے۔

تبصرے بند ہیں۔